مرکزِفقر(Markaz e Faqr)
مرکز سے مراد کسی بھی شے یا نظام کا وہ نقطہ یا مقام ہے جہاں اس کی تمام قوتیں مرکوز ہوتی ہیں، صلاحیتیں مجتمع ہوتی ہیں اور جہاں سے اس شے یا نظام کے تمام جزو اپنی بقا اور کارکردگی کے لیے قوت و صلاحیت حاصل کرتے ہیں جیسے کہ ہر فلکی نظام کا مرکز اس کا سورج ہے، ہر قوم کا مرکز اس کا لیڈر ہے، ہر خاندان کا مرکز اس کا سربراہ ہے۔ جو شے یا فرد اپنے مرکز سے جدا ہو جاتا ہے اس کی بقا خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بقول اقبالؒ
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی!
فقر جو آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فخر اور ورثہ ہے اور مومنین کے لیے روحانی و باطنی قوتوں کا منبع ہے، بھی ایک مستقل نظام کے تحت ظاہری و باطنی دنیا میں کارفرما ہے اور اس نظام کا بھی ایک مرکز ہے جہاں سے نہ صرف طالبانِ مولیٰ کو راہِ حق طے کرنے کے لیے قوت و فیض جاری کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ظاہری و باطنی معاملات طے کیے جاتے اور مسائل حل کیے جاتے ہیں۔ معاملاتِ فقر سے متعلق تمام فیصلے بھی اسی مرکز سے صادر کیے جاتے ہیں اور اللہ کی جماعت کے فروغ کے لیے مختلف نوعیت کے احکامات نافذ کیے جاتے ہیں۔ نہ صرف فقر بلکہ نظامِ تکوین کو بھی اسی مرکز کے تحت چلایا جاتا ہے۔ جب تک اس مرکز سے مہر نہ لگے نہ کوئی شخص ولایت پا سکتا ہے نہ حکومت۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ فقر کا مرکز تمام کائنات کا باطنی مرکز ہے جہاں سے درحقیقت تمام تر احکامات و فیصلے جاری اور نافذ ہوتے ہیں۔ فقر کا یہ مرکز صاحبِ فقر فنا فی اللہ بقا باللہ فقیرِ کامل اور انسانِ کامل جو زمین پر اللہ کا خلیفہ و نائب ہے، کی مبارک ذات ہوتی ہے اور جس جگہ وہ اپنی مجلس قائم کرے (مسجد، خانقاہ یا اس کا مزار) وہ مقام بھی مرکزِفقر ہوتا ہے یعنی جہاں صاحبِ فقر ہوگا وہی مرکزِفقر ہوگا اور صاحبِ فقر ہی صاحبِ مرکز ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے فرمایا:
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے، خدائی!
فقر کا اوّلین، بنیادی اور اکمل ترین مرکز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مبارک ذات ہے جو فقر کے مختارِ کل ہیں۔
مختارِ کل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
فقر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک ذات ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود سرتاپا فقر ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’جامع الاسرار‘ میں فرماتے ہیں:
جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے معراج کی رات حق تعالیٰ کے حضور میں سلطان الفقر سے ملاقات کی اور اس سے بغلگیر ہو کر سر سے پائوں تک روبرو ہو کر فقر سے لپٹ گئے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود فقر میں بدل گیا۔ (جامع الاسرار)
’محک الفقر کلاں‘ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام براق پر سوار ہوئے، جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آگے آگے پاپیادہ دوڑے۔ عرش سے فرش تک دونوں جہان آراستہ کیے گئے اور اٹھارہ ہزار عالم کو پیراستہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے لایا گیا۔ جبرائیل علیہ السلام (سدرۃ المنتہیٰ سے) آگے بڑھنے سے رُک گئے۔ اس سارے اہتمام کے باوجود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی نگاہ ذاتِ حق تعالیٰ سے نہ ہٹائی چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی (سورۃ النجم۔17)
ترجمہ: بہکی نہیں آپ کی نگاہ نہ حد سے بڑھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس تمام اہتمام پر توجہ نہیں دی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں صورتِ فقر کا مشاہدہ کیا اور مراتبِ سلطان الفقر کی لذّت سے لطف اندوز ہوئے، فقرِ نورِ الٰہی سے باطن کو معمور فرمایا اور قابَ قوسین کے مقام پر اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال سے مشرف ہو کر ذاتِ حق تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر مقامِ فقر فنافی اللہ میں داخل ہوئے، ملاقاتِ فقر سے غرق فنا فی اللہ مع اللہ ذات ہو کر رفیقِ فقر ہوئے اور محبت، معرفت، عشق، شوق، ذوق، علم، حلم، جود و کرم اور خلق سے متخلقّ ہوئے جیسا کہ فرما یا گیا ہے:
تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: اپنے اندر اخلاقِ الٰہیہ پیدا کرو۔
اس طرح کمالِ فقر پر پہنچ کر جب سارا دریائے توحید آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود میں جمع ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبانِ دُرّفشاں سے اِس کا اظہا ر کرتے ہوئے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَ الْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مزید فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ ۔ اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَاَفْتَخِرُّ عَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ۔
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔ فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیاو مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لے کہ تمام پیغمبروں نے مرتبہ فقر پر پہنچنے کی التجا کی لیکن نہ پا سکے۔ وہ تمام فقر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے خود اپنی اُمت کے سپرد فرمایا۔ یہ فقرِمحمدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فخر ہے۔ فقر فیض ہے۔ (امیر الکونین)
اقبالؒ فرماتے ہیں:
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم ایں متاعِ مصطفیؐ است
ترجمہ: فقر ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کی کیفیت کا نام ہے۔ یہ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی میراث ہے اور ہم اس کے امانت دار ہیں۔
پس فقر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی متاع ہے اور جس کو بھی اس متاع کے لیے منتخب کیا جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم و اجازت سے کیا جاتا ہے۔ تمام معاملاتِ فقر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حکم قطعی و آخری ہے۔
آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب مدینہ منورہ میں ظاہری طور پر موجود تھے تو صاحبِ فقر کی وہاں موجودگی کے باعث مدینہ اور خصوصاً مسجدِنبویؐ فقر کا مرکز رہی۔ جنگوں کی تیاریاں، دینی و دنیاوی معاملات کا حل، طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس غرض ہر کام اسی مرکز سے ہوتا تھا۔ وہیں ظاہری و باطنی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لگتی۔ یاد رہے کہ مرکز صرف ایک ہی نقطہ اور ایک مقام ہوتا ہے اور مرکز ِفقر صرف اور صرف وہ مقام ہوتا ہے جہاں صاحبِ فقر موجود ہو۔ اس بات کا ثبوت مسجدِضرار کا واقعہ ہے جو منافقوں نے مسلمانوں کو ان کے مرکز مسجدِنبویؐ سے دور کرنے کے لیے بنائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کی تعمیر کو سخت ناپسند فرمایا حالانکہ وہاں بھی ظاہری طور پر اذان دی جاتی اور نماز پڑھی جاتی۔ اللہ فرماتا ہے:
اور (منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے ایک مسجد تیار کی ہے (مسلمانوں کو) نقصان پہنچانے اور کفر (کو تقویت دینے) اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے پہلے ہی جنگ کر رہا ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے (اس مسجد کے بنانے میں) سوائے بھلائی کے کوئی اور ارادہ نہیں کیا اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقینا جھوٹے ہیں۔ (سورۃ التوبہ۔107)
لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مسجد کو جلانے کا حکم دے دیا۔ پس یہ ثبوت ہے کہ جہاں صاحبِ فقر انسانِ کامل مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ موجود نہ ہو وہ مقام خواہ ظاہری طور پر کتنا ہی پاکیزہ اور اہم دکھایا جائے، فقر کا مرکز ہرگز نہیں ہو سکتا۔
فقر کا اصل منبع تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مبارک ذات ہی ہے لیکن ان کے تحت اختیارات، مناصب و مراتب کا ایک نظام ہے اور ہر زمانے کے لیے فقر کا ایک خاص مرکز اس ہستی کو مقرر کیا جاتا ہے جس میں حقیقتِ محمدیہ کامل ترین صورت میں ظاہر ہو اور جس نے راہِ فقر میں بے نظیر انقلابی اقدامات کیے ہوں۔ اس ضمن میں اہلِ بیتؓ اطہار سب سے سربلند اور منفرد ہیں۔
اہلِ بیت رضی اللہ عنہم
سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نورِ نظر اور جسم و قلب کا ٹکڑا حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پہلی سلطان ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ’سلطان الفقر‘ ہستیوں کے متعلق فرماتے ہیں:
وہ (ارواح) حریمِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں۔ کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہہ میں کوشاں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں، اور اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کے فیض کی چادر ان پر ہے۔ پس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہ اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلَا اِلٰی غَیْرِہٖ کی جاودانی عزت کے تاج سے معزز و مکرم ہیں۔ انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور قیامِ قیامت کی کچھ خبر نہیں ۔ ان کا قدم تمام اولیا اللہ، غوث و قطب کے سر پر ہے۔ اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے۔ اس راز کو جس نے جانا اس نے پہچانا۔ اُن کا مقام حریم ِذاتِ کبریا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہ مانگا، حقیر دنیا اور آخرت کی نعمتوں، حور و قصور اور بہشت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور جس ایک تجلیّ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سراسیمہ ہو گئے اور کوہِ طور پھٹ گیا تھا، ہر لمحہ ، ہر پل جذبات ِانوار ِ ذات کی ویسی تجلیات ستر ہزار بار ان پر وارِد ہوتی ہیں لیکن وہ نہ دم مارتے ہیں اور نہ آہیں بھرتے ہیں بلکہ مزید تجلیات کا تقاضا کرتے رہتے ہیں ۔وہ سلطان الفقر (فقر کے بادشاہ) اور دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔ (رسالہ روحی شریف)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سلطان الفقر اوّل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شانِ فقر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا۔ جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔ (جامع الاسرار)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اس مقام و مرتبے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ یکتا اور متحد ہیں جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ سے وصل اوروصال کے دو طریقے اور راستے ہیں۔ ایک نبوت کا طریقہ اور راستہ ہے، اس طریق سے اصلی طور پر واصل اور موصل محض انبیا علیہم السلام ہیں اور یہ سلسلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی پر ختم ہوا۔ دوسرا طریقہ ولایت کا ہے، اس طریق والے واسطے (وسیلہ) کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے واصل اور موصل ہوتے ہیں۔ یہ گروہ اقطاب، اوتاد، ابدال، نجبا وغیرہ اور عام اولیا پر مشتمل ہے اور اس طریقے کا راستہ اور وسیلہ حضرت سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ منصبِ عالی آپ رضی اللہ عنہٗ کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہے۔ اس مقام میں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قدم مبارک حضرت امیر کرم اللہ وجہہ کے سر پر ہے اور حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اس مقام پر سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ شامل اور مشترک ہیں۔ (مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب 123 بنام نور محمد تہاری)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ شاہِ مرداں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کیا ہے۔ (عین الفقر۔ محک الفقر کلاں)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ (جامع الاسرار)
فقرا کے پیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ (جامع الاسرار)
حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے متعلق حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ (فقر) میں کمال امامین پاک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو نصیب ہوا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر فقر ہیں تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ بابِ فقر ہیں۔ تمام سلاسلِ طریقت آپ رضی اللہ عنہٗ کے توسط سے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ امام المتقین اور امام الفقرا ہیں۔ آپ کرم اللہ وجہہ کے چار خلفا تھے ؛ امام حسن رضی اللہ عنہٗ، امام حسین رضی اللہ عنہٗ، امام حسن بصری رضی اللہ عنہٗ اور امام کمیل رضی اللہ عنہٗ۔
امام حسن بصریؓ
اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے بعد حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہٗ مرکز ِفقر ہوئے کیونکہ آپؓ سلطان الفقر دوم ہیں اور آپؓ نے ہی تمام سلاسلِ تصوف کی بنیاد رکھی۔
امام حسن بصری رضی اللہ عنہٗ اکابر تابعین میں سے ہیں۔ آپؓ کی پیدائش حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں 21ھ میں ہوئی۔ سن بلوغت کو پہنچ کر آپؓ حضرت علیؓ سے بیعت ہوئے اور ان سے خرقہ خلافت پایا۔ سیر الاقطاب اور سیر الاولیا میں درج ہے:
شاہِ ولایت امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت حسن بصریؓ کو وہ خرقۂ خاص مع کلاہِ چہار ترکی عنایت فرمایا جو انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عطا ہوا تھا اور ساتھ ہی اپنی نگاہِ فقر سے ظاہری و باطنی علومِ اسرارِ الٰہیہ عطا کر کے خلافتِ کبریٰ سے نوازا اور ذکر کلمہ طیب بطریق نفی اثبات جیسا کہ حضرت علیؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوا تھا، وہ آپؓ کو سکھایا اور آپؓ کے ذریعہ سے وہ طریقہ تمام دنیا میں رائج ہوا۔ (سیر الاقطاب، سیر الاولیا)
حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کے خلافت سنبھالتے ہی ایک طرف خارجی ان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے تو دوسری طرف بنو امیہ نے ان کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کی فراست یہ دیکھ رہی تھی کہ مستقبل میں ان کا نام لینے والے اور ان کے کام کو آگے بڑھانے والے ہر شخص کو چن چن کر ختم کر دیا جائے گا۔ لیکن حضرت امام حسن بصریؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے منتخب کر رکھا تھا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وراثت ِفقر و معرفت کو امت تک منتقل کرنے کے لیے سلاسلِ طریقت کا وسیع نظام تشکیل دینا۔ لہٰذا جب حضرت علی رضی اللہ عنہٗ 37ھ میں کوفہ منتقل ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہٗ نے حضرت امام حسن بصریؓ کو بصرہ منتقل ہونے کا حکم فرمایا۔ حضرت امام حسن بصریؓ اس وقت صرف سولہ سال کے تھے لیکن اپنی بے انتہا ذہانت کی بدولت حضرت علی رضی اللہ عنہٗ سے تمام علومِ معرفت و طریقت حاصل کر چکے تھے۔ بصرہ منتقل ہونے کے بعد آپؓ نے انتہائی رازداری سے اپنا کام کیا۔ آپؓ نے خاص حکمت کے تحت کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کا نام نہ لیا حتیٰ کہ جو حدیث آپ کرم اللہ وجہہ سے سنی ہوتی اسے بلاواسطہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت فرماتے اور حضرت علیؓ کا نام نہ لیتے۔
بصرہ میں آپؓ نے خود کو ایک مذہبی عالم کے طور پر ظاہر کیا نہ کہ شیخِ طریقت اور اس خاطر آپؓ نے مریدین سے بیعت لینے کا طریقہ بھی بدل دیا یعنی آپؓ سے قبل خلفائے راشدین کا جو مروجہ طریقہ بیعت تھا اس کی بجائے آپؓ جسے اپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرتے اسے خرقہ عطا فرماتے جو کبھی جبہ کی صورت میں ہوتا کبھی عمامہ تو کبھی کوئی اور شے۔ یہ اس لیے کہ اہلِ اقتدار اس کو بیعتِ خلافت سمجھ کر اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے کوئی فتنہ نہ کھڑا کر دیں۔ اسی طرح رازداری سے آپؓ نے ان تمام سلاسلِ طریقت و تصوف کا نظام قائم کیا جو آج ساری دنیا میں وصال و معرفتِ الٰہی کے لیے رائج ہے۔ آپؓ کے بہت سے خلفا ہوئے جن میں سے دو، حضرت حبیب عجمیؒ اور حضرت عبدالواحد بن زیدؒ زیادہ مشہور ہیں اور حضرت حبیب عجمیؒ سے نو (9) اور حضرت عبدالواحد بن زیدؒ سے پانچ (5) سلاسل جاری ہوئے۔ ان سلاسل کے نام درج ذیل ہیں:
(۱) سلسلہ زیدیہ (۲) سلسلہ عیاضیہ (۳) سلسلہ ادھمیہ (۴) سلسلہ ہبیریہ (۵) سلسلہ چشتیہ (۶) سلسلہ عجمیہ (۷) سلسلہ طیفوریہ (۸) سلسلہ کرخیہ (۹) سلسلہ سقطیہ (۱۰) سلسلہ جنیدیہ (۱۱) سلسلہ گاذرونیہ (۱۲) سلسلہ طوسیہ (۱۳) سلسلہ سہروردیہ (۱۴) سلسلہ فردوسیہ
آج بھی تمام سلاسلِ طریقت اپنا سلسلہ حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہٗ کے واسطہ اور وسیلہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جوڑتے ہیں سوائے سلسلہ نقشبندیہ کے جو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ کے ذریعے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے جا ملتا ہے۔ لہٰذا حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہٗ نہ صرف تمام سلاسلِ طریقت کو قائم کرنے والے ہیں بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچنے والا دروازہ بھی ہیں۔ اسلامی تاریخ کے سب سے پرُفتن دور میں فقر کی ایسی گراں قدر خدمت کرنے اور فقر ِنبویؐ کو امتِ محمدیہ تک پہنچانے والی کڑی ہونے کی بنا پر حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہٗ فقر کا مرکز بنے۔
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
غوث الاعظمؓ درمیان اولیا
چوں محمدؐ درمیان انبیا
سلطان الفقر سوم، شہنشاہِ فقر، سلطان الاولیا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا تاقیامت مرکز ِفقر ہونا اظہر من الشمس ہے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ مادر زاد ولی اللہ اور وارثِ فقر ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شبِ معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم براق پر سوار ہو کر روانہ ہوئے تو جبرائیل علیہ السلام بطور جلودار آپ کے آگے آگے پاپیادہ چلے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کونین کی شش جہات سے نکل کر عرش سے بھی اوپر لامکان میں قربِ حق تعالیٰ کے اعلیٰ ترین مقامِ فنا فی اللہ ذات ’’قابَ قوسین‘‘ پر پہنچے تو آپ نے اللہ کے حضور انتہائی حسین و جمیل نور الہدیٰ صورتِ فقر کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا ’’اے اللہ! یہ حسین صورتِ فقر کس کی ہے جسے بارگاہِ الٰہی میں معشوق کا مرتبہ حاصل ہے؟‘‘ فرمایا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! آپ کے لیے خوش خبری ہے کہ یہ حسین صورتِ فقر محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانی کی ہے جو آپ کی اورعلی المرتضیٰ کی حسنی و حسینی اولاد ہیں۔ فقرا کا خطاب ’’فقیر‘‘ انہی کے فقر کی وجہ سے ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَ الْفَقْرُ مِنِّیْ فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے، کیونکہ شاہ محی الدین میرے فقر سے ہیں اور مجھے ان پر فخر ہے۔‘‘ (نور الہدیٰ کلاں)
طویل مجاہدات اور ریاضت کے بعد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ سلسلہ جنیدیہ میں حضرت ابوسعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے۔ شیخ ابوسعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ رضی اللہ عنہٗ کو خرقہ ولایت پہنایا اور فرمایا ’’اے عبدالقادر (رضی اللہ عنہٗ) یہ خرقہ جناب سرورِ کائنات رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ کو عطا فرمایا اور ان سے دست بدست مجھ تک پہنچا۔‘‘ (شمس الفقرا)
حضرت امام حسن بصریؓ اور سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے زمانہ کے درمیان تقریباً ساڑھے چار سو سال کا عرصہ ہے۔ اس دوران حضرت امام حسن بصریؓ کا قائم کردہ سلاسلِ تصوف کا نظام کافی حد تک کمزور پڑ چکا تھا اور تقریباً ہر سلسلہ میں بدعات شامل ہو چکی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے گمراہ کن سلاسل بھی رائج ہو چکے تھے جو سب کے سب بدعتی تھے۔ آپؓ نے اپنی کتاب سرّالاسرار میں ان سلاسل کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ اس پرُفتن دور میں اللہ تعالیٰ نے شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کو امام الاولیا بنا کر بھیجا جنہوں نے ان تمام گمراہ سلاسل اور مسالک کا خاتمہ کیا اور یوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے چلے آ رہے تمام سلاسل آپؓ کی ذات مبارک میں جمع ہو گئے۔ آپؓ نے بحکمِ خدا اعلان فرمایا:
قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہِ
ترجمہ:میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔
آپ رضی اللہ عنہٗ سے چار سلاسل جاری ہوئے: قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی۔ سلسلہ قادریہ آپ رضی اللہ عنہٗکا اپنا سلسلہ ہے جبکہ حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ عین حیات میں غوث الاعظمؓ پیرانِ پیر کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور فیض حاصل کر کے بالترتیب اپنے اپنے سلاسل یعنی سلسلہ چشتی اور سلسلہ سہروردی کی نئے سرے سے بنیاد رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج انہیں ہی اپنے اپنے سلسلہ کا بانی کہا جاتا ہے۔ سلسلہ نقشبندی کا آغاز یوں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے ہوتا ہے لیکن جنہوں نے اس سلسلہ کو عروج بخشا وہ حضرت بہاؤ الدین نقشبند ہیں۔ حضرت بہاؤالدین نقشبند سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے وصال کے تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد پیدا ہوئے۔ حضرت بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت سیدّ امیر کلال رضی اللہ عنہٗ سے اسمِ ذات کا سبق حاصل کیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ لگاتار سولہ سال اسمِ اللہ ذات قلب پر نقش کرتے رہے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک رو زاس کوشش میں اتنے وارفتہ ہوئے کہ جنگل کی طرف نکل گئے، وہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے پوچھا ــ’’اے بہاؤ الدین! کیا کر رہے ہو۔‘‘ جواب دیا ’’قلب روشن نہیں ہو رہا اس لیے بے حد پریشان ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا ’’تصورِ اسم ذات کیا کرو۔‘‘ عرض کی ’’سولہ سال سے اسی کوشش میں ہوں مگر کامیابی نہیں ہورہی۔‘‘ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ’’جاؤ جا کر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے مزار پر عرض کرو، کام بن جائے گا۔‘‘ چنانچہ حضرت بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ نے مزارِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ پر حاضر ہو کر التجا کی:
یا دستگیرِ عالم دستم مرا بگیر
دستم چناں بگیر کہ گوئندت دستگیر
ترجمہ: اے جہان بھر کی دستگیری کرنے والے! میری بھی دستگیری فرمائیں۔ اس شان سے جس شان کے آپؓ مالک ہیں۔
اس پر سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے اپنا دایاں ہاتھ اسمِ اللہ ذات کی شکل میں مزار مبارک سے نکال کر فرمایا:
اے نقشبند ِ عالم! نقشم را بہ بند
نقشم چناں بہ بند کہ گوئندت نقشبند
ترجمہ: اے نقشبندِ عالم! میرے والا نقش (اسمِ ذات) جما اور ایسا جما کہ رہتی دنیا تک لوگ تجھے نقشبند کے نام سے یاد کریں۔
اس کے ساتھ ہی حضرت بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کے دل پر اسمِ ذات نقش ہوگیا اور آپؒ پکار اٹھے:
بادشاہ ہر دو عالم، شاہ عبدالقادرؓ است
سرورِ اولادِ آدم، شاہ عبدالقادرؓ است
بر زمین و آسمان، جن و بشر ہم قدسیان
ساختہ وردِ زبان ہِم، شاہ عبدالقادرؓ است
ترجمہ: دو جہانوں، اولادِ آدم، زمین و آسمان کے تمام انسانوں، جنوں، فرشتوں اور تمام مخلوق کے بادشاہ و راہنما حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ہیں اور ہر ایک کی زبان پر آپؓ کا ہی ذکر ہے۔ (مکتوبات مولانا علامہ فقیر اللہ شکار پوری مکتوب 49 صفحہ209)
اس فیض کے حصول کے بعد حضرت بہاؤ الدین نقشبندؒ نے بھی ازسرِ نو اپنے سلسلہ کو منظم کیا اور یہ سلسلہ آپ کے لقب سے ہی نقشبندیہ مشہور ہو گیا اور آج آپؒ کو ہی اس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
لہٰذا حضرت بہاؤ الدین نقشبند رحمتہ اللہ علیہ کو بھی فیض سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے ملا بلکہ قیامت تک فیض تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی ملے گا لیکن ملے گا سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے توسط سے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی منظوری حاصل نہ ہو تب تک کوئی ولی نہیں بن سکتا اور نہ ہی کوئی تلقین و ارشاد کی مسند پر فائز ہو سکتا ہے۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا فیضِ روحانی لامحدود ہے۔ اس کے بارے میں آپ رضی اللہ عنہٗ کا فرمان ہے:
اَفَلَتْ شُمُوْسُ الْاَوَّلِیْنَ وَ شَمْسُنَا
اَبَدًا عَلٰی فَلَکِ الْعُلٰی لَا تَغْرُبْ
ترجمہ: پہلوں کے آفتاب ڈوب گئے لیکن ہمارا آفتاب بلندیوں کے آسمان پر کبھی غروب نہ ہوگا۔
آفتاب سے مراد فیضانِ ہدایت و ارشاد ہے اور غروب ہونے سے مراد اس فیض کا بند ہونا ہے جو کبھی نہ ہوگا۔
بعد میں آنے والوں نے آپ رضی اللہ عنہٗ کے اس دعویٰ کی تصدیق کی ہے اور وفات کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہٗ کی روحانی قوت کے تصرف اور اثر کا اقرار کیا ہے۔ یہاں ہم صرف دو حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں جو شہرۂ آفاق محدّث و مفکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی کتب سے لیے گئے ہیں۔ شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ نے ’’ہمعات‘‘ میں، جو ایک لحاظ سے تصوف کی تاریخ ہے، یوں بیان فرمایا ہے:
حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کے بعد اولیا کرام اور اصحابِ طریقت کا سلسلہ چلتا ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ قوی الاثر بزرگ جنہوں نے راہِ جذب کو باحسنِ وجوہ طے کر کے نسبتِ اویسی کی اصل کی طرف رجوع کیا اور اس میں نہایت کامیابی سے قدم رکھا، وہ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی ذاتِ گرامی ہے۔ اسی بنا پر آپ رضی اللہ عنہٗ کے متعلق کہا گیا ہے کہ موصوف اپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں۔
اسی طرح ’’تفہیمات‘‘ میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے بارے میں اپنا کشف اس طرح بیان کرتے ہیں:
اِنَّ الشَّیْخُ عَبْدَ الْقَادِرِ لَہٗ شُعْبَۃٌ مِنْ سَرَیَانٍ فِی الْعَالَمِ وَ ذَالِکَ اِنَّہٗ لَمَّا مَاتَ صَارَ کَھَیْئَۃِ الْمَلَاِ الْاَعْلٰی وَانْطَبَعَ فِیْہِ الْوُجُوْدُ السَّارِیْ فِی الْعَالَمِ کُلِّہٖ۔
ترجمہ: حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے سپرد جہان کو فیض پہنچانے کا شعبہ ہے۔ اسی لیے جب ان کا وصال ہوا تو ان کی روح ملا الاعلیٰ کی صورت اختیار کر گئی اور ان کا وجود تمام جہاں کے لیے فیض رساں بن گیا۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جس نے بھی غوثیت و قطبیت، درویشی و فقیری و اولیائی اور ولایت و ہدایت کی دولت و نعمت و سعادت پائی سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی بارگاہ سے پائی کیونکہ دونوں جہان کی چابی آپ رضی اللہ عنہٗہی کے ہاتھ میں ہے۔ جو آپ رضی اللہ عنہٗ کا منکر ہوا وہ دونوں جہان میں مردود ہو کر ابلیس خبیث کی طرح پریشان ہوا۔ ہر مومن بندہِ خدا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی ہے یا اُمتی تھا یا غوث و قطب ولی اللہ ہے سیدّنا غوث الاعظمؓ کا مرید ہے۔ اُن میں سے کوئی بھی سیدّنا غوث الاعظمؓ کی مریدی سے باہر نہیں۔ جواُن کی مریدی سے انحراف کرتا ہے وہ معرفت ِمولیٰ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ اُس کے مراتب سلب ہوجاتے ہیں کیونکہ آپؓ کا خطاب ہی غوث الثقلین و غوث الجن و الانس و الملائکہ ہے۔ عقلمند کے لیے تو یہ اشارات و بشارت ہی کافی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا قدم مبارک آپ ؓ کی گردن پر رکھا اور تمام ارواحِ فقرائے فنا فی اللہ کی گردن پر حضرت محی الدین شاہ عبدالقادر جیلانیؓ سیف اللہ بقا باللہ غوث الجن و الانس و الملائکہ کا قدم مبارک ہے۔ (محک الفقر کلاں)
جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ختم الانبیا ہیں اُسی طرح حضرت پیر دستگیر زندہ جان و نورِ دین و صاحبِ حق الیقین عارف باللہ شاہ محی الدین رضی اللہ عنہٗ ختم الاولیا و ختم الفقرا و ختم المعرفت و ختم الولایت و ختم الہدایت و ختم العنایت ہیں۔ آپؓ فائضِ برکات بقا باللہ، غرقِ ذات، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وزیر اور صاحبِ حضور ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کلیدِدو جہان ہیں اور ظاہر باطن میں دونوں جہان پر تصرف رکھتے ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ دینِ حنیف کو زندہ کرنے والے محی الدین ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ کے تصرفات و اختیارات بے حد و بے حساب اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔ فقر کے تمام خزانوں کی کنجیاں بحکم و اجازت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام و اہلِ بیتؓ سیدّنا غوث الاعظمؓ کے پاس ہیں۔ آپؓ کی رضا و عطا کے بغیر کوئی فقر کی خوشبو تک کو نہیں پا سکتا اور آپؓ کا یہ مقام و مرتبہ بعینہٖ تاقیامت قائم و دائم ہے۔ کوئی بھی آپؓ کے اس مقام میں آپؓ کی گردِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے جن سلاسلِ طریقت کا ازسرِنو آغاز ہوا ان میں سلسلہ قادری آپؓ کا اپنا سلسلہ ہے۔ اس لحاظ سے اسے دیگر سلاسل پر اسی طرح برتری حاصل ہے جس طرح آپؓ کو دیگر اولیا پر۔ مزید برآں آپؓ کے خزانۂ فقر کی نعمت بھی صرف اسی سلسلہ میں موجود ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ سلسلہ قادری کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جان لے کہ طریقہ قادری بادشاہ ہے اور دیگر تمام طریقے اس کی رعیت ہیں یا مثل فرمانبردار اس کے حکم کے تحت ہیں۔ طریقت اور سلوک کی ہر راہ کی پیشوا ریاضت ہے لیکن کامل قادری راہ میں روزِ اوّل ہی دیدار و حضوریٔ انوار اور قربِ الٰہی کا شرف ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
قادری سلسلہ آفتاب کی مانند ہے اور دیگر تمام سلاسل اس کے مقابل چراغ کی مثل ہیں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
ہر خانوادہ (سلسلہ) کی انتہا قادری طریق کی ابتدا سے لگا نہیں کھا سکتی خواہ تمام عمر ریاضت میں سرگرداں رہے۔ قادری کی ابتدا لامکان اور فنا فی اللہ ہونا ہے اور قادری کی انتہا لاھوت اور بقا باللہ ہونا ہے۔ جو شخص فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے مراتب پر نہیں پہنچا اُسے نہ ابتدا حاصل ہے نہ انتہا، بلکہ وہ نفس کے تابع اور حرص و ہوا میں مبتلا ہے۔ سالہا سال کی ریاضت سے مشاہدۂ وصال میں ایک دم کے لیے مستغرق رہنا بہتر ہے۔ (توفیق الہدایت)
اس سلسلہ کو بقائے دوام عطا کرنے کے لیے جس ہستی کو ازل سے منتخب کیا جا چکا ہے وہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا سلسلہ فقر سلطان الفقر پنجم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل کرنے کے لیے سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی اولاد پاک میں سے سیدّ عبدالرحمن جیلانیؓ بغداد سے ہندوستان تشریف لائے۔ سیدّ عبدالرحمن جیلانیؓ1024ھ (1615ء) میں شام کے شہر حماہ میں پیدا ہوئے اور 35 سال کی عمر میں حماہ سے بغداد تشریف لائے اور اپنے جدِامجد سیدّنا غوث الاعظمؓ کے مزار شریف پر معتکف ہو گئے۔ تین سال معتکف رہنے کے بعد سیدّنا غوث الاعظمؓ کی طرف سے باطنی حکم ملا کہ ہندوستان چلے جائو۔ سیدّ عبدالرحمن جیلانی 1062ھ (1652ء) میں ہندوستان تشریف لائے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ نے 1078ھ (1688ء) میں آپؒ کے دستِ اقدس پر بیعت کی اور صرف ایک ہی ملاقات میں اپنا ازلی نصیبہ اسم اللہ ذات کی صورت میں حاصل کر لیا۔
امانتِ فقر کی منتقلی کے بعد حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ کے سلسلہ قادری کو منظم کیا اور اسے ہندوستان میں عروج عطا فرمایا۔ آپؒ سلسلہ قادری کی دو شاخوں کا ذکر فرماتے ہیں: سروری قادری اور زاہدی قادری۔ آپؒ سروری قادری کو ہی اصل اور کامل قادری تسلیم کرتے ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:
زمان اور لامکان پر قدرت رکھنے والا طریقہ قادری ہے۔ سلسلہ قادری دو قسم کا ہے۔ ایک زاہدی قادری اور دوسرا سروری قادری۔ سروری قادری کیا ہے اور زاہدی قادری کسے کہتے ہیں؟ سروری قادری سلسلہ وہ ہے جس کے ذریعے یہ فقیر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہوا، انہوں نے اس فقیر کو اپنے دستِ اقدس پر بیعت فرمایا اور مسکرا کر فرمایا کہ خلقِ خدا کی رہنمائی میں ہمت کرو۔ تلقین کے بعد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس فقیر کو حضرت پیر دستگیر شاہ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے سپرد فرما دیا۔ حضرت پیر دستگیر شاہ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے بھی سرفراز فرما کر (مخلوقِ خدا کو) تلقین کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد ان کی نگاہِ کرم سے میں نے جس طالبِ مولیٰ کو بھی ظاہر و باطن میں برزخِ اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کی راہ دکھائی اسے ذکر اور مشقت میں ڈالے بغیر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پہنچا دیا۔ پھر ان طالبانِ مولیٰ نے جدھر بھی دیکھا انہیں اسمِ اللہ ذات ہی نظر آیا اور ان کے سامنے کوئی حجاب اور پردہ باقی نہ رہا۔ سروری قادری راہِ فیض ہے اور کم حوصلہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں (دیگر سلاسل کے ناقص مرشدوں اور ناقص سروری قادری مرشد) نے طالبانِ مولیٰ کو اسمِ اللہ کے اثرات کی تپش سے مار ڈالا، بعض اسمِ اللہ ذات کا بار برداشت نہ کر سکے اور عاجز ہو گئے اور بعض مردود اور مرتد ہو گئے۔ (عین الفقر)
سروری قادری اُسے کہتے ہیں جو نر شیر پر سواری کرتا ہے اور غوث و قطب اُس کے زیرِ بار رہتے ہیں۔ سروری قادری طالبوں اور مریدوں کو اللہ تعالیٰ کے کرم سے پہلے ہی روزیہ مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے کہ ماہ سے ماہی تک ہر چیز اُن کی نگاہ میں آجاتی ہے۔ سروری قادری کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سروری قادری فقیر ہر طریقے کے طالب کو عامل کامل مکمل مرتبے پر پہنچا سکتا ہے کیونکہ دیگر ہر طریقے کے عامل کامل درویش سروری قادری فقیر کے نزدیک ناقص و ناتمام ہوتے ہیں کہ دوسرے ہر طریقے کی انتہا سروری قادری کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتی خواہ کوئی عمر بھر محنت و ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا پھرے۔ اس طریقہ کے عاشق و طالب دنیا سے تارک فارغ ہوتے ہیں کہ عارف واصل ہونا سروری قادری طریقے کا ابتدائی مرتبہ ہے۔ سروری قادری طریقے کے طالبوں اور مریدوں میں غوث و قطب او رابدال و اوتاد قیامت تک کم نہ ہوں گے کیونکہ اس طریقہ میں ابتدا و انتہا ایک ہی ہے یعنی تصورِ اسمِ اللہ ذات کی تاثیر طالب کو ذکر فکر میں مبتلا کیے بغیر تمام مراتب تک پہنچا دیتی ہے۔ اس طریقہ کو شریعت سے پائیداری اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم و تلقین سے افتخار حاصل ہے۔ یاد رہے کہ حضرت پیر دستگیر مادر زاد ولی اللہ، فقیر فنا فی اللہ، وزیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور عارف باللہ معشوقِ اللہ ہیں۔ انہیں بارگاہِ ربّ الارباب سے پیر دستگیر محی الدین، بقا باللہ قطب، فردانیت میں غوث اور وحدانیت میں غوث الاعظم کا خطاب اس لیے دیا گیا کہ آپؓ کے سروری قادری طالبوں اور مریدوں کو پہلے ہی روز اسمِ اعظم (اسمِ اللہ ذات) عطا کر دیا جاتا ہے اور انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری بخش کر غالب الاولیا حبیب بنا دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ سے فیضیاب ہونے والے باطن صفا اہلِ تصدیق طالب مرید ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر رہتے ہیں۔ دنیا میں ایسے سروری قادری لایحتاج فقیر بہت ہی کم پائے جاتے ہیں جو دنیا و عقبیٰ سے بے نیاز صاحبِ ہدایت و صاحبِ رازِ عنایت ہوتے ہیں، ایک ہی دم میں دونوں جہان طے کر کے صاحب ِجود و کرم ہو جاتے ہیں اور کشف و کرامات کو باعثِ ننگ سمجھ کر اُن سے مطلق شرم و حیا کرتے ہیں کہ سروری قادری فقیر کی نظر وحدانیت اِلٰہ پر ہوتی ہے، سروری قادری فقیر ایسا بادشاہ ہے جو معرفتِ الٰہی کے اسرار سے ہر وقت آگاہ رہتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
حضرت سخی سلطان باھوؒ سروری قادری فقیر ہیں۔ آپؒ نے سلسلہ سروری قادری کو، جو فقر کا واحد سلسلہ ہے، منظم کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے دور کے طالبانِ مولیٰ کی آسانی کے لیے دنیائے فقر و تصوف میں انقلابی اقدامات اُٹھائے۔ وہ آپؒ کی ہی باکمال ذات ہے جس نے ذکر و تصور کے لیے سونے کے اسمِ اللہ ذات اور اسم محمد کی ترتیب بیان کی جس کے ذریعے طالبانِ مولیٰ دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری پا سکتے ہیں۔ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ کا طریقہ بتایا۔ آپؒ نے اپنی کتب میں علمِ دعوت، وھم، دیدارِ الٰہی، مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور اس کے مقامات کھول کر بیان کر دیئے ہیں۔ آپؒ سے قبل یہ تمام علومِ معرفت خواص تک محدود تھے اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے تھے لیکن آپؒ نے اپنی تمام کتب میں ان علوم کو کھول کر بیان کر دیا تاکہ ہر خاص و عام تک پہنچ سکیں۔ آپؒ نے اُمیّ ہونے کے باوجود 140 کتب تصنیف فرمائیں جو علم و معرفت کا خزانہ ہیں۔
آپؒ اپنی حیات میں بھی فقر کا مرکز رہے اور بعد وصال آپؒ کا مزار مبارک بھی فقر کا مرکز رہا۔ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ چالیس سال آپؒ کے مزار مبارک پر خدمت کرتے رہے جس کے بعد حضرت سخی سلطان باھوؒ نے پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ کو اپنے خزانۂ فقر پر مکمل تصرف عطا فرما کر ان کے بعد آنے والے سروری قادری مشائخ کے لیے مرکز ِفقر قرار دے دیا۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا طالب نہ ملا جسے وہ امانتِ الٰہیہ، امانتِ فقر منتقل فرماتے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
میں سالہا سال سے طالبانِ مولیٰ کا متلاشی ہوں لیکن مجھے ایسا وسیع حوصلے والا لائقِ تلقین اور صاحبِ یقین طالبِ صادق نہیں ملا جسے معرفت و توحیدِ الٰہی کے ظاہری و باطنی خزانوں کی نعمت و دولت کا نصابِ بے حساب عطا کر کے تبرکاتِ الٰہی کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤں اور اللہ تعالیٰ کے حق سے اپنی گردن چھڑا لوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
حضرت سخی سلطان باھوؒ کے وصال کے ایک سو انتالیس سال بعد 1241ھ (1825ء) میں مدینہ منورہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کو بھیجا جنہوں نے آپؒ کے مزار مبارک پر آکر آپؒ سے امانتِ فقر حاصل کی۔ یوں سلسلہ سروری قادری ایک سو انتالیس سال بعد جہاں پر رکا تھا وہیں سے دوبارہ شروع ہو گیا۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ کے بعد سلسلہ سروری قادری اس ترتیب سے آگے بڑھتا ہے:
٭ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ
٭ سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبد الغفور شاہ ہاشمی قریشی رحمتہ اللہ علیہ
٭ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیرسیّد محمدبہادر علی شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ
٭ سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ
٭ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ
٭ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیرسیدّ محمدبہادر علی شاہ کاظمی المشہدیؒ
پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ آٹھ سال کی عمر میں 1809ء میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر حاضر ہوئے اور 1849ء تک تقریباً چالیس سال وہیں رہے۔ اس دوران آپؒ نے دربار پاک پر مختلف قسم کے فرائض سرانجام دیئے، زائرین کے وضو کے لیے پانی بھرنے، لنگر کی تقسیم، زائرین کو ٹھہرانے اور دربار پاک کی صفائی کی ذمہ داری آپؒ نے طویل عرصہ تک سرانجام دی۔ اس دوران آپؒ کا اہم ترین کارنامہ حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی کتب کے نسخہ جات کی نقل کر کے ان کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنا تھا۔ ان خدمات اور آپؒ کے عشق کی بدولت حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے آپؒ کو باطنی طور پر فقر کے انتہائی مقام تک پہنچا کر مکمل فرما دیا اور ظاہری طور پر پیر محمد عبدالغفور شاہؒ کی بیعت کا حکم فرمایا۔ بیعت کے بعد جب آپؒ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حکم ہوا ’’یہ سلطان الفقر پنجم حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا خزانہ ہے جو آپ کو سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل کرنا ہے جو میری اولاد میں سے ہوگا۔ یہ سب فقر کے مختارِ کلُ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ سے منظور ہو چکا ہے اور سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اس پر مہر لگا چکے ہیں۔‘‘ پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ نے عرض کی ’’میں اسے پہچانوں گا کیسے؟‘‘ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ’’میری اولاد میں ایک مردِ کامل (سلطان محمد عبدالعزیزؒ) پیدا ہوگا جو ختنہ شدہ اور ناف بریدہ ہوگا، اس کے ہاں سلطان الفقر ششم کی ولادت ہوگی۔‘‘
لہٰذا پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ کی اعلیٰ خدمات کی بنا پر اور اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں اپنے خزانۂ فقر کا نگران مقرر فرما دیا۔ یہ انعام پا کر پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ نے فرمایا:
ملازم دفتر دا فرمایا ذات سخی سلطانیؒ
اس مصرعہ کی شرح میں سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
پیر بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے محبوب ہیں اور محبوب سے کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھی جاتی اِس لیے حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے باطنی خزانے پر تمام تر تصرف آپ رحمتہ اللہ علیہ کو عطا فرما دیا ہے ۔ سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے ’’ زندگی بھر مجھے ایسا طالبِ صادق نہیں ملا جسے میں اپنا باطنی ورثہ عطا کر دیتا ‘‘ لیکن سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے ظاہری وصال کے بعد پیرسیدّ محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ وہ طالب تھے جو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے معیار پر پورے اُترے اِس لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے خزانۂ فقر کا مکمل اختیار انہیں سونپ دیا اور فرمایا ’’پیر صاحب آج تک جو طالبِ مولیٰ بھی میرے در پر آیا میں نے بلا واسطہ اُسے اُس کی منزل تک پہنچایا لیکن اب قیامت تک جو طالبِ مولیٰ بھی میرے پاس آئے گا وہ آپ کے واسطہ ہی سے فقر پائے گا۔‘‘ (مجتبیٰ آخر زمانی)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہکی تعلیمات کو عملی شکل دینے اور ان کے فیضِ سلطانی کو عام کرنے کے لیے پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ نے انقلابی قدم اُٹھائے اور اس سلسلہ میں آپؒ نے سینکڑوں کی تعداد میں سونے کے اسمِ اللہ ذات تیار کروائے۔ ان اسمِ اللہ ذات کی عبارت آپؒ خود رقم فرماتے اور اس پر سونا لگانے کے لیے ملتان میں ایک سنار کے پاس بھیجا کرتے۔ اس طرح سینکڑوں طالبانِ مولیٰ کو آپؒ نے نوازا۔
پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ کے بعد آنے والے مشائخ سروری قادری سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے لیے آپؒ اور آپؒ کا مزار مبارک ہی فقر کا مرکز رہے۔ سلطان محمد عبدالعزیزؒ اور سلطان محمد اصغر علیؒ اکثر آپؒ کے مزار مبارک پر حاضری دیتے بلکہ راتوں کو قیام بھی فرماتے۔ ان کے ادوار میں سالکینِ فقر کے تمام ظاہری و باطنی معاملات پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے حکم اور مہربانی سے ہی طے ہوتے۔
’کراماتِ عزیزیہ‘ میں سلطان محمد فاروقؒ فرماتے ہیں ’’سلطان محمد عبدالعزیزؒ کو جب بھی کوئی مسئلہ پیش آتا آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے مرشد حضرت سخی سلطان سیدّ محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ان کے مزار مبارک پر حاضر ہو کر ان سے فوراً حل کروالیتے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ جب بھی پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ کے مزار مبارک پر تشریف لے جاتے تو آپؒ کے اردگرد سائلین کے جمگھٹے لگ جاتے۔ آپؒ سب کے لیے دعا فرماتے اور تمام سائلین اپنے من کی مرادیں پاتے۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے وصال کے بعد دسمبر 2003ء میں جب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس مسندِتلقین و ارشاد پر فائز ہوئے تو آپؒ کے لیے بھی فقر کا مرکز حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ کے مزار مبارک کو قرار دیا گیا۔ آپ مدظلہ الاقدس 2011ء تک اپنے مریدین کے ہمراہ پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہؒ کے مزار مبارک پر حاضری دیتے رہے اور وہیں سے آپ کی جماعت اور مریدین کے معاملات طے پاتے رہے۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اکبر جنہیں آپؒ نے امانتِ فقر منتقل کی حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ چونکہ آپؒ کے وصال کے ایک سو انتالیس سال بعد مسندِتلقین و ارشاد پر فائز ہوئے اور اس دوران ظاہری طور پر اس مسند پر کوئی فائز نہ تھا اس لیے بہت سے لوگوں نے غلط طور پر خود کو سلسلہ سروری قادری کا شیخ ظاہر کر کے سلسلہ کا رخ اپنی طرف موڑ لیا۔ یوں سلسلہ سروری قادری کی اصل ترتیب مسخ کر نے کی کوشش کی۔ عوام الناس سلسلہ سروری قادری کی اصل ترتیب اور حقیقی مشائخ سے بے خبر تھے۔ سلسلہ سروری قادری کی اصل ترتیب اور حقیقی مشائخ سے زمانے کو روشناس کرانے کی ذمہ داری سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو سونپی گئی۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے ضروری تھا کہ تاریخی حقائق کی روشنی میں سیدّمحمد عبداللہ شاہؒ کا حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا خلیفہ اکبر ہونا ثابت کیا جائے اور ان کے بلند درجات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ سلسلہ سروری قادری کی اس گمشدہ کڑی کو دوبارہ جوڑنے کے لیے 2012ء میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے لیے سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کا مزار مبارک فقر کا مرکز قرار دے دیا گیا اور انہیں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حکم ہوا کہ آپ کے لیے اب سیدّ محمد عبداللہ شاہؒ کا مزار مبارک فقر کا مرکز ہے۔ وہاں حاضری دیں، خستہ خال دربار کو تعمیر کروائیں، مشائخ سروری قادری سے دنیا کو روشناس کرائیں، ان سے منسوب غلط روایات دور کریں اور درست سلسلہ سروری قادری کو منظم کریں۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ
حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہؒ 1186ھ (1772ء) میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ حضرت سخی سلطان باھوؒ کے مرشد حضرت سیدّ عبدالرحمن جیلانیؒ کے پڑپوتے ہیں جو سیدّنا غوث الاعظمؓ کی اولاد پاک میں سے ہیں۔ آپؒ کا شجرہ نسب اس طرح سے ہے:
سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ بن سیدّ عبدالرحیمؒ بن سیدّ عبدالعزیزؒ بن سیدّ عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ بن سیدّ عبدالقادر بن سیدّ شرف الدین بن سیدّ احمد بن سیدّ علاؤ الدین ثانی بن سیدّ شہاب الدین ثانی بن سیدّ شرف الدین قاسم بن سیدّ محی الدین یحییٰ بن سیدّ بدر الدین حسین بن علائو الدین بن شمس الدین بن سیف الدین یحییٰ بن ظہیر الدین مسعود بن ابی نصر محمد بن ابو صالح نصر بن سیدّنا عبدالرزاق جیلانیؒ بن سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ۔
سیدّ عبدالرحمن جیلانیؒ کے بیٹے سیدّ عبدالعزیز 1107ھ (1696ء) میں ہندوستان سے بغداد تشریف لے گئے پھر وہاں سے 1109ھ (1698ء) میں مدینہ منتقل ہو گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ سیدّ عبدالعزیزؒ کے بیٹے سیدّ عبدالرحیمؒ کے ہاں سیدّ محمد عبداللہ شاہؒ کی پیدائش ہوئی۔ بچپن سے ہی سیدّ محمد عبداللہ شاہؒ کی طبیعت میں بے چینی تھی۔ صرف عبادتِ الٰہی میں ہی آپؒ کو سکون ملتا۔ آپؒ کے نانا سیدّ محمد زکی الدینؒ آپؒ کو اکثر روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حاضری کے لیے لے جاتے جہاں آپؒ کو کچھ وقت کے لیے سکون میسر آتا ورنہ عشقِ حقیقی کی تپش آپ رحمتہ اللہ علیہ کو کسی طرح چین نہ لینے دیتی۔ کئی بار دیوانگی کے عالم میں دوڑتے دوڑتے مدینہ منورہ سے کئی میل دور نکل جاتے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاؤں لہو لہان ہو جاتے۔
والدین کی وفات کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دل دنیا سے بالکل اچاٹ ہوگیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے گھر بار چھوڑ کر روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ تمام وقت عبادات اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں مصروف رہتے۔ عرصہ چھ سال کی خدمت اور غلامی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیدار کی نعمت عطا کی اور پوچھا ’’تو اس خدمت کے بدلے کیا چاہتا ہے؟‘‘ سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے ہیں کہ یہ غلام فقر چاہتا ہے‘‘ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’فقر کے لیے تجھے سلطان باھوُ(رحمتہ اللہ علیہ) کے پاس ہند جانا ہوگا‘‘۔ جب سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ خواب سے بیدار ہوئے تو بہت حیران اور پریشان ہوئے کہ رشد و ہدایت کا منبع تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود ہیں پھر مجھے سلطان باھوُ(رحمتہ اللہ علیہ) کے پاس کیوں بھیجا جا رہا ہے؟ لہٰذا دوبارہ خدمت اور غلامی کا سلسلہ شروع فرما دیا۔ مزید چھ سال کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیدار سے مشرف فرمایا اور پوچھا ’’ اس خدمت کے بدلہ میں کیا چاہتے ہو؟‘‘ تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پھر عرض کیا ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے ہیں کہ یہ غلام فقر چاہتا ہے‘‘۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’تجھے فقر سلطان باھوُ( رحمتہ اللہ علیہ) سے ہی ملے گا۔‘‘ اس مرتبہ سیدّ محمد عبداللہ شاہ ؒنے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں تو اس علاقے کی زبان اور رسم و رواج، رہن سہن اور کھانے پینے تک سے ناواقف ہوں۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’ ہم تمہیں اپنے محبوب شیخ عبد القادر جیلانی( رضی اللہ عنہٗ) کے سپرد کرتے ہیں تمہاری رہنمائی کرنا اور وہاں تک پہنچانا اب ان کی ذمہ داری ہے۔‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ حکم کے مطابق بغداد شریف سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے مزار مبارک پر پہنچے اور وہاں سے اُن کی باطنی رہنمائی میں تمام سروری قادری مشائخ کے مزارات سے ترتیب وار فیض حاصل کرتے ہوئے جھنگ ہندوستان (موجودہ پاکستان) حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر1241ھ (1825ء) میں پہنچے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے باطنی طور پر انہیں امانتِ فقر اور سلسلہ منتقل فرمایا۔حضرت سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے مزار حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پر ہی رہائش اختیار کر لی جہاںچھ ماہ تک حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی باطنی تربیت فرمائی اور پھر حکم دیا کہ ریاست بہاولپور کے شہر احمد پور شرقیہ میں رہائش اختیار کر کے طالبانِ مولیٰ کی راہِ فقر پر راہنمائی کریں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اِس حکم پر عمل کیا اور تمام زندگی احمد پور شرقیہ میں گزار دی۔
ان تمام واقعات سے مرکزِفقر کی حقیقت اور اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ باوجود اس کے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فقر کے مختارِ کلُ ہیں، اہلِ بیتؓ فقر کے مالک ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے پاس فقر کے خزانوں کی کنجیاں ہیں پھر بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فقر کے حصول کے لیے سیدّ محمد عبداللہ شاہؒ کو ہندوستان حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس جانے کا حکم فرمایا کیونکہ اس زمانے میں فقر کا مرکز حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک تھا اور آپؒ کے پاس ہی فقر کے اختیارات تھے۔
سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کا وصال 29 رمضان المبارک 1276ھ (20 اپریل1860ء) میں ہوا۔ آپؒ کا مزار مبارک آپؒ کے خلیفہ اکبر پیر محمد عبدالغفور شاہؒ نے تعمیر کروایا تھا اور ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کروائی۔ 1999ء میں دربار اور مسجد کو سیم کی وجہ سے خراب ہونے پر شہید کر دیا گیااور مزار پر ایک سادہ سا کمرہ تعمیر کیا گیا جس کا صرف ایک مینار تھا اور ساتھ چھوٹی سی مسجد تعمیر کی گئی۔
2011ء میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو مجلسِ محمدیؐ سے حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کے مزار مبارک سے روحانی فیض کے سلسلہ کو دوبارہ جاری کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی کیونکہ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے لوگوں کی طلبِ دنیا اور حبِ دنیا کی وجہ سے اپنے مزار سے فیض کا سلسلہ 1942ء سے بند کر رکھا تھا۔ جب لوگ مادہ پرست ہو جاتے ہیں اور روحانی فیض کی کسی کو طلب ہی نہیں رہتی تو اولیا کاملین بھی اپنا روحانی فیض روک لیتے ہیں۔
اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے ستمبر2011ء میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے پہلی بار پیر سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک کا دورہ فرمایا اور اس کی خستہ حالی دیکھ کر آپ مدظلہ الاقدس کو بہت دکھ ہوا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے مئی 2012ء میں سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک کی تعمیر دوبارہ شروع کروائی۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی طرح چاروں مینار تعمیر کیے گئے اور ان پر رنگ و روغن کا کام کیا گیا اور کاشی کاری والی ٹائلیں لگائی گئیں۔ میناروں کے درمیان میں چاروں طرف گمٹیاں تعمیر کی گئیں اور اُن پر بھی کاشی کاری اور رنگ و روغن کا کام کیا گیا۔ صحن میں بھی ٹائلیں لگائی گئیں۔ تربت مبارک پر سنگِ مرمر لگایا گیا۔ اس طرح مزار مبارک کی تعمیر دوبارہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی طرح 30اگست 2012ء کو مکمل ہوئی۔
سروری قادری روایات کے مطابق عرس کا آغاز
عرس 2012ء
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے 2 ستمبر 2012ء کو سروری قادری روایات کے مطابق احمد پور شرقیہ میں مزار مبارک سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے شاندار عرس کے انعقاد کا آغاز فرمایا۔ اس عرس پاک پر حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی شان میں منقبتیں پڑھی گئیں اور ان کی حیات و تعلیمات اور اعلیٰ ترین روحانی مقام پر روشنی ڈالی گئی ۔ حاضرین کو آگاہ کیا گیا کہ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی وارث اور ان کے بعد سلسلہ سروری قادری کے شیخِ کامل اور امام ہیں۔ عرس پاک کے اختتام پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ان کے روحانی فیض کو دوبارہ جاری کرنے کی عرض کی۔ حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے، جو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تمام تر کاوشوں سے بہت راضی تھے، باطنی طور پر نہ صرف اپنے روحانی فیض کو دوبارہ جاری کرنے کی حامی بھر لی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ چونکہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس نے ہی اس روحانی فیض کے احیا کے لیے تمام تر کوشش فرمائی ہے اس لیے یہ فیض صرف ان کی ہی جماعت کے لیے مخصوص ہے۔ اس عرس کے دوران مرکز ِفقر شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار سے بدل کر سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار کی طرف منتقل کر دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی روحانی قوتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا۔ دنیا بھر سے طالبانِ مولیٰ آپ مدظلہ الاقدس کی طرف کھنچے چلے آنے لگے ، آپ کو اس قدر قوت عطا کر دی گئی کہ آپ طالبانِ دنیا کو بھی اپنی نگاہِ کامل سے عشقِ حقیقی عطا کرکے ان کے دِل کی حالت بدل سکیں اور انہیں طالبِ مولیٰ بنا دیں۔ مجلسِ محمدیؐ کے دروازے آپ کے خاص چنے ہوئے طالبوں کے لیے کھول دئیے گئے، آپ مدظلہ الاقدس کو اجازت دے دی گئی کہ آپ جس طالب کو چاہیں قوتِ وھم اور علمِ دعوت عطا کر دیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ان قوتوں کو اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے انتہائی بصیرت سے استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر سے طالبانِ مولیٰ خصوصاً نوجوان نسل کو منتخب کیا اور انہیں عشق ِ حقیقی کی قوت اور اپنی نگاہِ کرم سے روحانی بلندی عطا کرکے اس لائق بنایا کہ وہ فقر کی اشاعت اور ترویج کے فرائض ادا کر سکیں۔
اب آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی دوسری ذمہ داری کی طرف توجہ دی اور مشائخ سروری قادری سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سے سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ تک تمام مشائخ کی مکمل اور جامع تحقیق سے بھرپور کتاب ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ تحریر کی اور اس کا انگریزی ترجمہ The Spiritual Guides of Sarwari Qadri Order کے نام سے شائع کروایا۔ اس کے علاوہ تمام مشائخ کے عارفانہ کلام پر تحقیق کر کے ان کا اصل اور کامل کلام بمع مشکل الفاظ کے معانی ’’کلام مشائخ سروری قادری‘‘ کے عنوان سے شائع کروایا اور اس کی ویڈیو ریکارڈنگ کروائی۔ ان شاندار خدمات کے عوض آپ مدظلہ الاقدس کو مجلسِ محمدیؐ سے آفتابِ فقر اور شانِ فقر جیسے القابات سے نوازا گیا۔
عرس 2013ء
2013ء میں سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا عرس 6 اور 7 ستمبر کو منعقد کیا گیا۔ گزشتہ سال 2012ء کے عرس کی کامیابی حاسدین اور مخالفین کو بہت ناگوار گزری چنانچہ انہوں نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے۔ سجادہ نشین نے دربار پاک کے اندر سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے پدرانہ اور مادرانہ شجرہ ہائے نسب، شجرہ فقر اور مختصر سوانح حیات کی فلیکس کو اتروا کر دربار کو تالا لگا دیا۔ اس حرکت کی وجہ سے سال 2013ء میں 6 ستمبر 2013ء کی شام نمازِ مغرب کے بعد دربار پاک کے غسل، چادر پوشی اور تاج پوشی کی رسم ادا نہ ہو سکی۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے 6 ستمبر بروز ہفتہ نمازِ مغرب کے بعد دربار پاک پر حاضری دی، تالا بند دروازہ کو بوسہ دیا اور دروازہ کے سامنے جائے نماز پر تشریف فرما ہوئے۔ تمام مریدین اور زائرین بھی آپ مدظلہ الاقدس کے اردگرد بیٹھ گئے اور دربار پاک کا صحن زائرین سے بھر گیا۔ یہیں تلاوتِ قرآنِ پاک اور نعت خوانی کی محفل ہوئی اور سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی شان میں منقبتیں پڑھی گئیں۔ اس کے بعد چادر مبارک اور تاج مبارک کی زائرین کو زیارت کروائی گئی (اس کی ویڈیوز ڈیجیٹل میڈیا پر موجود ہیں)۔
اگلے دن 7 ستمبر بروز اتوار عرس پاک کی محفل دربار پاک سے کچھ فاصلہ پر مکہ سٹی میں منعقد کی گئی جس میں ملک بھر سے مریدین اور محبین نے شرکت کی۔ حاسدین جن کو مقامی انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل تھی، عرس کو نہ روک سکے اور رکاوٹوں کے باوجود عرس پاک بھرپور طریقے سے منایا گیا۔ اس موقع پر طالبانِ مولیٰ کی کثیر تعداد نے بیعت اور بغیر بیعت کے ذکر اور تصور اسم اللہ ذات حاصل کیا۔ دربار سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ پر بند دروازہ کے باوجود عرس پاک کی محفل کے شرکا کو بہت سے روحانی مشاہدات بھی ہوئے۔ اکثر ساتھیوں کو سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت بھی نصیب ہوئی اور انہوں نے خوشخبری دی کہ محفل میں شریک ہونے والا کوئی بھی ساتھی فیض سے محروم نہیں رہا۔
عرس 2014ء
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس 2014ء میں 2013ء ہی کی طرح عرس کی تیاریاں شروع کر چکے تھے کہ دربار سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مجاور نے خانقاہ سلسلہ سروری قادری لاہور میں آکر درخواست کی کہ اس بار عرس مبارک دربار پاک پر منعقد کیا جائے تاکہ اہلِ علاقہ اس سے مستفید ہو سکیں۔ اس کے علاوہ اہلِ علاقہ کی طرف سے بہت دباؤ ہے۔ اس طرح 11 اور 12 اکتوبر بروز ہفتہ اتوار ایک عظیم الشان عرس کا انعقاد ہوا۔ دربار پاک اور اردگرد کے علاقوں کو برقی قمقموں سے سجایا گیا اور وسیع پنڈال کا انتظام کیا گیا۔ 11 اکتوبر 2014ء بروز ہفتہ بعد نمازِ مغرب دربار پاک کو عرقِ گلاب سے غسل دیا گیا، چادر پوشی اور تاج پوشی کی گئی اور تربت مبارک کو گلاب کے پھولوں سے ڈھانپ دیا گیا۔
12 اکتوبر 2014ء کو ایک وسیع و عریض پنڈال عرس پاک کے لیے سجایا گیا جس میں عظیم الشان عرس پاک کی محفل منعقد ہوئی۔ اس محفل میں ملک بھر سے کثیر تعداد میں مریدین اور زائرین نے شرکت کی۔ محفل کے اختتام پر نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد وسیع اور عالی شان لنگر تقسیم کیا گیا۔
عرس 2015ء
حسبِ روایت 2015ء میں بھی 3 اور 4 اکتوبر بروز ہفتہ اتوار ایک پرُ نور اور عالی شان عرس مبارک کی تقریب ہوئی ۔ 3اکتوبر بروز ہفتہ بعد از نمازِ مغرب مزار مبارک کو عرقِ گلاب سے غسل دیا گیا اور عطر سے معطر کیا گیا، اس کے بعد چادر پوشی اور تاج پوشی کی گئی۔ 4اکتوبر 2015 بروز اتوار عرس مبارک کی پرُ نور ، وجدانی وعرفانی محفل منعقد ہوئی جس میں کثیر تعداد میں ملک بھر سے عقیدت مندوں نے قافلوں کی صورت میں شرکت کی۔ اس بار اہل علاقہ بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ محفل کے اختتام پر نمازِ ظہر کے بعد وسیع لنگر تقسیم کیا گیا۔
عرس 2016ء
23-22 اکتوبر 2016ء کو منعقد کیا جانے والا سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا عرس پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اور ان کی جماعت کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور شاندار تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دِن نہ صرف حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے فیض کو جاری کروائے اور عرس پاک کو کامیابی سے مناتے ہوئے پانچ سال مکمل ہوئے تھے بلکہ اس عرصہ کے دوران سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے اب تک تفویض کردہ تمام ذمہ داریوں کو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نہایت احسن طریقے سے مکمل فرما چکے تھے۔ یہی خاص دِن ازل سے مقرر تھا صاحبزادہ محمد مرتضیٰ نجیب کو بیعت کرنے کے لیے ۔ اس عرس پاک میں شرکت کے لیے تمام طالبانِ مولیٰ کو خاص الخاص تاکید کی گئی۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے عرس سے قبل ہی اس عرس میں شامل ہونے والوں کو باطنی و روحانی فیض سے مالا مال ہو جانے کی خوشخبری سنائی اور نہ جانے والوں کو اس سے محروم رہ جانے کی تنبیہ فرما دی تھی۔
22اکتوبر 2016ء کی شام جب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس صاحبزادہ محمد مرتضیٰ نجیب اور دیگر مریدین کے ہمراہ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک پر تشریف لے گئے تو ہر طرف جشن کا سماں تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ آسمان و زمین بھی اس جشن میں شریک ہیں، ہر مرید کا دِل عجیب سی خوشی سے معمور تھا حتیٰ کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی مرید خواتین جو ظاہری طور پر احمد پور شرقیہ میں موجو د نہ تھیں، نے بھی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے اس روحانی خوشی کو محسوس کیا۔
آپ مدظلہ الاقدس کی مرید ڈاکٹر سحر سروری قادری نے چاند میں ہونے والی تبدیلی کا مشاہدہ کیا کہ ان دنوں چاند کی روشنی ایسی پرُ کشش تھی جس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ زمین و آسمان اور چرند پرند سب میں گویا اس بابرکت محفل کی دھوم مچی تھی۔
مسز عنبرین مغیث سروری قادری کا بھی مشاہدہ ہے کہ اس رات چاند معمول سے زیادہ چمک رہا تھا اور اس کی روشنی سنہرے رنگ کی تھی۔ وہ رات عید کی رات محسوس ہوتی تھی۔
تربت مبارک کے غسل، چادر پوشی اور تاج پوشی کے بعد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے صاحبزادہ سلطان محمد مرتضیٰ نجیب صاحب کو حضرت سخی سلطان سیدّمحمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی تربت مبارک پر ہاتھ رکھ کر بیعت فرمایا۔ فضا تکبیر و رسالت کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ بیعت کے بعد آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا ’’ظاہری طور پر صاحبزادہ محمد مرتضیٰ کو ہم نے بیعت کیا ہے لیکن باطنی طور پر پیر عبد اللہ شاہ صاحب نے خوداِن کو بیعت فرمایا ہے اور انہیں اپنا نوری حضوری فرزند قرار دیا ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنی وہ دستار جو پیر عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے ہمیں عطا کی تھی صاحبزادہ محمد مرتضیٰ کے سر پر رکھیں۔ پیر عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے لیے تو ہماری جان بھی حاضر ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے سر مبارک سے دستار شریف اتار کر صاحبزادہ سلطان محمد مرتضیٰ نجیب صاحب کے سر پر رکھی اور انہیں مبارک باد دی۔ صاحبزادہ سلطان محمد مرتضیٰ نجیب صاحب نے نہایت عاجزی و ادب کے ساتھ فوراً اپنے والد مرشد کے دست مبارک چومے۔اس بابرکت موقع پر تمام حاضرین و مریدین پر خصوصی باطنی مہربانی فرمائی گئی۔
سلطان محمد عبداللہ اقبال صاحب اپنا مشاہدہ بتاتے ہیں کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے صاحبزادہ سلطان محمد مرتضیٰ نجیب صاحب کو بیعت کر کے سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد کیا تو مجھے بھی باطنی حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ میں نے دیکھا کہ سیدّ محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے صاحبزادہ محمد مرتضیٰ نجیب کو انتہائی شفقت سے اپنے پاس بٹھایا ہوا تھا اور تمام اولیا کرام نے بہت پیار سے مجلسِ محمدی میں ان کی آمد کو خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر سیدّ محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا’’سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی انتھک محنتوں اور فقر کے لیے کاوشوں کی وجہ سے آپ کی پوری نسل (فرزند و دختران) کو فقر کا تحفہ عطا کیا جاتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی نسل سے قیامت تک فقر کی خوشبو نہیں جائے گی اور اللہ کے فضل سے فقر ہی آپ کی نسل کی پہلی ترجیح ہو گی۔ پھر آپ مدظلہ الاقدس کی جماعت کی فقر کے لیے خدمات کو قبول کیا گیا اور اسے’’صالحین‘‘ کی جماعت قرار دیا گیا۔ سیدّ محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے یہ بھی فرمایا ’’ہم اپنے اسی جانشین کے انتظار میں تھے اور ہمارا یہ کہنا ’کوئی مجھ جیسا ہی میرے مزار کی تعمیر کروائے گا‘ بلاشبہ سلطان محمد نجیب الرحمن کے لیے ہی تھا اور اس کا ظاہری ثبوت آپ کا نہایت عقیدت و خلوص سے محل پاک کی تعمیر کروانا اور مجھ سے فقر کا فیض جاری کروانا ہے۔‘‘
موقع پر موجود طالبانِ مولیٰ نے اپنے اندر باطنی تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کیا اور اپنے احساسات کو ان الفاظ میں بیان کیا:
ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے صاحبزادہ محمد مرتضیٰ نجیب صاحب کے ساتھ ساتھ ہم بھی دوبارہ بیعت ہو رہے ہیں، ہماری روح نے ایک عجیب سی لذت محسوس کی جسے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔
اس دوران بعض طالبانِ مولیٰ نے خود کو مجلسِ محمدی میں پایا اور بعض کے قلوب میں ذکرِ ھوُ جاری ہوگیا۔
اس دوران جن طالبانِ مولیٰ کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری نصیب ہوئی انہیں یکساں طور پرایک بہت بڑی خوش خبری سنائی گئی کہ ان کے عظیم المرتبت مرشد کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو ان کی دینِ حق کی ترویج و اشاعت کے لیے کی گئی بے مثال خدمات اور جدوجہد کے اعتراف کے طور پر ’’شبیہ غوث الاعظم‘‘ کا لقب عطا کیا جاتا ہے۔ بعض مریدین نے دیکھا کہ یہ لقب سیدّنا غوث الاعظمؓ نے خود سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو بہت محبت سے عطا فرمایا۔ سبحان اللہ! کسی بھی مشاہدہ کے حق و سچ ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں کئی طالبانِ مولیٰ کو حاصل ہو۔ جن طالبانِ مولیٰ کو یہ مشاہدہ نصیب ہوا ان میں سلطان محمد عبداللہ اقبال صاحب، سلطان محمد حسنین محبوب صاحب، سلطان محمد ناصر حمید صاحب، عبدالرحمن محبوب سروری قادری، محمد یٰسین سروری قادری اورمحمد مغیث افضل سروری قادری کے نام قابلِ ذکر ہیں حتیٰ کہ ایک خاتون روحینہ بشارت سروری قادری جو کہ ظاہری طور پر عرس میں شریک نہ تھیں بلکہ لاہور میں موجود تھیں دورانِ دعوت ان کو اس لقب سے ان الفاظ میں مطلع کیا گیا ’’تمہارے مرشد پاک تو غوث الاعظمؓ کی شبیہہ ہیں۔‘‘
23اکتوبر 2016ء کا سورج پوری آب و تاب سے طلوع ہوا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ سورج کی روشنی میں تپش نہ تھی۔ پورے پاکستان سے مریدین و معتقدین کے قافلے عرس میں شرکت کے لیے پہنچ رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں پنڈال کھچا کھچ بھر گیا۔ دس بجے آفتابِ فقر شبیہِ غوث الاعظم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی آمد پر ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرکے شاندار استقبال کیا گیا۔ عرس کے دوران حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی شان اور تعلیمات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ شبیہِ غوث الاعظم اور سلطان العاشقین کے نعرے بھی لگتے رہے اور آپ مدظلہ الاقدس اور پیر سیدّ محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے مضبوط روحانی تعلق کو بھی بیان کیا گیا۔
اس عرس پاک کے دوران اور بعد میں مریدین و معتقدین کو حیرت انگیز مشاہدات بھی ہوئے۔ عرس کے بعد لنگر کا وسیع انتظام کیا گیا تھا لیکن شرکاء کی تعداد متوقع تعداد سے اس قدر بڑھ گئی کہ انتظامیہ کو لنگر کم پڑ جانے کا خدشہ ہوا۔ لیکن چونکہ بارگاہِ ایزدی سے شبیہِ غوث الاعظم حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے اعلیٰ روحانی مرتبہ و کمال کی ہلکی سی عکاسی مقصود تھی لہٰذا آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے بظاہر کم نظر آنے والا لنگر شریف نہ صرف تمام شرکائے محفل کو کافی ہوا بلکہ اضافی رہا جو بعد میں غربا میں تقسیم کر دیا گیا اور دور دراز سے سفر کرکے آنے والے زائرین کے ہمراہ بھی دے دیا گیا۔
اس عرس پاک میں شرکت کے بعد جب زائرین اپنے گھروں کو لوٹے تو ان کے اہلِ خانہ نے مشاہدہ کیا کہ ان کے چہرے اس طرح روشن ہیں گویا نور کی برسات ہوئی ہو۔ دور دراز کا سفر طے کرکے گھر جانے والوں کو سفر کی ہرگز تھکاوٹ نہ ہوئی بلکہ ظاہری و باطنی طور پر راحت و سکون کا احساس ہوا۔ جب عرس میں شریک مریدین اور معتقدین سے لوگوں نے پوچھا کہ تم اس عرس سے کیا لائے ہو تو انہوں نے مسرور ہو کر جواب دیا کہ جو فیض اور نور ہم اس عرس سے لائے ہیں انکا بیان الفاظ میں ممکن نہیں، وہ احساسات و جذبات وہاں موجود لوگوں کے علاوہ کسی کی فہم میں نہیں سما سکتے۔ بہت سے طالبانِ مولیٰ نے عرس کی تقریبات اور اس کے بعد ہونے والے مشاہدات بیان کیے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
سلطان محمد عبد اللہ اقبال صاحب بیان کرتے ہیں :
ایک بار میں مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی اجازت اور توفیق سے دعوت پڑھ کر حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہکی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ میں نے دیکھا کہ میں حضور مرشد پاک کے ساتھ سیدّ محمد عبد اللہ شاہؒ کے محل پاک میں داخل ہو رہا ہوں، وہاں محل پاک کے دروازے کے پاس ایک عورت گود میں بچہ لیے بیٹھی ہے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ یہ عورت اور بچہ مجھے کیوں دکھایا گیا ہے کہ اسی وقت سیدّ محمد عبد اللہ شاہؒ نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’اب جس کو بھی اولاد چاہیے اس بارگاہ سے طلب کرے، اللہ کے فضل سے ضرور ملے گی۔‘‘
محمد یٰسین سروری قادری عرس سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہمیں شامل ہوئے۔ روایت کرتے ہیں کہ 22 اکتوبر کی رات غسلِ مزار، چادر اور تاج پوشی کی تقریب کے بعد میں اپنے دل میں اسمِ اللہ ذات کا تصور کر کے سوگیا۔ خواب میں دیکھا کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تشریف فرما ہیں، ان کے چہرہ مبارک پر اسمِ اللہ ذات بہت واضح طور پر تحریر ہے جس میں سے طلوعِ آفتاب کے وقت کی مانند خوشگوار سی ٹھنڈی روشنی نکل رہی ہے۔ اسی اثنا میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔
محمد عمر عباس سروری قادری بیان کرتے ہیں کہ جب عرس سیدّ محمد عبدا للہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا علم ہوا تو میں بھی اس میں شریک ہوا۔ میری موٹربائیک پر ایک شخص نے قبضہ کیا ہوا تھا اور کسی صورت واپس نہ کر رہا تھا۔ جس دن میں عرس مبارک سے روحانی برکات سمیٹتا ہوا واپس آیا تو خواب میں دیکھا کہ میری موٹر بائیک واپس مل گئی ہے۔ ایک ہفتہ کے بعد اس شخص نے خود میری بائیک مجھے واپس کر دی۔ میرے دل کو یقین ہے کہ یہ ثمرات اسی بابرکت محفلِ عرس کے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں ملتان اور ضلع بہاولپور گرمی کی شدت کے لیے مشہور ہیں۔ حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا دربار پاک چونکہ فتانی چوک تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں واقع ہے اس لیے باقی علاقوں کی نسبت گرمی کی شدت یہاں دیر تک رہتی ہے۔ عرس پاک کی محفل کی انتظامیہ نے گرمی کی اس شدت کے پیشِ نظر جو پچھلے کئی دن سے برقرار تھی محفل پاک میں پنکھوں کا خصوصی انتظام کیا مگر حیران کن طور پر 22 اکتوبر کی شام جب غسلِ مزار سے عرس کی دو روزہ تقریبات کا آغاز ہوا تو موسم تبدیل ہو گیا اور ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہو گئی اور اگلے روز اختتامِ عرس تک چلتی رہی۔ زائرین اور شرکا نے اس خوش گوار تبدیلی کو خوب محسوس کیا۔
محمد احمد سروری قادری بیان کرتے ہیں:
میری خواہش تھی کہ مجھے مجلسِ محمدی کی حاضری نصیب ہو، اللہ پاک نے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بدولت عرس سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے موقع پر میری یہ دلی خواہش پوری کر دی۔ میں جب عرس پاک سے واپس گھر پہنچا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک نورانی چہرے والے بزرگ ایک خوبصورت تخت پر جلوہ افروز ہیں۔ میں نے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا یہ بزرگ کون ہیں تو انہوں نے کہا ’’یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں، جاؤ او ران سے ملاقات کر لو۔‘‘ میں نے فوراً ملاقات کی اور ان کی بارگاہ میں بیٹھ گیا۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔
محمد قدیر اقبال سروری قادری ایک قافلہ لے کر بس میں عرس سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے تو بس کے پریشر سسٹم میں خرابی پیدا ہو گئی اور قافلہ رک گیا۔ جب کافی دیر تک بس ٹھیک نہ ہوئی تو انہیں اندیشہ لاحق ہوا کہ قافلہ غسلِ مزار، چادر پوشی اورتاج پوشی کی تقریب میں شامل نہ ہو سکے گا۔ اسی پریشانی میں محمد قدیر اقبال سروری قادری نے حضور مرشد کریم حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو فون کیا اور تمام احوال سنا کر مہربانی کی درخواست کی تو آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا ’’اللہ پاک مہربانی فرمائے گا۔‘‘ محمد قدیر اقبال سروری قادری نے ڈرائیور سے کہا کہ آپ گاڑی کو آہستہ آہستہ جڑانوالہ شہر تک لے جائیں اور کمپنی سے کہیں کہ وہ فیصل آباد سے مکینک جڑانوالہ بھیج دے، ہم غسلِ مزار پاک کی تقریب میں نہ سہی عرس کی محفل میں تو پہنچ جائیں۔ ڈرائیور نے جیسے ہی گاڑی کو ایک یا دو کلومیٹر تک آہستہ رفتار سے چلایا تو اچانک گاڑی کا پریشر ورکنگ کنڈیشن میں آگیا اور گاڑی تیز رفتار سے چل پڑی اور قافلہ عین اسی وقت دربار پاک پر پہنچ گیا جب حضور مرشد کریم مزار پاک میں غسل اور چادر پوشی کے لیے داخل ہوئے۔ گاڑی کا عملہ حیران تھا کہ گاڑی میں یقینی طور پر فالٹ موجود تھا اور انہوں نے اس بات کی تسلی کر کے ہی مکینک کو بلوایا تھا۔ یقینا یہ مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی دعا کی برکت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد تھی جو قافلہ کے شاملِ حال رہی۔
سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سے عقیدت و محبت رکھنے والے محمد سہیل لکی عرس پاک میں شامل ہوئے۔محمد سہیل کے پاؤں پر تین ماہ سے زخم تھا جو بہت علاج کے باوجود ٹھیک نہیں ہوا۔ سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی قبرِاطہر کو جب آبِ زم زم اور عرقِ گلاب سے غسل دیا گیا تو حاضرینِ محفل نے اس پانی کو جو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ مبارک اور حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی تربت مبارک کو چھو کر گرا تھا، تبرک کے طور پر اپنے چہروں اور قلب پر لگایا۔ محمد سہیل نے بھی اس متبرک پانی کے چند قطرے اپنے زخم پر لگائے۔ جب وہ عرس مبارک سے واپس گھر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ معجزانہ طور پر نہ صرف اس کا زخم ٹھیک ہو چکاتھا بلکہ اس کا نشان تک باقی نہ رہا جو علمِ طب کے مطابق اتنی جلدی ممکن نہ تھا۔
اس عرس پاک کی برکت سے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی جماعت پر جو مہربانیاں کی گئیں ان کے اثرات بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ خالص مریدین کو عشقِ مرشد کی نعمت سے اس قدر مالا مال کیا گیا کہ بیشتر طالبوں، جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں، کو مرشد کی شان میں شاعری لکھنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ یہ مریدین خود بھی اس صلاحیت کے ملنے پر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہیں اور سب سے اہم بات یہ ظاہر ہوئی کہ عرصہ دراز سے جماعت میں پوشیدہ منافقین ظاہر ہونا اور بھاگنا شروع ہو گئے۔
محمدیٰسین سروری قادری اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ عرس کے اگلے دن لاہور واپسی سے قبل جب سیدّ محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک پر الوداعی حاضری کے لیے سب مریدین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے ساتھ گئے تو میں مزار کے ایک کونے میں بیٹھا اپنے مرشد پاک کے نورانی چہرے کو محویت کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔ اچانک میرے کندھے کے قریب سے ایک ہاتھ بلند ہوا اور مرشد پاک کی طرف اشارہ کیا اور ساتھ ہی میں نے ایک غیبی آواز سنی ’’ایسے ہوتے ہیں شبیہِ غوث الاعظم۔‘‘
عرس 2016ء کے اختتام پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس 24 اکتوبر 2016ء کو لاہور واپسی کے لیے دربار سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ پر الوادعی سلام کے لیے حاضر ہوئے تو وہاں تمام مشائخ سروری قادری موجود تھے۔ انہوں نے آپ مدظلہ الاقدس کو مبارکباد دی اور فرمایا کہ مجلسِ محمدی سے اور سیدّنا غوث الاعظمؓ سے منظوری ہو چکی ہے کہ بطور طالبِ مولیٰ اور تلقین و ارشاد کی ذمہ داریاں آپ نے جس صدق، خلوص، محنت اور لگن سے نبھائی ہیں آپ واقعی عاشقوں کے سلطان ہیں اور آج سے آپ ہی ’’مرکزِفقر‘‘ ہیں۔ آپ کی ذات فقر کا مرکز ہے۔ آپ ظاہری طور پر بھی مرکزِفقر تعمیر کریں اور 2017ء کے عرس تک خاموش رہیں۔ خود کچھ بھی بند نہ کریں ہم بندوبست کر لیں گے اور منافقین کو بھی جماعت سے نکال دیا جائے گا۔
عرس 2017ء
عرس 2017ء کے لیے 14 اور 15 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے فلیکسز اور پبلیسٹی کے ذریعے اس علاقہ میں ایک دھوم مچا دی۔ احمدپور شرقیہ، اوچ شریف، بہاولپور اور اردگرد کے علاقے فلیکسز، اشتہارات اور پمفلٹ سے بھر دیئے۔ انتظامیہ، ملائوں اور سجادہ نشین خاندان کے کان کھڑے ہو گئے کہ پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے۔
15-14 اکتوبر تک تمام انتظامات مکمل ہو چکے تھے اور تیاریاں پورے ملک میں عروج پر تھیں کہ سجادہ نشین فضلِ حق نے عرس رکوانے کے لیے حکمِ امتناعی (stay order) حاصل کر لیا اور درخواست میں موقف اختیار کیا کہ یہ لوگ دربار اور ان کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن عرس کی تاریخ 15 اکتوبر گزرنے کے بعد درخواست اور مقدمہ 24 اکتوبر کو واپس لے لیا۔ مقصد صرف عرس رکوانا تھا۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا داخلہ بھی دربار پاک پر بند کروا دیا۔ یوں سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے 2012ء سے شروع کیے گئے عرس کا اختتام ہو گیا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اس کے بعد مرکزِفقر مسجدِزہراؓ اور خانقاہ سلطان العاشقین کی تعمیر کا اعلان کیا۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فنا فی اللہ بقا باللہ فقیر کامل اور سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اس دور کے مجددِ دین اور انسانِ کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے فقر و تصوف کے طریق کو موجودہ دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جو انقلابی اقدامات اُٹھائے ان کی تفصیل باب ’’دعوتِ فقر کے لیے جدوجہد‘‘ میں بیان کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی کرشماتی شخصیت اور آپ کی جدوجہد کو الفاظ کی صورت میں مکمل بیان کرنے کی کوشش ایسے ہی ناممکن ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کرنا۔
مجلسِ محمدیؐ سے دئیے گئے حکم کے مطابق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے مسجدِزہراؓ اور خانقاہ سلطان العاشقین کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایا جنہیں آنے والے دور کے لیے فقر کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ مدظلہ الاقدس نے یکم دسمبر 2017ء (12 ربیع الاوّل 1439ھ) بروز جمعتہ المبارک کے میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بابرکت موقع پر اس مرکز ِفقر کی تعمیر کا اعلان فرمایا اور مریدین و معتقدین سے اس تعمیر میں بڑھ چڑھ کر مالی و بدنی تعاون کی اپیل بھی کی۔
دو سال کی جدوجہد کے بعد اتنی رقم جمع ہو گئی کہ خانقاہ اور مسجد کے لیے زمین خریدی جا سکے اور تعمیر شروع کی جائے۔ اس دوران سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے مناسب زمین کی تلاش جاری رکھی۔ اگر کوئی زمین مناسب جگہ پر تھی تو انتہائی مہنگی تھی اور اگر سستی زمین ملتی تو جگہ مناسب نہ ہوتی۔ بالآخر جولائی 2019ء میں سندر اڈا لاہور سے 5 کلومیٹر کے فاصلہ پر رنگیل پور شریف میں مناسب داموں پر اچھی زمین مل گئی جو 12 جولائی 2019ء (9ذیقعد 1440ھ) بروز جمعتہ المبارک خرید لی گئی اور مرکزِفقر مسجدِزہراؓ اور خانقاہ سلطان العاشقین کا سنگِ بنیاد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے یکم اگست 2020ء (10 ذوالحجہ1441ھ) بروز ہفتہ عید الاضحی کے مبارک دن رکھا۔
خانقاہ سلطان العاشقین کے حصہ محافل کی تکمیل 30 اگست 2020ء (10 محرم الحرام 1442ھ) بروز اتوار مکمل ہو گئی اور اس دن سے اتوار کی محفل نورِ مصطفیؐ اور دوسری محافل یہاں منتقل کر دی گئیں جیسا کہ خانقاہ کے باب میں ذکر ہے کہ وہاں جگہ بہت تنگ ہو گئی تھی۔ 30 اگست 2020ء (10 محرم الحرام 1442ھ) کی محفلسے تمام مریدین (مرد و خواتین) کی محافل اسی خانقاہ میں منعقد ہونے لگیں۔ خواتین کے لیے پردہ کا خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ ان محافل میں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو اپنی پرُنور صحبت کے فیض سے نوازتے ہیں اور ان کے مسائل سنتے اور ان کے لیے دعا فرماتے ہیں۔ محافل کے اختتام پر شاندار لنگر کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ محفل نورِ مصطفیؐ ہر اتوار کو نمازِ ظہر سے پہلے منعقد ہوتی ہے جبکہ نماز کی ادائیگی کے بعد لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تحریک دعوتِ فقر کے زیر اہتمام اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی زیر ِصدارت دو سالانہ عظیم الشان محافلِ میلاد کا انعقاد بھی اسی خانقاہ میں ہوتا ہے۔ ایک محفل 12 ربیع الاوّل کو ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بابرکت موقع پر اور دوسری محفل میلادِ مصطفیؐ21 مارچ کو یومِ منتقلی امانتِ الٰہیہ کے موقع پر۔ اس کے علاوہ 10 محرم الحرام، عرس سیدّنا غوث الاعظم اور عرس سلطان باھوُؒ کی محافل باقاعدگی سے یہاں منعقد ہوتی ہیں۔
خانقاہ میں طالبانِ مولیٰ کے لیے رہائش کا انتظام بھی ہے۔ دور دراز علاقوں کے طالبانِ مولیٰ جنہوں نے اپنی زندگی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت میں وقف کر دی ہے، خانقاہ میں رہائش پذیر ہیں اور مختلف فرائض سرانجام دیتے ہیں۔
مسجدِزہراؓ بھی اس کتاب کی اشاعت تک تکمیل کے مراحل طے کر چکی ہوگی (انشاء اللہ)۔ مسجد میں قرآن گیلری بھی موجود ہے اور مسجد سے ملحقہ آپ مدظلہ الاقدس کا مزار مبارک بھی تعمیر کیا گیا ہے جہاں آپ مدفون ہونگے۔
خانقاہ سلطان العاشقین، مسجد ِزہراؓ اور مزار مبارک سلطان العاشقین رہتی دنیا تک فقر کا مرکز رہیں گے جہاں سے فقر کا فیض طالبانِ مولیٰ کے لیے خصوصاً اور عوام الناس کے لیے عموماً جاری رہے گا۔ (انشاء اللہ)