سالِ نو اور تجدیدِ عہد الست بربکم قالو بلٰی |Tajdeed e Ahad

Click to rate this post!
[Total: 0 Average: 0]

سالِ نو اور تجدیدِ عہد الست بربکم قالو بلٰی |Tajdeed e Ahad

سالِ نو اور تجدیدِ عہد الست بربکم قالو بلٰی 

تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری ۔ لاہور

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاـ:
’’جو اپنے وعدے اور قول و اقرار کا خیال نہیں رکھتا اس میں دین نہیں ہے۔‘‘
اللہ ربّ العزت بھی عہد کی پاسداری کو بے حد پسند فرماتا ہے۔ عہد پورا کرنا اللہ کی صفت بھی ہے اور اس کے سچے بندوں کی نشانی بھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری الہامی کتاب قرآنِ مجید میں متعدد مقامات میں ایفائے عہدکے متعلق فرمایا ہے:
لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ۔(الزمر۔20)
ترجمہ:’’اللہ وعدے کے خلاف نہیں کرتا ۔‘‘

وَ لَنْ یُّخْلِفُ اللّٰہُ  وَعْدَہٗ۔ (الحج۔47)
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔‘‘
قرآن و حدیث ِ مبارکہ کے بیان کی روشنی میں یہ بات مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مومن کے لیے عہد کا پورا کرنا نہ صرف اہم بلکہ لازم ہے اور ایمان کی سلامتی کا ضامن بھی ہے۔
جب دنیاوی معاملات میں عہد کی پاسداری پر اتنا زور دیا گیا ہے تو پھر اُس عہد کا کیا عالم ہو گا جو ہم نے بحیثیت ارواح عالم ِ لاھوت میں ربّ ذوالجلال کے رُوبرو کیا تھا جس کا ذکر قرآنِ پاک کی سورۃ اعراف میں بھی موجود ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ قرآنِ پاک میں موجودسورۃ اعراف کے واقعہ کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:
٭ جب اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ’’ کُن فیکون‘‘ کا زار بیان کرے تو فرمایاـ:
 کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَن اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ۔
 
ترجمہ: میں ایک مخفی و پوشیدہ خزانہ تھا مجھے شوق ہوا کہ میری پہچان ہو پس میں نے اپنی پہچان کے لیے مخلوق کو پیدا کیا۔

اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے پہلے بائیں طرف قہرِ جلالیت کی نظر سے دیکھا جس سے نارِ شیطانی پیدا ہو گئی اس کی بعد دائیں طرف لطف و کرم، جمعیت و رحمت اور شفقت و التفات کی نظر سے دیکھا تو آفتاب سے روشن تر نورِ محمدی پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ’’ کُن‘‘ فرمایا اور تمام مخلوقات کی ارواح پیدا ہو گئیں اور اپنے مراتب کے لحاظ سے جماعتیں اور صفیں بنا کر اپنی اپنی جگہ پر ادب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے روبرو اس کے حکم کے انتظار میں کھڑی ہو گئیں۔

اس موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ۔ (سورہ اعراف۔172)
کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ 

اس سوال پر تمام ارواح نے جواباً کہا:
قَالُوْا بَلیٰ۔ (اعراف۔172)
ہاں! بے شک تو ہی ہمارا ربّ ہے۔
اس اقرارِ بے ساختہ پر بعض ارواح تو بے حد پریشان ہوئیں (کہ ہم نے ہاں کیوں کہہ دیا) یہ کافروں، مشرکوں، منافقوں اور کاذبوں کی ارواح تھیں۔ اور بعض ارواح آوازِ اَلَسْتُ  پر بَلیٰ کا اقرار کر کے بے حد خوش اور فرحاں تھیں پھر اللہ تعالیٰ نے (اس روزِ میثاق) تمام ارواح سے کہا ’’اے روحو! آج مانگ لو مجھ سے جو تمہارے جی میں آئے، تم جو مانگو گے میں عطا کرونگا۔‘‘ اس پر تمام ارواح نے کہا! ’’اے ہمارے ربّ! ہم تجھ سے تجھ کو ہی مانگتے ہیں۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے بائیں ہاتھ پر دنیا کی ساری زینت اور خزانے پیش کیے تو سب سے پہلے شیطان مردود نفسِ  امارہ کے ساتھ اس دنیا میں داخل ہو گیا۔ شیطان نے اس زیب و زینت بھری دنیا اور اس کی پُرکشش رعنائیوں میں کھو کر چوبیس بانگیں دیں جنہیں سن کر 9 حصّہ ارواح شیطان کی پیروی میں دنیا میں داخل ہو گئیں اور اُس کی راہ پر لگ گئیں۔ جس نے شیطان سے رشتہ جوڑا اور اس کی پیروی اختیار کی اور پسندیدۂ دنیا ہوا وہ دنیا میں غرق ہو گیا۔ یہی 9 حصّہ ارواح شیطان کی بانگوں کے سحر میں آیا اس 9 حصّہ ارواح کے سوا ایک حصّہ ارواح اللہ تعالیٰ کے روبرو مؤدب کھڑی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں لطف وکرم سے فرمایا: ’’اے (ثابت قدم) ارواح! جو چاہو مجھ سے مانگ لو میں تم کو عطا کروں گا۔‘‘
اِن ارواح نے پھر جواب دیا ’’اے ہمارے ربّ! ہم تجھ سے تجھ ہی کو مانگتے ہیں۔‘‘
اس پر اللہ تعالیٰ نے دائیں طرف تمام بہشت، لذتِ بہشت و زیب و زیبائشِ بہشت (جنت، حور و قصور، میوہ جات اور جنت کی تمام نعمتیں) کو پیش کیا تو اس ایک حصّہ ارواح میں سے نو حصّہ ارواح بہشت میں داخل ہو گئیں۔ یہ متقی وپرہیزگار لوگوں یعنی اہلِ عقبیٰ کی ارواح تھیں وہاں انہوں نے بلند اور سریلی آواز سے زہد و تقویٰ کا نعرہ لگایا اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر استحکام حاصل کیا چنانچہ یہ عالم، فاضل، متقی، پرہیزگار، صاحبانِ زہد و ریاضت اور اہل ِتقویٰ کی ارواح تھیں۔ باقی ایک حصہ ارواح اللہ تعالیٰ کے روبرو ایستادہ رہیں۔ ان ارواحِ صادقہ و کاملہ نے نہ دنیا کو دیکھا اور نہ جنت کی نعمتوں کی طرف نظر اٹھائی۔ نہ ان کے کانوں نے شیطان کی بانگوں کوسنا اور نہ اُن کے کانوں نے آوازِ بہشت سنی کہ یہ فنا فی نور اللہ بقا باللہ ہو کر حضوری ٔ حق میں غرق تھیں۔ یہ مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری والے اہلِ حضور عارف فقرا کی ارواح تھیں۔ انہیں کے حق میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
     اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ۔ اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی اَھْلِ الْعُقْبٰی وَ الْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی اَھْلِ الدُّنْیَا وَ الدُّنْیَا وَالْعُقْبٰی حَرَامٌ علٰی طَالِبُ الْمَوْلٰی۔ مَنْ لَّہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ۔
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔ دنیا اہلِ عقبیٰ پر حرام ہے اور عقبیٰ اہلِ دنیا پر حرام ہے اور دنیا و عقبیٰ طالبِ مولیٰ پر حرام ہیں۔ جسے مولیٰ مل گیا وہ مالکِ کُل ہو گیا۔
عالمِ ارواح (عالمِ لاھوت) میں بھی ان لوگوں کی ارواح نے مولیٰ سے نظر نہیں ہٹائی تھی اور دنیا (عالمِ ناسوت) میں بھی یہ مولیٰ ہی کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ (شمس العارفین)
اسی عالم ِ لاھوت میں کئے گئے وعدے کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’قیامت کے دِن وعدے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (بنی اسرائیل ۔ 34 ) 

مگر افسوس ہم پر کہ ہم اپنے ظاہری عنصری وجود کو ہی اپنی حقیقت سمجھ بیٹھے اور اس کی زیب و زینت اور آسائش کے لیے رات دن تگ و دو کرنے میں مگن ہو گئے اور اپنے حقیقی وجود (روح) کو سراسر فراموش ہی کر دیا وہ روح جس نے اللہ ربّ العزت سے وعدہ کیا تھا صرف اسی کی عبادت و عشق کا،اس کے دیدار کا، اس کی پہچان کا اور اس کے قرب کا۔

بقول شاعر

بے خبر غافل نہ ہو اپنا ٹھکانہ یاد کر
نال ماہی دے جو ہے گزرا وہ زمانہ یاد کر

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
٭ تم میرے (ساتھ کیا ہوا) عہد پورا کرو میں تمہارے (ساتھ کیا ہوا) عہد پورا کروں گا۔ (البقرہ۔40)
یعنی اللہ نے ہمیں اپنا قرب و دیدار عطا کرنے کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ صرف اسی صورت میں پورا ہو گا جب ہم اپنے عہد ِ الست کو پورا کرنے کے لیے کوشش کریں گے، دنیاو عقبیٰ سے توجہ ہٹا کر صرف اور صرف اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور ہر عمل اس کی رضا کے لیے کریں گے۔
انبیا کرام، مرسلین اور فقرائے کاملین عالم ِ ناسوت کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں ا س لیے وہ کبھی اپنا رُخ اس کی جانب نہیں کرتے اور مخلوقِ خدا کو بھی اس کی حقیقت کھول کر بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے دور میں مخلوقِ خدا کو ان کے حقیقی وطن کی یاد دہانی کی ہی تعلیمات دیتے ہیںاور ترکِ دنیا کو پسند فرماتے ہیں۔ یہاں ترکِ دنیا سے مراد یہ نہیں کہ دنیا کو چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکل جاؤ بلکہ دل سے ماسویٰ اللہ ہر چیز کو نکال دینا ترکِ دنیا ہے۔ کیونکہ ہر وہ چیز جو اللہ کی یاد سے ہٹا کی اپنی طرف مشغول یا متوجہ کر لے دنیا کہلاتی ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ۔(البقرہ۔ (22
ترجمہ: پس اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
٭ دنیا سے بچ کر رہو، یہ ہاروت و ماروت سے بڑھ کر جادوگر ہے۔ (مکاشفۃ القلوب)
حضرت امام حسنؓ سے روایت ہے کہ ایک روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرامؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’کیا تم میں سے کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کا اندھا پن (ظاہری حجاب) جاتا رہے اور وہ بینا (حقیقت ِ حق جان) بن جائے؟ یاد رکھو جس نے دنیا سے رغبت رکھی اور طویل امید باندھی اللہ تعالیٰ اس کے مطابق اس کا دل اندھا کر دے گا اور جو شخص دنیا سے بے رغبت رہا اور اُمید مختصر رکھی اللہ تعالیٰ اسے بغیر سکھائے علم (علمِ لدّنی) عطا کرے گااور بغیر بتائے سیدھی راہ عطا کرے گا۔ یاد رکھوتمہارے بعد کچھ لوگ آئیں گے ان کی سلطنت صرف قتل اور ظلم کے ساتھ ہی رہے گی۔ ان کا غنا صرف فخر و بخل کے ساتھ ہو گا اور ان کی محبت صرف خواہشات کی پیروی ہو گی۔ یاد رکھو جو شخص یہ زمانہ پائے وہ فقر پر صبر کرے، غنا پر قدرت رکھے، برے لوگوں کی نفرت پر صبر کرے چاہے محبت پر قادر ہو، ناتوانی پر صبر کرے چاہے غلبہ کی قدرت رکھتا ہو اور اس کا مقصود صرف رضائے الٰہی ہوتو اللہ تعالیٰ اسے پچاس فیصد یقین کا اجر عطا کرے گا۔ (مکاشفۃ القلوب)

بیشک نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس حدیث میں بہترین نصیحت اور وصیت موجود ہے جس پر عمل کر کے وعدۂ الست کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
دورِ حاضر کے فقیرِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ دنیا اللہ تعالیٰ نے بندے کی آزمائش کے لیے بنائی ہے۔ اس لیے آزمائش میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دنیا میں رہنا ضروری ہے لیکن بندہ دنیا میں یوں رہے کہ دنیا اس میں نہ رہے تو ہی وہ کامیاب ہو گا۔
٭ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی قلب پسندیدہ اور کامیاب ہے جس میں سے دنیا کی محبت نکل کر اللہ کی محبت بس گئی ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس عہد کی پاسداری اور حقیقی کامیابی کے متعلق غور و فکر کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب قرآنِ مجید میں انسان کو بار بار غور و فکر کی تلقین فرماتا ہے:

کَذٰ لِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ۔ (البقرہ: 266)
ترجمہ: ’’اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو۔‘‘

تو کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ آخر جب ہم مر جاتے ہیں تو  اِنا للہ وَاِنا اِلیہ رجعون  ( ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) کیوں اور کس کے لیے کہا جاتا ہے؟ اگر ہم اس دنیا کے لیے بنے ہیں تو ہمیں موت کیوں آتی ہے؟ اگر ہم نے دوسرے جہان جانا ہے تو ہمیں اُس جہان میں کامیابی اور سکون سے رہنے کے لیے کیا کیا درکار ہے؟ ہم نے اس کامیابی وسکون کے لیے کچھ کوشش و عمل بھی کیا یا ہماری تمام تر جدوجہد اسی دنیا کی خوشیوں کے حصول تک محدود رہی؟ ہمیں اپنے ربّ العزت جو جاہ و جلال کا مالک ہے، سے کیا گیا عہدِ الست یاد بھی ہے یا نہیں؟ حالانکہ قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشادِ ربانی ہے:

ترجمہ: ’’وہ جو اللہ سے کئے گئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اُٹھانے والے ہیں۔‘‘ ( البقرہ: 27)
ہم ان سوالوں کے جواب اس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک اس کے لیے نہایت اخلاص سے غوروفکر اور کوشش نہیں کریں گے اور ان رازوں کے ماہر استاد (انسانِ کامل) سے استفادہ حاصل نہیں کریں گے۔ قول مشہور ہے ’’خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مددآپ کرتے ہیں۔‘‘
اگر کوئی یہ کہے کہ قرآنِ پاک کے ہوتے ہوئے انسانِ کامل کی صحبت ضروری نہیں تو اُن کی رہنمائی کے لیے حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا نہایت ہی خوبصورت واقعہ قلمبند کیا گیا ہے:
٭ حضرت امام احمد بن حنبلؒ پہلے تصوف اور صوفیا کرام رحمتہ اللہ علیہم کی مخالفت میں مشہور تھے لیکن بعد میں حضرت بشرحافی رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت میں رہ کر حلاوتِ ایمان نصیب ہوئی تو جب کوئی شخص احکامِ شریعت ان سے دریافت کرنے آتا تو خود بتا دیتے تھے لیکن جب کوئی شخص راہِ حقیقت دریافت کرنے آتا تو حضرت بشرحافی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھیج دیتے تھے۔ یہ دیکھ کر ان کے شاگردوں کو غیرت آئی اور عرض کیا کہ آپؒ اتنے بڑے عالم ہو کر لوگوں کو ایک صوفی کے حوالے کر دیتے ہیں۔ آپؒ نے فرمایا ’’مجھے اللہ کے احکامات کا علم ہے اور اُن کو اللہ کا علم ہے اس لیے طالبانِ حق کو ان کے پاس بھیجتا ہوں۔‘‘ (شمس الفقرا)
بے شک اللہ ربّ العزت کے رحمن و رحیم ہونے کی کوئی حد نہیں وہ ہمیشہ اپنے بندے کو اپنی رحمت کی وجہ سے نوازتا ہے اس کے عمل کی وجہ سے نہیں۔ اسی رحمن و رحیم پروردِگار نے اپنی مخلوق انسان کو اپنے عہد ِ الست کی یاددہانی کے لیے ہردور میں انبیا اور رسول معبوث فرمائے اور پھر ختم ِنبوت کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پھر اولیا کاملین کا سلسلہ جاری فرمایا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اللہ نے کوئی بھی دور اپنے خاص بندوں سے خالی رکھا ہو۔ اللہ اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت کرتا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ اس دور میں بھی ہمیں ہمارے وعدۂ الَست کی یاددہانی کروانے کے لیے اس نے کسی کو منتخب نہ کیا ہو؟ ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور جو اپنے ازلی وعدہ کو وفا کرنے کی تیاری کرنا چاہتا ہے تو اللہ اس کی رہنمائی بھی اپنے خاص چُنے ہوئے بندوں کی جانب کر دیتا ہے۔
اللہ کا ہم پر احسانِ عظیم ہے کہ اُس نے اِس مادیت پرست اور نفسا نفسی کے دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صورت میں ہمیں رہبر کامل عطا فرمایا جو مخلوقِ خدا کی رہنمائی عہد ِ اَلست کو پوراکرنے کی جانب کروانے والے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری‘ جو کہ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا سلسلہ ہے اور جسے برصغیر میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان بَاھُورحمتہ اللہ علیہ کے وسیلہ سے عروج ملا‘ کے اکیتسویں شیخ ِ کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس قدمِ محمدیؐ پر فائز انسانِ کامل ہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا اندازِ تربیت طریق ِ نبویؐ کے عین مطابق ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو ورد و وظائف اور چلّہ کشی جیسی سخت مشقتوں میں نہیں ڈالتے بلکہ تصوراسمِ اللہ  ذات، ذکر ِ یاھُو اور اپنی نگاہِ کامل کی بدولت نفس پرستی میں مبتلا زنگ آلود قلوب کا تزکیۂ نفس فرماتے ہیں۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل کی تاثیر ہے کہ جو بھی آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت ِ اقدس میں حاضر ہوتا ہے اس کے دل میں اللہ کی محبت شدت اختیار کر جاتی ہے اور دنیا کی حقیقت سمجھ آجاتی ہے پھر اس کا ہر عمل وعدۂ الست کو پورا کرنے کی نیت پر مبنی ہو جاتا ہے۔ بس اس کے لیے طالب کا با ادب اور مخلص ہونا ضروری ہے۔مقولہ ہے:
با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب
آئیے ہم سب اس بات کا عہد کریں کہ نہ صرف اس دنیا کی رنگینیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے بلکہ اپنے نفسِ امارہ کو نفسِ مطمئنہ بنا کر قربِ الٰہی کی انتہائی منازل حاصل کرنے کے لیے مرشد کامل اکمل کے دست ِ اقدس پر بیعت ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ عالمِ ارواح میں کیے گئے وعدے کو بھی وفا کریں گے۔ انشا اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عہد ِ الست کی یاد دہانی اور پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب:
شمس الفقرا تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
ابیاتِ باھُوؒ کامل ایضاً
مکاشفۃ القلوب از حجتہ الاسلام ابو حامد امام غزالیؒ

Spread the love

37 تبصرے “سالِ نو اور تجدیدِ عہد الست بربکم قالو بلٰی |Tajdeed e Ahad

  1. ماشا اللہ
    اللہ پاک تحریک دعوت فقر کو ہمیشہ کامیابی عطا فرمائے اور برکت عطا فرمائے۔

تبصرے بند ہیں