علم
علم
علمِ ظاہر اور علمِ باطن کو اکٹھا کرنے کا نام علمِ حقیقی، دین و ایمان ہے۔ اگر صرف علمِ ظاہر پر توجہ دی جائے تو جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور صرف علمِ باطن میں بھی کامل دین نہیں۔ دونوں کا اکٹھا ہونا ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔
موجودہ دور میں مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جب علمِ باطن کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو ان قرآنی آیات کو، جن میں علمِ باطن کے متعلق واضح اور روشن ہدایات موجود ہیں، کچھ لوگ متشابہات کہہ کر آگے گزر جاتے ہیں۔ آج کل کے دور میں یہی ہماری گمراہی کی بڑی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے ’باطن‘ کو فراموش کردیا ہے اور صرف ظاہر کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔
علم اگر مشاہدے کے ساتھ نہ ملے تو بے کار ہے۔
اللہ پاک نے کل اسما کا علم آدم علیہ السلام اور اولادِ آدم کو روزِ ازل ہی عطا کر دیا اور یہ علم ان لوگوں پر منکشف فرماتا ہے جو غوروتفکر کرتے ہیں۔
علم کی بے شمار اور لاتعداد اقسام ہیں لیکن بہترین علم وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے فانی ہے اور فانی کا علم فانی ہے اور ’باقی‘ کا علم حیاتِ جاودانی ہے۔ اس لیے جو علم’ باقی‘ کی پہچان اور معرفت نہ کرائے وہ جہالت ہے اور جو علم ’باقی ‘تک لے جائے وہی علمِ حقیقی ہے۔
علم کی دو بنیادی اقسام ہیں: علمِ حصولی اور علم ِحضوری۔ علمِ حصولی سے مراد وہ علم ہے جو عقل کے دائرہ کار میں رہ کر حاصل کیا جاتا ہے یعنی وہ تمام علوم جو ہم دیکھنے، سننے، سمجھنے اور سونگھنے کے حواس یعنی حواسِ خمسہ سے حاصل کرتے ہیںیا وہ علم جو کسی مدرسہ ، کالج، یونیورسٹی سے یا کتب پڑھ کر یا تحقیق کرکے حاصل کرتے ہیں۔
علمِ حضوری یا علمِ لدنیّ سے مراد وہ علم ہے جو عشق سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ نگاہ کا علم ہے جو مرشد توجہ سے طالب کے قلب پر وارد کرتا ہے۔ علمِ حضوری یا علمِ لدنیّ ذکر، فکر، تفکر، تدبر، مراقبہ، الہام، کشف اوروَھم کسی بھی ذریعے سے عطا کیا جاسکتا ہے۔اس علم میں کتب اور پڑھنے پڑھانے کا دخل نہیں ہے۔ بس قلب میں اللہ تعالیٰ کا نور چمکتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے اسرار کھول دیتا ہے۔ اس علم کے حصول کا سب سے بڑا وسیلہ اور ذریعہ مرشد کامل سروری قادری اور ذکر و تصورِ اسمِ اللہ ذات ہے ۔
جو بابِ علم سے گزر کر علم کے شہر میں داخل ہو گیا وہ کامل علم والا ہوگیا۔
عارفین نے اپنی کتب میں ہمیشہ علم کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے ۔ان کی کتب میں جہاں کہیں بھی علم کی مذمت نظر آتی ہے وہاں علمِ بے مغز مراد ہے ۔علم ایک نور ہے اور علم عقل کے اوپر پڑا ہوا ایک پردہ بھی ہے۔ وہ علم جو حقیقت تک پہنچادے وہ نور ہے اور جو حقیقت سے دور کردے وہ علم عقل پر ایک پردہ بن جاتا ہے۔
ابتدائے فقر میں لازم ہے کہ طالب اپنے علم کو چھوڑ دے کیونکہ علم سے نکلو گے تو علیم کو پاؤ گے۔علیم ملے گا تو علم خودبخود مل جائے گا۔
ہر زمانہ میں علم ایک خاص سمت میں ترقی کرتا ہے۔ علم کو غوروتفکر سے دریافت کیا جاتا ہے۔
علمِ فقر وہ ترازو اور کسوٹی ہے جو کھرے کو کھرا اور کھوٹے کو کھوٹا ثابت کر دیتی ہے۔
علم پر فضلِ الٰہی کو ترجیح دینا چاہیے کہ جو کچھ حاصل ہوا علم سے نہیں بلکہ فضلِ الٰہی سے حاصل ہوا۔ اللہ کا فضل شاملِ حال نہ ہو تو علم بندے کو گمراہ کر دیتا ہے۔
علمِ ظاہر عارضی بارش کی طرح ہے اور علم ِ باطن اصلی چشمہ کی مثل ہے کیونکہ یہ علومِ ظاہر کی نسبت زیادہ نفع رساں ہے۔
علمِ باطن کے بغیر علمِ ظاہر فرقہ پرستی، مسلک پرستی اور جھگڑے پیدا کرتا ہے۔
ظاہری علم پر زور کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسان آفاق میں گم ہے۔ اگر وہ علمِ باطن کے ذریعے اپنی ہستی کو پہچان لے تو آفاق اس کو اپنے اندر دکھائی دے۔
علم کے بغیر اگر مشاہدہ کھل جائے تو انسان پاگل ہو جائے۔
علم کے مطابق جو حال میں سے گزرتا ہے وہی فقر کو سمجھتا ہے۔
علم کی منزل ذاتِ حق ہے جس نے یہ منزل حاصل کر لی وہ زندہ ہے۔ ورنہ مردہ ہے۔