Rate this post

پنجے محل پنجاں وِچ چانن، ڈیوا کِت وَل دھریئے ھُو

Panje mahal panjaan wich chaanan, deevaa kit val dhareeye Hoo

پنجے محل پنجاں وِچ چانن، ڈیوا کِت وَل دھریئے ھُو
پنجے مہر پنجے پٹواری، حاصل کِت وَل بھریئے ھُو
پنجے امام تے پنجے قبلے، سجدہ کِت وَل کریئے ھُو
باھوؒ جے صاحب سر منگے، ہرگز ڈِھل نہ کریئے ھُو

  • مفہوم:
    اس بیت میں پنج (پانچ) کی تکرار ہے اس لیے اس بیت کے بارے میں شارحین میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ 

    •   ڈاکٹر نذیر احمد کو اس بیت کی بالکل بھی سمجھ نہ آئی اور انہوں نے اپنی طبیعت کے رخ کے مطابق اسے بجھارت لکھ دیا۔
    • مندرجہ بالا شارحین کی شرح کا لب ِ لباب یہ ہے کہ جب حواسِ خمسہ (پانچ حواس) یا پانچ لطائف روشن ہو جاتے ہیں تو ہر ایک میں ذاتِ حق کا جلوہ نظر آتا ہے اور سالک کو پانچوں حواس یا لطائف میں ذاتِ الٰہی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ جہاں تک ظاہری اور باطنی حواسِ خمسہ کا تعلق ہے تو اس کا سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات میں کہیں ذکر تک نہیں ملتا اس لیے یہ شرح کچھ درست معلوم نہیں ہوتی۔ جہاں تک لطائف ِستہ ’’نفس، قلب، روح، سِرّ، خفی اور اخفٰی‘‘ کا تعلق ہے ان میں ایک لطیفہ نفس ظاہری اور پانچ باطنی ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ ان پانچ لطائف کے قائل ہی نہیں ہیں، آپ رحمتہ اللہ علیہ اخفیٰ سے آگے یخفٰی اور یخفٰی سے آگے ایک اور مقام اَنا کا بھی ذکر فرماتے ہیں۔                                                                    کلید التوحید کلاں میں فرماتے ہیں:
    • معرفت ِ توحید ِ الٰہی تصدیق ہے، تصدیق قلب میں ہے، قلب روح میں ہے، روح سِرّ میں ہے، سِرّ خفی میں ہے اور خفی یخفٰی میں ہے۔
    • مقامِ اَنا کے بارے میں عین الفقر میں فرماتے ہیں: 
    •  حدیث ِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’بے شک آدمی کے جسم میں ایک ٹکرا ہے جو فواد میں ہے ، فواد قلب میں ہے، قلب روح میں ہے، 
    •  روح سِرّ میں ہے، سِرّ خفی میں ہے اور خفی انا میں ہے۔ جب کوئی فقیر مقامِ انا میں پہنچ جاتا ہے اس پر حالت ِ سکر وارد ہو جاتی ہے۔‘‘ (عین الفقر)
    •  انا بھی دو قسم کی ہوتی ہے قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ اور قُمْ بِاِذْنِیْ ، فقیر انا کی انہی دو حالتوں سے منسلک رہتا ہے۔ (عین الفقر)
    • فقیر ِکامل کا ذکر کرتے ہوئے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    •  اس کا نفس قلب بن جاتا ہے ، قلب روح کی صورت اختیار کر لیتا ہے، روح سِرّ بن جاتی ہے اور سِرّ خفی بن جاتا ہے، خفی انا میں تبدیل ہو جاتی ہے اور انا مخفی میں ڈھل جاتی ہے اسے توحید ِمطلق کہتے ہیں۔مقامِ اَنا وہی مقام ہے جہاں پر منصور حلاجؒ نے انا الحق کہا تھا۔(عین الفقر) حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کثرت کے نہیں وصالِ الٰہی کے قائل ہیں ۔ آپؒ فرماتے ہیں: باجھ وصال اللہ دے باھُوؒ، سب کہانیاں قصے ھُو        مفہوم: وصالِ الٰہی کے بغیر تمام مقامات اور منازل بے کار ہیں۔
    • آپؒ فرماتے ہیں:
    • h چار بُودم سہ شدم اکنوں دویم
    •  و ز دوئی بہ گزشتم و یکتا شدم
    •  ترجمہ: میں پہلے چار تھا پھر تین ہوا اور جب دوئی سے بالکل نکل گیا تو یکتا ہو گیا۔
    • آپ رحمتہ اللہ علیہ کے طریقہ سلوک میں یکتائی یعنی وصالِ الٰہی کے مرتبہ کے بغیر تمام مقامات اور منازل بے کار اور لا حاصل ہیں اس لیے پانچ حواس یا لطائف میں ذات ِ حق کے نظر آنے یا دیدار ہونے کے آپؒ قائل ہی نہیں ہیں۔
    • اس بیت میں پنجے، پنجاں یعنی پنج کی تکرار ہے اور سب جانتے ہیں کہ پنجابی میں جب پنج کا ذکر ہو تو مراد پنجتن پاک یعنی اہل ِ بیتؓ ہوتے ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ پنجتن پاک کی معرفت حاصل کیے بغیر فقر کی انتہا تک رسائی ناممکن ہے۔
    • پنجتن پاک (اہل ِبیتؓ) کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں:
    • j حضرت مسور بن مخرمہ h سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے فرمایا’’فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تو بس میرے جسم کا ٹکڑا ہے، اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے۔‘‘ (مسلم6308، نسائی)
    • j حضرت مسور بن مخرمہ h سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بے شک فاطمہ (رضی اللہ عنہا) میری شاخ ہے، جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے اور جس سے اُسے تکلیف پہنچتی ہے اس چیز سے مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے۔‘‘ (مسند احمد، المستدرک)
    • j ام المومنین حضرت عائشہ k روایت فرماتی ہیں ’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صاحبزادی سیّدہ فاطمہ kسے بڑھ کر کسی کو عادات و اطوار، سیرت و کردار اور نشست و برخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ (ابودائود5217، ا ابن ِماجہ، ترمذی)
    • j اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ kفرماتی ہیں ’’میں نے اندازِ گفتگو میں حضرت فاطمۃ الزہرا k سے بڑھ کر کسی اور کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔‘‘ (بخاری، نسائی، صحیح ابن ِحبان)
    • j حضرت حبشی بن جنادہ h سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’علیؓ مجھ سے اور میں علیؓ سے ہوں اور میری طرف سے عہد کی بات میرے اور علیؓ کے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکتا۔‘‘(ترمذی3719،  ابن ِماجہ119، مسند احمد)
    • j حضرت زید بن ارقم hروایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علیؓ مولا ہے۔‘‘ (المستدرک4577، ترمذی3713)
    • j حضرت ریاح ابن حارثؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے غدیر ِخم کے دن فرمایا ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلٰی فَعَلِیٌّ مَوْلٰی ترجمہ: جس کا میں مولیٰ ہوں اُس کا علیؓ مولیٰ ہے۔‘‘ (مسند احمد 23959، طبرانی)
    • j حضرت عمران بن حصین h ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’بے شک علیؓ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہے۔‘‘ (ترمذی3712)
    • j حضرت عبداللہ بن عباس h روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ kسے فرمایا ’’یہ علیؓ بن ابی طالب ہے۔ اس کا گوشت میرا گوشت ہے اور اس کا خون میرا خون ہے اور یہ میرے لیے ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ (طبرانی)
    • j حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت فرماتے ہیں ’’حسن (h)سینہ سے سر تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل شبیہ ہیں اور حسین (h) سینہ سے نیچے پائوں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کامل شبیہ ہیں۔‘‘ (ترمذی3779، مسند احمد، طبرانی)
    • j حضرت ابوہریرہ h سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس نے حسن اور حسین (j) سے محبت کی اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین (j) سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔‘‘ (طبرانی2579،ابن ِماجہ، مسند احمد)
    • j حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔ اے اللہ! جو حسین ؓ سے محبت رکھے اسے محبوب رکھ۔ حسینؓ نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔ جسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مرد کو دیکھے (ایک روایت میں ہے کہ جنتی نوجوانوں کے سردار کو دیکھے) وہ حسینؓ بن علیؓ کو دیکھے۔‘‘ (متفق علیہ)
    • j حضرت سعد بن ابی وقاص h بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت ِمبارکہ ’’آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)فرما دیں کہ آجائو ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیتے ہیں‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ،حضرت حسن ؓ اور حسین ؓ کو بلایا اور فرمایا ’’یا اللہ! یہ میرے اہل ِ بیتؓ ہیں۔‘‘ (مسلم6220، ترمذی3724) حضرت علی کرم اللہ وجہہ بن ابی طالب بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت حسن اور حسین (j) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا ’’جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی درجہ میں ہوگا۔‘‘ (ترمذی3733، مسند احمد)
    • j حضرت زید بن ارقم h سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین j سے فرمایا ’’جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہوگی اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہوگی۔‘‘ (طبرانی2555، ترمذی ، ابن ِماجہ)۱؎  حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں :
    • h اللہ تعالیٰ سے وصل اوروصال کے دو طریقے اور راستے ہیں۔ ایک نبوت کا طریقہ اور راستہ ہے، اس طریق سے اصلی طور پر واصل اور موصل محض انبیا علیہم السلام ہیں اور یہ سلسلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی پر ختم ہوا۔ دوسرا طریقہ ولایت کا ہے، اس طریق والے واسطے (وسیلہ) کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے واصل اور موصل ہوتے ہیں۔ یہ گروہ اقطاب، اوتاد، ابدال، نجبا اور عام اولیا پر مشتمل ہے۔ اس طریقے کا راستہ اور وسیلہ حضرت سیّدنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ منصب ِ عالی آپ رضی اللہ عنہٗ کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہے۔ اس مقام میں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قدم مبارک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر پر ہے اور حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اس مقام پر سیّدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ شامل اور مشترک ہیں۔(مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب 123 بنام نور محمد تہاری)  سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
    • h حضرت علی کرم اللہ وجہہ شاہِ مرداں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کیا ہے۔ (عین الفقر، محک الفقر کلاں)
    • h آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ (جامع الاسرار)
    • h فقرا کے پیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ (جامع الاسرار)
    • حدیث پاک  اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا  کا اہل ِ علم اس طرح ترجمہ کرتے ہیں ’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ‘‘ لیکن حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کو اس مفہوم میں بیان فرماتے ہیں ’’میں فقر کا شہر (مرکز) ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ (باب)۔‘‘ اس لیے فقرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ’’بابِ فقر‘‘ کے لقب سے بھی یاد کرتے ہیں۔
    • سیّدہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا سلطان الفقر ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف ’جامع الاسرار‘ میں فرماتے ہیں:
    •  
    •  حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا۔ جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔
    • حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    • h اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ (فقر میرا فخر ہے) میں کمال امامین پاک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو نصیب ہوا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
    • مندرجہ بالا عبارت سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ فقر کے مرتبہ ٔکمال فنا فی اللہ بقا باللہ کے مقام پر یہ چاروں ہستیاں یکتا اور متحد ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب تک ان چاروں ہستیوں کے مقام اور مرتبہ کے بارے میں طالب ِ مولیٰ بھی یکتا نہیں ہو جاتا فقر کی خوشبو تک کو نہیں پا سکتا۔ کیونکہ:
    • h  بیدمؔ یہی تو پانچ ہیںمقصودِ کائنات                       خیر النسائ، حسینؓ و حسنؓ مصطفیؐ علیؓ
    •                                                                                                           ٭٭٭٭ 
    • h لِیْ خَمْسَۃٌ اُطْفِیْ بِھَا حَرَّ الْوَبَائِ الْحَاطِمَۃ    اَلْمُصْطَفیٰ وَ الْمُرْتَضٰی وَ اَبْنَاھُمَا وَ الْفَاطِمَۃ
    • ترجمہ: پنجتن پاک (اہل ِبیتؓ) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، سیّدہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا اور ان کے دونوں فرزند حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم ایسی ہستیاں ہیں جن کی وجہ سے ہر مہلک وبا (ظاہری و باطنی) کی آگ بجھ جاتی ہے۔
    • حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی بیعت مبارک کا واقعہ بھی پنجتن پاک کی مجلس میں ہوا۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اہل ِبیتؓ کی محبت میں غرق تھے اور ہر سال یکم محرم سے دس محرم تک شہدائے کربلا کا عرس منایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ آج تک تین سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود جاری ہے۔ عاشورہ محرم کے دس دنوں کے اندر زائرین کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ہزاروں آ رہے ہیں تو ہزاروں زیارت کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں۔ عاشورہ کے آخری تین ایام میں تو تعداد لاکھوں سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اس طرح آپؒ کے مزار پاک پر ہر سال دو بڑے اجتماعات ہوتے ہیں، لاکھوں لوگ حاضری دیتے اور فیض پاتے ہیں۔
    • اس بیت میں آپ رحمتہ اللہ علیہ پنجتن پاک (اہل ِ بیتؓ) کا مرتبہ اور شان بیان فرما رہے ہیں:
    • ’پنجے محل‘ سے مراد پنج تن پاک (اہل ِبیتؓ) کے طاہر و مطہر بشری وجود ہیں اور چانن سے مراد ان میں ھُو کا نور ہے جو واحد اور یکتا ہے۔ اگر ان کی بشریت کو دیکھا جائے تو وہ مختلف صفاتِ کاملہ کے مظہر ہیں اور اپنی اپنی جگہ کامل، اکمل اور نورالہدیٰ ہیں لیکن اگر باطن کی نگاہ سے ان کی حقیقت کو دیکھا جائے تو وہ ایک ہی ذات کے کامل مظہر ہیں لہٰذا وہ حقیقت میں واحد اور یکتا لیکن بظاہر جدا جدا ہیں۔ یہ ظاہری کثرت اور باطنی وحدت ا  ایک طالب کے لیے ھُو کی معرفت کو بعض اوقات مشکل بنا دیتی ہے۔ اسی مشکل کا اظہار حضرت سخی سلطان باھُو m اس بیت میں فرما رہے ہیں۔ طالب اسی کشمکش میں رہتا ہے کہ وہ انہیں واحد اور یکتا سمجھے یا پانچ۔ اگر وہ ایک ہی ذاتِ ھُو کے مظہر ہیں تو وہ ھُو کو سجدہ کرنے کے لیے ظاہری طور پر کس کی طرف رُخ کرے اور بوقت ِحساب مغفرت کے لیے کس کی طرف رجوع کرے؟ ھُو ہی قبلہ ہے اور واحد، احد ہے لیکن ظاہری طور پر ان پانچ بشری وجودوں میں اس کا ہویدا ہونا ایک ایسا سِرّ ہے جس سے آشنائی صرف سر دے کر ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ راز صرف انہی عارفین کو حاصل ہوا جو مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا (مرنے سے پہلے مر جائو) کے مقام سے گزر کر خود ذاتِ ھُو میں فنا ہو کر فنا فی ھُو ہوئے اور ھُو کے محرم راز ہو گئے-

لغت:

الفاظ مفہوم
پنجے پانچوں
حاصل مالیہ
پنجاں پانچوں
بھرئیے بھریں۔ ادا کریں
وچ میں
جے اگر
چانن روشنی
صاحب اللہ تعالیٰ
ڈیوا دیا۔ چراغ
منگے مانگے۔ طلب کرے
کِت وَل کدھر۔ کس جانب
کرئیے کریں
دھرئیے رکھیں
ڈِھل دیر۔ تاخیر
مہر سردار، چوہدری، مہر کا مطلب سورج بھی ہے جو ہر ایک کو بلاامتیاز روشنی بخشتا ہے۔
Spread the love
Open chat
1
آن لائن بیعت کے لئے رابطہ کریں
Aslaam o Alaikum!
Welcome to the Website.