Mutfaraiq

سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن کے متفرق فرمودات، اقوال

5/5 - (1 vote)

سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن کے متفرق فرمودات، اقوال

متفرق فرمودات، اقوال

 

*زمین عقل مندوں سے تو بھر گئی ہے لیکن دردمندوں سے خالی ہے۔
*راستے کے کتوں کی پروا ہ نہیں کرتے ورنہ منزل نہیں ملتی، کتے بھونکنے کے لیے ہوتے ہیں روکنے کے لیے نہیں۔
*انسان کو جب اللہ سے لینا ہوتا ہےتو لاکھوں کروڑوں کی دعا مانگتا ہے اور جب اللہ کی راہ میں دینا ہوتا ہے تو جیب میں سب سے چھوٹا سکہ ڈھونڈتا ہے۔
*جو کسی کے ساتھ زیادتی کرکے اپنے لیے عزت چاہتا ہے تو اللہ اسے اپنے انصاف کے ذریعے ذلت دیتا ہے۔
*اگر کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو خاموش رہنا سیکھ لو ورنہ لفظ کے مطلب ہزار نکلتے ہیں۔
*اپنے نقصان پر دکھ اور غم نہ کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تم سے اس وقت تک کچھ نہیں لیتا جب تک تم کو اس سے بہتر عطا نہ کر دے۔
*برا وقت ہمیشہ گزر جاتا ہے، چیزیں ٹھیک ہوجاتی ہیں بس انسان کا ظرف آزمانا ہوتا ہے اللہ نے۔
*اللہ ظالم نہیں ہے۔۔۔ انسان خود اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔۔۔ خود اپنے لیے گڑھے کھودتا ہے اور جب اس میں گرتا ہے تو شکوہ اللہ سے کرتا ہے۔۔ اپنے اعمال اپنی نافرمانیاں یاد نہیں رہتیں۔۔۔ اپنی مرضی سے غلط راہ چن کر پھر جب نتائج رلاتے ہیں تب عقل آتی ہے۔۔ لیکن وہ کریم رب پھر بھی کہتا ہے کہ جو ہوا سو ہوا میری طرف پلٹ آؤ۔۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ہدایت پالیتے ہیں۔
*ربّ اور بندے کے درمیان نفس حجاب ہے۔
*انسان گمراہ خود ہوتا ہے کوئی اسے گمراہ نہیں کرتا. گمراہ کا مطلب ہے اپنی مرضی کرنا اور اپنے نفس اور مفاد کے مطابق صراطِ مستقم چھوڑ کر اپنے لیے علیحدہ راستہ بنانا اور اس پر بضد رہنا۔
اگر تم کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہو تو یہ نہ سمجھنا وہ کتنا بیوقوف ہے بلکہ یہ سوچنا کہ اس کو تم پر اعتبار کتنا تھا۔
*اگر اللہ کا کوئی عاجز بندہ کسی کے عیب، وعدہ خلافی، بے وفائی اور دھوکہ دہی کو چھپا لیتا ہے لیکن وہ احمق جس کے عیبوں پر پردہ ڈالا گیا ہو خود ہی لوگوں کے سامنے اس کو ظاہر کر دیتا ہے اور لوگ سیاہ اور سفید میں فرق کو جان جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دل اندھا اور عقل سلب ہو جاتی ہے۔
* مخلوق کی خوشنودی کے لیے اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کرو، اگر اللہ تعالیٰ سے تمہارا رشتہ کٹ گیا تو کوئی بھی تمہارے کام نہیں آسکتا۔
* اپنے رب کے آگے سچے دل سے اپنی کمزوریاں بیان کر دیا کرو۔ وہ انہیں تمہاری قوتوں میں تبدیل کر دے گا، بیشک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
* تبدیلی کائنات کا اصول ہے، تبدیلی کے ساتھ جو تبدیل نہیں ہوتا وہ فنا ہوجاتاہے۔
* جو اللہ کے ساتھ جڑتا ہےاسے مخالفت کاسامناکرنا پڑتا ہے۔ جو جُڑنا چاہے جُڑ جائے،جُڑنےوالا اصلی ہے۔
*اُف بھی نہ کر۔۔۔سولی پہ لٹک جا یہ بازارِ عشق ہے تماشہ  نہیں۔
*زندگی میں طوفان کا آنا بھی ضروری ہے تاکہ پتہ چل سکے کون آپ کا ہاتھ تھام کر بھاگ رہا ہے اور کون ہاتھ چھوڑ کر۔
*ابلیس میں تین عین تھے، چوتھا نہیں تھا عابد تھا، عالم تھا، زاہد تھا مگر عاشق نہیں تھا اگر عاشق ہوتا تو ضد نہ کرتا اور سربسجود ہوجاتا۔
*فقیر وہ ہوتا ہے جو اللہ کی رضا پر راضی ہو۔
*زندگی میں سب لوگ رشتہ دار یا دوست بن کر ہی نہیں آتے، کچھ لوگ سبق بن کر بھی آتے ہیں۔
*’’شکر ہے اللہ پاک کا اس نے دھوکہ کھانے والوں میں رکھا‘‘ دینے والوں میں نہیں۔
*جن کی زندگیوں اور رویوں میں ماہِ رمضان میں بھی تبدیلی نہیں آتی انہیں جان لینا چاہیے کہ ان کی روح کا مرض گہرا اور تشویشناک ہے۔
*لوگ تمہارے کارنامے دیکھتے ہیں اور رب تمہاری نیتیں دیکھتا ہے۔
*عبادت وہ ہے جو معبود کو منظور ہو جائے! ورنہ کروڑوں سال کی عبادت ایک سجدہ نہ کرنے سے ضائع ہوتی دیکھی گئی۔
*خلوص اور صدق‘ دل کے صاف ہونے سے آتا ہے۔
*اللہ سے ہمیشہ صراطِ مستقیم مانگو۔ صراطِ مستقیم انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے۔
* برے وقت میں صبر اور اچھے وقت میں شکر کرنا چاہیے۔
* اللہ مومن کی ذرا سی پریشانی پر اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
*جو اللہ کے زیادہ قریب ہوتا ہے اُس کے حاسد زیادہ ہوتے ہیں۔
* بندۂ مومن جتنا عارف ہوتا ہےاُتنا ہی عاجز ہوتا ہے۔
*عزت صرف رسولؐ اور مومنین کی ہے۔
*جدوجہد کامیابی کی علامت ہے۔
*فاسق کی غیبت نہیں ہوتی۔
* روح کی خوراک اللہ کا نور ہے۔
* اللہ ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں کرتا جو:
۱) کلمہ گو کو کافر کہے
۲) صراطِ مستقیم پر چلنے والے کو گمراہ کرے
۳) گناہ کو جان بوجھ کر کرے
* ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے۔

* ھُو کل ہے اور طالب جز ہے۔ جز کُل کی طرف دوڑتا ہے۔
* جو اللہ کا ہو گیا اللہ اس کا ہو گیا۔
* سکون کا نام جنت ہے اور بے سکونی کا نام دوزخ ہے۔
* موت تو آنی ہی ہے بہتر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر مرا جائے۔
* عقلمند وہ ہے جو اللہ کے حضور اپنا خوف ختم نہیں ہونے دیتا۔
* جتنا اللہ کا راز رکھو گے اتنا ہی اللہ اپنے راز تمہیں عطا کرے گا۔
* اللہ بندے کی تربیت بندے کی فطرت کے مطابق کرتا ہے۔
* جو حق کی تلاش میں ہوتا ہے وہ ضرور حق تک پہنچتا ہے۔
* نبی کی زندگی کا اوّل حصہ خواص کی تربیت کے لیے اور آخری حصہ عوام کے لیے ہوتا ہے۔
* نگاہ سے مراد صفت منتقل کرنا ہے جیسا کہ مجلسِ محمدی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کی نگاہ سے طالب میں صدق کی صفت منتقل ہوتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کی نگاہ سے عدل اور محاسبہ نفس‘ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کی نگاہ سے غنا اور ادب و حیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نگاہ سے علم و شجاعت کی صفت طالب میں منتقل ہوتی ہے۔
* اگر عالمِ ارواح میں اللہ سے روگردانی کرنے کی لغزش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں اپنے عہد کو توڑنے کی خطا کو معاف کروانے کا ایک موقع اس عالمِ خَلق کو تخلیق کر کے دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور دنیا و عقبیٰ کو فراموش کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں کیونکہ اس کا وعدہ ہے’’جو مجھے طلب کر تا ہے وہ مجھے پا لیتا ہے۔‘‘
* بندہ اللہ کے کام سے جتنی توجہ ہٹاتا ہے دنیا اس پر اتنی ہی تنگ ہوجاتی ہے اور جتنا اللہ کا کام کرتا ہے اللہ اس کے لیے اتنی ہی آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
* جب بندہ اپنا مفاد سامنے رکھ کر فیصلہ کرتا ہے وہ فیصلہ ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔
* خانقاہ میں صحبتِ مرشد سے تزکیۂ نفس کیا جاتا ہے۔ یہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔
* اختلاف رحمت ہے اگر اس میں تعصب نہ ہو۔ اگر اس میں تعصب داخل ہو جائے تو یہ انتشار اور فساد بن جاتا ہے۔
* حقیقت تک پہنچنے کے لیے اپنی ذات کی نفی ضروری ہے۔
* اتباع سے مراد ظاہری و باطنی کامل اتباع ہے صرف ظاہر کی اتباع نامکمل ہے۔ باطن میں فنا فی اللہ بقا باللہ تک پہنچنا کامل اتباع ہے۔
* قرآن کے معنی ولی کے قلب پر اترتے ہیں جبکہ عالم کے دماغ پر۔ دماغ کے بہت سے زاویے ہیں جبکہ قلب (روح) ایک ہی ہے جو اللہ سے ہے۔ اسی لیے اولیا قرآن کے ایک ہی معنی اخذ کرتے ہیں اور علما اپنے اپنے دماغ کے مطابق مختلف معنی اخذ کرتے ہیں۔
* انسان اللہ کے ساتھ جیسا رویہ رکھتا ہے اللہ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی ہو جاتا ہے۔
* بندے کو اللہ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔
* ’’سوچ‘‘ ہی انسان کی اصل ہے ۔ سوچ کو مثبت بنا لینا ہی فقر میں کمال ہے۔ 
* علم کے مطابق جو حال میں سے گزرتا ہے وہی فقر کو سمجھتا ہے ۔ 
* اللہ بے حساب دینے والا ہے، پھر اس سے کیا حساب رکھنا۔ جو اللہ سے حساب نہیں رکھتا اللہ اسے بے حساب دیتا ہے ۔ جو اللہ سے حساب رکھنا شروع کردے پھر اللہ بھی اسے حساب کرکے دیتا ہے۔
* اللہ پاک جب کسی کو اپنا بنا تا ہے تو اسے تین نعمتوں سے نوازتا ہے: عشقِ حقیقی ، سخاوت اور زمین جیسی عاجزی۔ 
* جب انسان خود کو بدلنا چاہے گا تب ہی اللہ اسے ہدایت دے گا۔ جو خود کو صحیح سمجھتا رہے اللہ اسے اس کے حال پر چھوڑے رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ موت کے بعد اس کی حقیقت ظاہری دنیا سے بھی کئی گنا زیادہ بُری حالت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔
* دعا مانگتے وقت الفاظ سے زیادہ باطنی کیفیت پر توجہ دو۔ تم جس ربّ کو پکار رہے ہو وہ بے زبانوں کی بھی سنتا ہے۔
* مَیں کو مٹا کر مَن نظر آتا ہے، مَن کو جھکا کر ربّ نظر آتا ہے۔
* کبھی کبھی اللہ تعالیٰ ہمارے یقین اور ارادوں کو توڑ کر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہو گا وہی جو میں چاہوں گا۔
* فقر میں سب سے مشکل کام فنا فی الشیخ ہے۔ مرشد کی حیات میں طالب عشق کی بدولت باطن میں فنا فی الشیخ کے مقام پر فائز ہوتا ہے اور مرشد کے وصال کے بعد اس کی صورت، سیرت، اقوال، افعال، عادات و خصائل مرشد کی مثل ہو جاتے ہیں اور وہ سر سے قدم تک مرشد کے وجود میں ڈھل جاتا ہے۔
* محبوبِ حقیقی کوئی تلاش نہیں کرتا جب تک وہ خود اسے اپنی تلاش نہ دے اگر تمہیں اس کی تلاش کی طلب عطا ہوئی ہے تو جان لو کہ اسے بھی تمہاری تلاش ہے۔
* حقیقی انسان وہ ہے جو اپنے جسم کے مردہ ہونے سے زیادہ اپنے دل کے مردہ ہونے سے ڈرتا ہو۔
* کچھ لوگ اللہ کے در کے لیے ہی پیدا کیے جاتے ہیں، اللہ ان کو چن لیتا ہے۔ کبھی رُلا کر، کبھی آزما کر، کبھی تکلیف دے کر، وہ اپنے خاص بندوں کو دوسروں سے الگ کر دیتا ہے۔ کچھ اس مقام تک چل کر خود آتے ہیں کچھ کو کھینچ کر لایا جاتا ہے بندے کی کیا مجال کہ اللہ کے حکم سے سرتابی کرے، اسے دکھ کی بھٹی سے گزار کر کندن بنا کر، اللہ اس کے دل کا مکین بن جاتا ہے اور جس کو ربّ مل جائے اسے سب کچھ مل گیا۔
* صبر کرنا سیکھ لیں، اللہ سب جانتا ہے، وہ جانتا ہے آپ کب کن وقتوں سے گزرے ہیں، یقین کریں وقت بدل جائے گا کیونکہ تبدیلی کائنات کا اصول ہے۔
* ان لوگوں سے مت ڈرو جو اپنا بدلہ لینا جانتے ہوں ہمیشہ ان لوگوں سے ڈرو جو اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینے والے ہوں۔
* راہِ حق اس وجہ سے نہ چھوڑیں کہ اس کے راہی کم ہیں، صراطِ مستقیم کا سفر تنہا ضرور کر دیتا ہے مگر اس تنہائی میں عجیب سا لطف بھی ہوتا ہے۔
* زندگی میں سب لوگ دوست یا رشتہ دار بن کر ہی نہیں آتے۔ کچھ لوگ سبق بن کر بھی آتے ہیں۔
* کبھی کبھار اچھے اور نیک لوگوں سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ بُرے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی انسان ہیں۔
* آپ جتنا ڈریں گے لوگ آپ کو مزید ڈرائیں گے۔ جب آپ ڈرنا چھوڑ دیں گے تو لوگ آپ سے ڈرنے لگیں گے۔
* غلط بات پر خاموش رہنا چھوڑ دیں، آپ سے کوئی غلط بات کرنے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔
* اگرنیتوں (باطن) کا اثر چہروں پر نظر آنے لگتا تو معاشرے کا ہر فرد نقاب کرنے پر مجبور ہو جاتا۔
* خدا کی راہ میں کوشش کرو اور کبھی پیچھے نہ ہٹو۔ کیونکہ خدا نے تم سے کوشش مانگی ہے نتیجہ نہیں۔
* جو لوگ انسانوں کے اندر غلط اور گمراہ کن سوچ پیدا کرتے ہیں وہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
* انسان کے پاس اصل طاقت سوچ ہے۔
* جہاں مذہب کاروبار بن جائے تو پھر تشدد اور نفرت کے سوا وہاں کچھ نہیں رہتا۔
* مشکل وقت آپ سے محبت کرنے والوں کو بے نقاب کر دیتا ہے۔
* کسی نے ایک فقیر سے پوچھا دنیا میں سب دکھی کیوں ہیں؟ فقیر نے ہنس کر جواب دیا خوشیاں سب کے پاس ہیں بس ایک کی خوشی دوسرے کا درد بن جاتی ہے۔
* لوگ آپ کے کام کو اور اللہ آپ کی نیت کو دیکھتا ہے۔
* کچھ لوگ ساری رات اپنے لیے جنت کی دعا مانگتے ہیں اور سورج نکلتے ہی دوسروں کی دنیا جہنم بنا دیتے ہیں۔
* عجیب سا رواج چل نکلا ہے جن کے پاس دولت اور اختیار نہیں وہ مذہب کے ذریعے طاقت حاصل کرتے ہیں۔
* علم کی منزل ذاتِ حق ہے جس نے یہ منزل حاصل کر لی وہ زندہ ہے۔ ورنہ مردہ ہے۔
* کسی کی اصلیت سامنے آنے پر دکھی اور رنجیدہ مت ہو یہ اللہ کی تم پر مہربانی اور کرم ہے۔
* آج کے دور میں لوگ طاقت اور زور اپنے آپ کو صحیح اور درست کرنے میں نہیں لگاتے جتنا دوسروں کو غلط ثابت کرنے میں لگا دیتے ہیں۔
* ’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل و صورت سے جانیں۔ بلکہ ’’مرد‘‘ ایک ’’شان‘‘ اور ’’صفت‘‘ ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے۔ طلبِ حق تعالیٰ کا راستہ’’مرد‘‘ ہی اختیار کرتے اور طے کرتے ہیں اس لیے بہت سے مرد عورتیں ہیں اور بہت سی عورتیں مرد ہیں۔
* غلط لوگ ہی درست اور صحیح سبق دیتے ہیں۔
* ساری پریشانیاں اور تکلیفیں اس وقت ختم ہوتی ہیں جب یقین ہو جاتا ہے کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
* غم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ انسان کو نرم کر دیتا ہے اگر غم نہ ہوتے تو انسان پتھر ہی رہتا۔
* ساتھ چھوڑنے والے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں مقام کوئی بھی ہو، نبھانے والے نبھاتے ہیں حالات جیسے بھی ہوں۔
* کام اور محنت کیے بغیر دعا پر بھروسہ حماقت ہے اور کام اور محنت پر بھروسہ کر کے دعا نہ کرنا تکبر ہے۔
* ان لوگوں سے محتاط رہو جن کی باتوں میں مٹھاس اور دل میں زہر ہوتا ہے۔
* لفظوں اور بے وفائیوں کے زخم بھولنے کا فن یا تو پاگل کو آتا ہے یا کامل کو۔
* منافق اور ریا کار ہے وہ شخص جو عبادات سے لوگوں میں عزت کا طلب گار ہے۔

* عارف وہ ہے جو اسم سے مسمّٰی کو پاتا ہے۔
* کسی عالم کا کام اس وقت متنازع ہو جاتا ہے جب وہ حکمرانی کی جنگ میں شامل ہو جائے۔
* کبھی بھی اس کا اعتبار نہ کرنا جو اپنی پارسائی کا چرچا کرے۔
* اس سے بھی بچ کر رہو جو دین کے ذریعے دنیا کماتا ہے۔
* سب سے زیادہ منافق اور بدکار ہے وہ جو دین کے ذریعے دنیاکماتا ہے۔
* دردمند(عاشق ) ہونا بڑی سعادت کی بات ہے۔
* اگر مجاہدہ دل کی کشادگی سے ہو رہا ہو تو پھر طالب کا معاملہ درست ہے۔
* انسان کے پاس سوچ کے سوا کچھ نہیں۔ 
* اگر تزکیہ نفس نہ ہو تومال کی زیادتی فتنہ پیدا کرتی ہے۔
* اگر طالب کے دل میں مرشد کی محبت کم ہو رہی ہویا مرشد کاکوئی بھی کام کرتے وقت اسے دل میں تنگی محسوس ہو یاوہ اللہ کے کاموں کو کل پر ٹالتا رہے تو سمجھ لو کہ بندے اور اللہ کا معاملہ خطرے میں ہے۔
* ہر وہ چیز دنیا ہے جو اللہ سے ہٹا کر اپنی طرف مشغول یا متوجہ کر لے۔(شمس الفقراء)
* ہر وہ چیز جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا آپ کے دل کو اپنی محبت میں گرفتار کر لے، وہ دنیا ہے۔
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کے بغیر اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوتی ۔ جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت نہیں وہ اللہ سے محبت نہیں کر سکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کی تو اُنھیں اللہ کی محبت نصیب ہوئی۔
* جب تک نفس کا تزکیہ نہیں ہوتا دنیا کی محبت کا خطرہ رہتا ہے۔
* نفس چار قسم کا ہوتا ہے: امارہ، لوامہ ، ملہمہ اور مطمئنہ
* نفس مطمئنہ بھی دو قسم کا ہوتا ہے ۱۔نفسِ مطمئنہ راضیہ ۲۔نفسِ مطمئنہ مرضیہ
* ولی کا مطلب اللہ کا دوست ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)ان میں سے کسی کو اپنا ولی (دوست)نہ بنائیں جب تک وہ اللہ کی راہ میں اپنا گھر بار نہ چھوڑ دیں۔(النساء۔۸۹) 
* بد ترین شخص وہ ہے جو دین کو دنیا کمانے کے لیے استعمال کر تا ہے۔ 
* نبی وہ دعا کبھی نہیں کرتا جو نا ممکن اور ممنوع ہو۔ جیسے حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ سے اُس کے دیدار کی طلب کی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے۔ دیدار کواللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے اپنی جگہ پر قائم رہنے سے مشروط کیا، مشروط کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے۔ 
* مرشد کے پاس جانے کا سب سے بڑا مقصد نفس کا تزکیہ ہے۔
* اللہ کا بندہ کسی میں نقص نہیں نکالتا اور نہ کسی کو برا سمجھتا ہے وہ صرف اپنے اندر دیکھتا ہے۔
* اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان کا اسمِ اللہ ذات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
* زیادہ کھانے سے سستی پیدا ہوتی ہے۔
* خوش بخت ہے وہ عورت جس کے ہاں پہلے بیٹی پیدا ہو۔
* خشیت معرفت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔
* تقویٰ اللہ کے قرب اور متقی اللہ کی حضوری والے کو کہتے ہیں۔ متقیوں کی طرح حلیہ بنانے والا متقی نہیں اداکار ہے۔
* معرفت اُس وقت مکمل ہوتی ہے جب عارف خوف میں پختہ ہو جاتاہے۔
* مادری زبان ہی دل پر اثر کرتی ہے۔
* دعا مانگتے وقت الفاظ سے زیادہ باطنی کیفیت پر توجہ دو۔ تم جس رب کو پکار رہے ہووہ بے زبانوں کی بھی سنتا ہے۔
* مَیں کو مٹا کر مَن نظر آتا ہے۔مَن کو جھکا کر ربّ نظر آتا ہے۔
* کبھی کبھی اللہ تعالیٰ ہمارے یقین اور ارادوں کو توڑ کر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہو گا وہی جو میں چاہوں گا۔
* فقر میں سب سے مشکل مقام فنا فی الشیخ ہے۔ مرشد کی حیات میں طالب عشق کی بدولت باطن میں فنا فی الشیخ کے مقام پر فائز ہوتا ہے اور مرشد کے وصال کے بعد اس کی صورت، سیرت، اقوال، افعال، عادات و خصائل مرشد کی مثل ہو جاتے ہیں اور وہ سر سے قدم تک مرشد کے وجود میں ڈھل جاتا ہے۔
* محبوبِ حقیقی کوئی تلاش نہیں کرتا جب تک وہ خود اسے اپنی تلاش نہ دے۔ اگر تمہیں اُس کی تلاش کی طلب عطا ہوئی ہے تو جان لو کہ اُسے بھی تمہاری تلاش ہے۔
* حقیقی انسان وہ ہے جو اپنے جسم کے مردہ ہونے سے زیادہ اپنے دِل کے مردہ ہونے سے ڈرتاہو۔
* کچھ لوگ اللہ کے در کے لیے ہی پیدا کیے جاتے ہیں، اللہ اُن کو چُن لیتا ہے۔ کبھی رُلا کر، کبھی آزما کر، کبھی تکلیف دے کر، وہ اپنے خاص بندوں کو دوسروں سے الگ کر دیتا ہے۔ کچھ اس مقام تک چل کر خود آتے ہیں کچھ کو کھینچ کر لایا جاتا ہے۔بندے کی کیا مجال کہ اللہ کے حکم سے سرتابی کرے، اُسے دکھ کی بھٹی سے گزار کر، کندن بنا کر، اللہ اُس کے دِل کا مکین بن جاتا ہے اور جس کو رب مل جائے اُسے سب کچھ مل گیا۔
* صبر کرنا سیکھ لیں، اللہ سب جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے آپ کب کب کن وقتوں سے گزرے ہیں، یقین کرے وقت بدل جائے گا۔کیونکہ تبدیلی کائنات کا اصول ہے۔
* اُن لوگوں سے مت ڈرو جو اپنا بدلہ لینا جانتے ہوں، ہمیشہ اُن لوگوں سے ڈرو جو اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینے والے ہوں۔
* راہِ حق اِس وجہ سے نہ چھوڑیں کہ اس کے راہی کم ہیں، صراطِ مستقیم کا سفر تنہا ضرور کر دیتا ہے۔ مگر اس تنہائی میں عجیب سا لطف بھی ہوتا ہے۔
* زندگی میں سب لوگ دوست یا رشتہ داربن کر نہیں آتے۔ کچھ لوگ ’’سبق‘‘ بن کر بھی آتے ہیں۔
* کبھی کبھاراچھے اور نیک لوگوں سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ برے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی انسان ہیں۔
* آپ جتنا ڈریں گے لوگ آپ کو مزید ڈرائیں گے۔ جب ڈرنا چھوڑ دیں گے تو لوگ آپ سے ڈرنے لگیں گے۔
* غلط بات پر خاموش رہنا چھوڑ دیں۔ آپ سے کوئی غلط بات کرنے کی ہمت نہیں کر سکے گا۔
* اگر نیتوں (باطن)کا اثر چہروں پر نظر آنے لگتا تو معاشرے کا ہر فرد نقاب کرنے پر مجبور ہو جاتا۔
* خدا کی راہ میں کوشش کرو اور کبھی پیچھے نہ ہٹو۔کیونکہ خدا نے تم سے کوشش مانگی ہے نتیجہ نہیں۔
* جو لوگ انسانوں کے اندر غلط اور گمراہ کن سوچ پیدا کرتے ہیں وہ انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔
* انسان کے پاس اصل طاقت سوچ ہے۔
* جہاں مذہب کاروبار بن جائے تو پھر تشدد اور نفرت کے سوا وہاں کچھ نہیں رہتا۔
* راستے کے کتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ ورنہ منزل نہیں ملتی۔ کتے بھونکنے کے لیے ہوتے ہیں روکنے کے لیے نہیں۔
* مشکل وقت آپ سے محبت کرنے والوں ک بے نقاب کر دیتا ہے۔
* کسی نے ایک فقیر سے پوچھا:’’دنیا میں سب دکھی کیوں ہیں؟‘‘ فقیر نے ہنس کر جواب دیا، ’’خوشیاں سب کے پاس ہیں بس ایک کی خوشی دوسرے کا درد بن جاتی ہے۔‘‘
* لوگ آپ کے کام کو اور اللہ آپ کی نیت کو دیکھتا ہے۔
* کچھ لوگ ساری رات اپنے لیے جنت کی دعا مانگتے ہیں اور سورج نکلتے ہی دوسروں کی دنیا جہنم بنا دیتے ہیں۔
* عجیب سا رواج چل نکلا ہے جن کے پاس دولت اور اختیار نہیں وہ مذہب کے ذریعے طاقت حاصل کرتے ہیں۔
* علم کی منزل ذاتِ حق تعالیٰ ہے۔ جس نے یہ منزل حاصل کر لی وہ زندہ ہے ورنہ مردہ ہے۔
* کسی کی اصلیت سامنے آنے پر دکھی اور رنجیدہ مت ہو یہ اللہ کی تم پر مہربانی اور کرم ہے۔
* آج کے دور میں لوگ اتنی طاقت اور زور اپنے آپ کوصحیح اور درست کرنے میں نہیں لگاتے جتنا دوسروں کو غلط ثابت کرنے میں لگا دیتے ہیں۔
* ’’مرد‘‘لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل و صورت سے جانیں۔ بلکہ ’’مرد‘‘ ایک ’’شان‘‘ اور ’’صفت‘‘ ہے جو ہر عورت اور مردمیں پائی جاتی ہے۔ طلبِ حق تعالیٰ کا راستہ ’’مرد‘‘ ہی اختیار کرتے اور طے کرتے ہیں،اس لیے بہت سے مرد عورتیں ہیں اور بہت سی عورتیں مرد ہیں۔
* غلط لوگ ہی درست اور صحیح سبق دیتے ہیں۔
* ساری پریشانیاں اور تکلیفیں اس وقت ختم ہوتی ہیں جب یقین ہو جاتا ہے کہ ہر کام اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔
* غم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ انسان کو نرم کر دیتا ہے۔ اگر غم نہ ہوتے تو انسان پتھرہی رہتا۔
* ساتھ چھوڑنے والے ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، مقام کوئی بھی ہونبھانے والے نبھاتے ہیں حالات جیسے بھی ہوں۔
* کام اور محنت کیے بغیر دعا پر بھروسہ حماقت ہے اور کام اور محنت پر بھروسہ کر کے دعا نہ کرنا تکبر ہے۔
* ان لوگوں سے محتاط رہو جن کی باتوں میں مٹھاس اور دل میں زہر ہوتاہے۔
* لفظوں اور بے وفائیوں کے زخم بھولنے کا فن یا تو پاگل کو آتا ہے یا کامل کو۔
* ریا کار اور منافق ہے وہ شخص جو عبادات سے لوگوں میں عزت کا طلب گار ہے۔