خود شناسی
خود شناسی
خود شناسی یہ ہے کہ انسان کی تخلیق دو چیزوں سے عمل میں لائی گئی ہے ایک چیز تو ظاہری وجود ہے جسے جسم یا تن بھی کہتے ہیں اور جسے آنکھ سے دیکھا اور ہاتھوں سے چھوا جاسکتا ہے۔ اور دوسری چیز باطن ہے جسے روح، باطن یا دل کہتے ہیں۔ اسے نہ تو ظاہری آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے او رنہ ہی ظاہری ہاتھوں سے چھوا جاسکتا ہے۔ اسے صرف باطن ہی کی آنکھ سے دیکھا بھالا جاسکتا ہے۔ اس کا تعلق اس ظاہری جہان سے ہرگز نہیں بلکہ اس کا تعلق عالمِ غیب سے ہے۔ اس سے یہ ظاہری جسم چھن بھی جائے تو اس کو قائم رہنا ہے کہ اسے فنا نہیں ہے۔ معرفتِ الٰہی اور جمالِ خداوندی کا مشاہدہ اس کی خاص صفت ہے۔ عبادت کا حکم اسی کو ہے، ثواب وعذاب اسی کے لئے ہے‘ سعادت وشقاوت اسی کا مقدر ہے اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہونا ہی معرفتِ الٰہی کی چابی ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی شنا سائے حقیقت‘ راز پنہاں سے واقف ہستی یا کوئی مفکر پیدا ہوا ہے، اس نے اس حقیقت کا پردہ ضرور فاش کیا ہے کہ ’عرفانِ نفس‘ یا ’خودی کی پہچان‘ سے ہی اصل آگہی حاصل ہوتی ہے۔ اور نہ صرف اللہ اور اس کا تخلیق کردہ یہ عالم ہی بلکہ پوری کائنات (یعنی تمام عالمین) انسانی قلب میں لطیف صورت میں موجود ہے۔ یہ کوئی محض فلسفیانہ اصول نہیں جو ذہنی لطف یا دماغی کسرت کی تشفی کے لیے گھڑا گیا ہو ،یہ زندگی کی وہ حقیقت ہے جو قرآن و حدیث، انبیا کرام اور فقرائے کاملین کی تعلیمات اور تجربے کی مضبوط بنیاد پر کھڑی ہے۔
پہلے خود کو جاننا اور پہچاننا ضروری ہے۔ دنیا میں کیا ہورہا ہے، اسے دیکھنا بعد کی بات ہے۔
خودی کی پہچان کی منزل تک بتدریج کسی مرشدِ کامل کی زیر نگرانی پہنچا جا سکتا ہے۔
جب انسان اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے توہی اسے اللہ تعالیٰ کی پہچان نصیب ہوتی ہے۔ انسان کی روح ، قلب ،من، باطن ، خودی اور ضمیر کا قفل کھولنے والی اور نورِ بصیرت پیدا کرنے والی کلید ذکر و تصور ’اسمِ اللہ ذات ‘ہے ۔
جسے اِس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل نہیں ہوتی وہ روحانی طور پر اندھا رہتا ہے اِسی لیے قیامت کے دن بھی اسے اللہ تعالیٰ کی پہچان حاصل نہیں ہوگی اور اسے اندھا کر کے اُٹھایا جائے گا۔