صدق،عاجزی اور اخلاصِ نیت
صدق ،عاجزی اور اخلاصِ نیت
عاجزی اور نیت کا اخلاص جتنا زیادہ ہوتا ہے بندہ اتنی جلدی اللہ کے قریب ہو جاتا ہے اور جتنا قریب ہوگا اتنا ہی عاجزی میں اضافہ ہوگا۔ بشرطیکہ نیت میں اخلاص بھی ہو۔
خلوص اور محنت سے اللہ کا کام کرنے والے کا کام اللہ بھی بہترین طریقے سے کرتا ہے۔
عاجزی کرنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوتا اور تکبر کرنے والا سب سے پہلے گمراہ ہوتا ہے۔ شیطان عاجزی والے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
انسان کا اصل ہتھیار عاجزی، اخلاصِ نیت اور صدق ہے۔
طاقت کو اخلاص و عاجزی کے بغیر سنبھالا نہیں جاسکتا۔ اگر طاقت کے ساتھ تکبر بھی آجائے تو جلد یا بدیر طاقت چلی جاتی ہے۔
صدق مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی حقیقت کو انتہا تک پہچان لینا۔ انسان کے دل میں اللہ کی طرف سے بھی الہام ہوتا ہے اور شیطان بھی خیال ڈالتا ہے۔ صدق یہ ہے کہ بندہ پہچان لے کہ یہ خیال شیطانی ہے یا رحمانی۔ صدق اور اخلاصِ نیت لازم و ملزوم ہیں۔ صدق اخلاصِ نیت ہی کی اعلیٰ تر صورت ہے۔
راہِ فقر میں کامیابی کیلئے اخلاص ِنیت بہت ضروری ہے۔ جتنا نیت میں صدق اور اخلاص ہوگا منزل اتنی ہی جلد حاصل ہوگی۔ جہاں طالب کی نیت میں فتور آتا ہے یا یقین کی منزل سے گر جاتا ہے وہیں پر اس کا سفر رک جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ تو دل اور نیت پر ہوتی ہے اس کی زبان اور عمل پر نہیں۔
صدق ہی عشق میں تڑپ پیدا کرتا ہے۔ صدق نہ ہو تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔
عبادت اسی طرح سے قبول ہوتی ہے جس طرح کی نیت ہوتی ہے۔
عاجزی و انکساری سے باطن میں انوارِ الٰہی داخل ہوتے ہیں۔
اللہ پاک کامیابوں اور ناکامیوں سے اپنے بندوں کو آزماتا ہے حتیٰ کہ اس نے نبیوں کو بھی اسی طرح آزمایا۔ اللہ کے ہاں وہی سرخرو ہے جس کا باطن ہر حالت میں یکساں رہے۔
مرشد کی تلاش کے دوران جب کسی مرشد کے پاس جائو‘ عاجزی و انکساری سے جائو۔ اگر وہ ناقص ہوگا تو اللہ تمہیں کسی کامل کے پاس پہنچا دے گا اور اگر تکبر سے جائو گے تو کامل کے پاس بھی نہ ٹھہر سکو گے۔
اگر اللہ کا کوئی عاجز بندہ کسی کے عیب، وعدہ خلافی، بے وفائی اور دھوکہ دہی کو چھپا لیتا ہے لیکن وہ احمق جس کے عیبوں پر پردہ ڈالا گیا ہو خود ہی لوگوں کے سامنے اس کو ظاہر کر دیتا ہے اور لوگ سیاہ اور سفید میں فرق کو جان جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دل اندھا اور عقل سلب ہو جاتی ہے۔
اپنے ربّ کے آگے سچے دل سے اپنی کمزوریاں بیان کر دیا کرو۔ وہ انہیں تمہاری قوتوں میں تبدیل کر دے گا، بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
شکر ہے اللہ پاک کا اس نے دھوکہ کھانے والوں میں رکھا،دینے والوں میں نہیں۔
خلوص اور صدق، دل کے صاف ہونے سے آتا ہے۔
دعا مانگتے وقت الفاظ سے زیادہ باطنی کیفیت پر توجہ دو۔ تم جس ربّ کو پکار رہے ہو وہ بے زبانوں کی بھی سنتا ہے۔