Laqa-e-Elahi

لقائے الٰہی

Rate this post

لقائے الٰہی

لقائے الٰہی

لقاسے مراد دیدار یا چہرہ ہے۔ قرآن کی جن آیات میں بھی ’لقا‘ کا لفظ استعمال ہوا اس سے مراد دیدار ہی ہے۔
اللہ پاک کو اسم ذات سے دیکھا جاسکتا ہے۔
 لقائے الٰہی میں جو چیز حائل ہے وہ نفس ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دیدار کی خواہش پر کہا کہ لَنْ تَرَانِیْ(تو نہیں دیکھ سکتا) تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اللہ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا بلکہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی مخاطب تھے ’’تو مجھے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔‘‘ جب اللہ نے تجلی کی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔ آپؑ کا بے ہوش ہونا ہی اس بات کی گواہی ہے کہ آپ علیہ السلام نے کچھ دیکھا تبھی تو بے ہوش ہوگئے یعنی دیدارِالٰہی کی تاب نہ لاسکے۔ ہوش میں آتے ہی آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’میں پہلا مومن ہوں‘‘ مومن وہ ہے جو اللہ کو دیکھ کر اس پر ایمان لائے۔ یعنی حضرت موسیٰ نے اللہ کا دیدار کیا البتہ وہ اس کی تاب نہ لاسکے اور بے ہوش ہوگئے۔
انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے، پہچان ہی دراصل لقائے الٰہی ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو عارفین یعنی فقرا کو عطا کی جاتی ہے۔ 
لذ ّتِ دیدارسے بہتر کوئی لذ ّت نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا دیدارنور ِ بصارت سے نہیں نور ِ بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔
باطن میں لقائے حق تعالیٰ (دیدارِالٰہی) سب سے اعلیٰ مقام ہے۔ یہ تصور اسمِ اللہ ذات اور مرشد ِکامل اکمل کی راہبری سے حاصل ہو تا ہے۔لیکن فقر میں یہ بھی کامل مرتبہ نہیں ہے اس میں بھی دوئی پائی جاتی ہے۔ فقر کی انتہا تو یہ ہے کہ انسان ذاتِ حق میں فنا ہوکر بقا حاصل کر لے تب ہی انسان، انسانِ کامل یامردِ مومن بنتا ہے ۔
اگر کوئی یہ گمان کرے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف قدموں سے چل کر پہنچا جا سکتا ہے تو وہ گمراہی پر ہے ۔اللہ تعالیٰ جہات( اطراف)، زمان( وقت)، مکان، الوان( رنگ)، دِن رات، حدودِ اقطار  (قطر کی جمع۔ دائرے کو دوحصوں میں تقسیم کرنے والا خطDiameter) اور حدودِمقدار( Quantity) سے منزّہ اور مبرّہ ( برَی،پاک)   ہے۔لقائے الٰہی کا سفر انسان کی اپنی حقیقت کی پہچان یا ’نفس کے عرفان‘ یا خود اس کے باطن کا سفر ہے۔ راہِ قلب (نورِ بصیرت) ہی سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے۔  
مدرسہ میں علم سے اللہ تعالیٰ کو جانا جاتا ہے اور خانقاہ میں عشق سے اللہ کو پہچانا جاتا ہے۔
’امانت‘ سے مراد ذاتِ حق تعالیٰ ہے۔
جو اللہ سے مل گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ سکون صرف لقائے الٰہی میں ہے۔
صراطِ مستقیم مانگنے کا مطلب ہے اللہ پاک کو مانگنا۔
عبادت وہی کامل ہے جو اللہ کو دیکھ کر کی جائے خواہ کسی بھی انداز اور طریقے سے کی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عبادت کا اصل طریقہ ’معراج‘ تھا۔ یعنی اللہ کو دیکھ کر عبادت کرنا۔ 
اللہ کی پہچان اورلقا روحِ قدسی کو حاصل ہوتا ہے۔ روحِ قدسی فطرتِ سلیمہ ہے جس پر ہر انسان پیدا ہوتا ہے۔
کسی فقیر نے لقائے الٰہی کی نعمت چھوڑ کر بادشاہی قبول نہیں کی لیکن بادشاہوں نے لقائے الٰہی کی خاطر بادشاہی چھوڑ دی۔
’’ھُو‘‘ احدیت میں کیسا ہے کوئی نہیں جانتا لیکن جب وہ وحدت میں نزول کرتا ہے تو جو صورت ظاہر ہوتی ہے وہ احدیت والی ہی ہوتی ہے۔
اللہ پاک کے انوار و تجلیات اور چیز ہیں اور ذات اور چیز ہے۔ عام انسانوں اور اللہ پاک کے انوار و تجلیات کے درمیان جو پردہ ہے وہ ظلمات کا پردہ ہے اور طالبِ مولیٰ اور اللہ پاک کی ذات کے درمیان جو پردہ ہے وہ انوار و تجلیات کا پردہ ہے۔
میں کو مٹا کر منَ نظر آتا ہے، منَ کو جھکا کر ربّ نظر آتا ہے۔
 نبی وہ دعا کبھی نہیں کرتا جو نا ممکن اور ممنوع ہو۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے اُس کے دیدار کی طلب کی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے۔ دیدار کواللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے اپنی جگہ پر قائم رہنے سے مشروط کیا، مشروط کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے۔