ترک وتوکل
ترک و توکل
جب اللہ کے سوا ہر شے کو ترک کر دیا جائے تب ہی توکل حاصل ہوتا ہے۔
ﷲ پر بھروسا ’توکلّ‘ کہلاتا ہے۔ اﷲ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام بلکہ اپنا آپ بھی ﷲ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔ توکلّ کو ’فقر‘ کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ مرشد کا پہلا سبق بھی یہی ہوتا ہے اور ایک طالبِ مولیٰ کی نشانی بھی یہی ہے کہ وہ متوکلّ ہوتا ہے۔
رزق کسی جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ رزق ہر جگہ عام ہے، جو جہاں ہو اُسے وہیں پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ ایک مقام سے ہجرت کرکے دوسری جگہ چلے جاتے ہیں اور صبر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے توکلّ کے باعث انہیں وہیں روزی پہنچانے کے اسباب پیدا فرمادیتا ہے جس طرح پرندوں اور جانوروں کو اللہ تعالیٰ ہر جگہ روزی مہیا کرتا ہے۔
جب بندے کی نظر میں سونا چاندی مٹی سب برابر ہو جائے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔
رزق مقرر کیا جاچکا ہے لیکن انسان کو اس بات کا یقین ہی نہیں۔
جو پیسہ قسمت میں نہیں اسے جانا ہی ہے۔ بہتر ہے کہ اللہ کی راہ میں لگا دیا جائے۔
عزت اور ذلت دونوں اللہ کی طرف سے ہیں تو اللہ کے بندے کے لیے دونوں ہی انعام ہوئے۔ ہو سکتا ہے دنیا کی عزت میں آخرت کی ذلت ہو اور دنیا کی ذلت میں آخرت کی عزت ہو۔ اس لیے عزت اور ذلت کے معاملے کو مکمل طور پر اللہ کے حوالے کر دینا چاہیے۔
حیوانی جسم کا رزق اللہ تعالیٰ نے ازل سے ہی مقرر فرما دیا ہے اور عام حالات میں اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی، چاہے اس کے لیے جتنی بھی کوشش اور جتن کر لیے جائیں۔جتنے بھی مکر و فریب اور حیلے کر لیے جائیں یہ رزق نہیں بڑھتا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے ریا خرچ کرنے سے یہ روزی دس گنا سے ستر گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔
جو شخص روزی کے بکھیڑوںاور تفکرات سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طلب اور جستجو میں یہ سوچ کر لگ جاتا ہے کہ روزی تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے وہ جیسے اور جس طرح چاہے گا پہنچاتا رہے گا مجھے اس کے لیے سرگردانی کی ضرورت نہیں ہے تو وہ شخص متوکل ہے ۔
جس شخص کا ایمان کمزور ہوتا ہے اور اللہ پر بھروسہ اور توکل نہیں کرتا اس کی نظر اللہ کی بجائے رزق کے اچھے برُے اسباب پر لگی رہتی ہے۔
توکل کرنے سے رزق میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ برکت پیدا ہوتی ہے اور برکت اضافے سے بہتر ہے۔
انسان جب ہر سہارے سے ٹوٹ کر اپنا آپ اللہ کے حوالے کر دیتا ہے تو اللہ اسے کچھ عرصہ آزماتا ہے کہ واقعی اس نے اللہ کے سوا ہر سہارے اور سبب سے لاتعلقی اختیار کرلی ہے یا ابھی ان سے وابستگی کی رمق باقی ہے اور اگر بندے کی استقامت ثابت ہو جائے تو پھر اللہ اس کا ہر معاملہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور اسے نہ کبھی نااُمید کرتا ہے نہ رسوا۔
اللہ پاک کا طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی جماعت کو کم وسائل اور اس کے لوگوں کو کم تعداد میں رکھتا ہے اور زیادہ اثر و رسوخ اور طاقت بھی نہیں دیتا کیونکہ یہ سب شیطان کے ہتھیار ہیں۔ اللہ پاک کسی چیز کا محتاج نہیں، وہ چاہتا ہے کہ بس اسی کی ذات پر توکل کیا جائے۔ پھر وہ بغیر اثر و رسوخ، مال و دولت اور کم وسائل و تعداد کے باوجود اپنی جماعت کو کامیابی عطا کر کے ثابت کرتا ہے کہ اس پر توکل سب سے بڑی دولت ہے۔
جو دونوں جہانوں کو چھوڑ کر اللہ کی طرف آتا ہے اللہ اسی کو دونوں جہان عطا کر دیتا ہے۔ فقر میں طالب جب تک لایرید (دنیا و عقبیٰ کی ہر طلب سے آزاد) نہ ہو اس وقت تک اسے کچھ نہیں ملتا۔
طالبِ مولیٰ کا ہر لمحہ، ہرکام اور ہر منزل پر اللہ تعالیٰ پر ہی توکلّ ہونا چاہیے پس بہتر ہے کہ طالب ِ مولیٰ اپنا ہر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور خود کو درمیان سے ہٹا دے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ’’میں اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہوں ، بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خبر گیری کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ المومن۔44)