تقدیر
تقدیر
تقدیر میں سے انسان کے ہاتھ میں سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اللہ تک پہنچنے کی تگ و دو کرے اور اس کو پالے۔ رزق، اولاد، صحت، عمر سب لکھے جاچکے ان میں تبدیلی ممکن نہیں۔ نہ ہی کوشش اور جدوجہد سے ان کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ صرف اللہ کا قرب ایسی نعمت ہے جس کے لیے جتنی کوشش کی جائے اتنا بڑھتا ہے۔ اسی کے متعلق فرمایا گیا ہے ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرے۔‘‘
اولاد کی تربیت بھی انسان کے نہیں اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انسان بہترین تربیت کرے پھر بھی شیطان اولاد کو بھٹکا سکتا ہے ۔ہاں اگر انسان اپنا ہر کام اللہ کے حوالے کر کے اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے تو اللہ اس کی تمام ذمہ داریوں کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور انسان سے بہتر طور پر انہیں سنبھالتا ہے۔ لہٰذا رزق، محبت، اولاد کے مسئلوں کو اللہ کے سپرد کر کے خود مکمل طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا ہی تقدیر کو سنوار لینا ہے۔
شیطان کو نہ رزق بڑھانے کی قوت حاصل ہے نہ کم کرنے کی۔ صرف اس کی فکر میں الجھا کر اللہ سے دور کر دینے کی قوت حاصل ہے۔ جو اس کے دام میں الجھ کر رزق کی فکر میں اللہ کو بھلا دے گا‘ اس کا رزق نہ کم ہوگا نہ زیادہ البتہ وہ اللہ سے دور ہو جائے گا۔
تقدیر پر اعتراض شیطان کا کام ہے۔
تقدیر بدل دینے سے مراد بدبخت آدمی کو نیک بخت اور طالبِ دنیا کو طالبِ مولیٰ بنا دینا ہے جو صرف نگاہِ مرشد سے ممکن ہے۔
جب والدین اپنی امیدیں اللہ کی بجائے اپنی اولاد سے باندھ لیتے ہیں تو شرک کرتے ہیں۔ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ شراکت کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔