Faiz-ism-e-Allah-Zaat

سلطان العاشقین اورفیض اسمِ اللہ ذات

Rate this post

سلطان العاشقین اورفیض اسمِ اللہ ذات

فیض اسمِ اللہ ذات

ااس مادہ پرستی کے دور میں طالبانِ مولیٰ کی نایابی کے باعث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اپنے مرشد پاک کی اس ترتیب کو جاری کیا ہے کہ پہلے عام انسان کو طالبِ مولیٰ بنایا جائے پھر قرب و دیدارِ الٰہی عطا کیا جائے۔ بظاہر تو یہ آسان سی بات لگتی ہے لیکن اس کے لیے کس قدر جدوجہد درکار ہے اس کا اندازہ مرشد کامل ہی کو ہو سکتا ہے۔ عوام الناس پر اسمِ اللہ ذات کا فیض عام کر کے ان پر تو آپ مدظلہ الاقدس نے احسان کیا لیکن ہر طرح کے طالب کو صراطِ مستقیم پر چلانا اور سیدھی راہ پر رکھنا اتنا آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانے میں صرف اصل اور ازلی طالبانِ مولیٰ کو ہی اسمِ اللہ ذات عطا کیا جاتا تھا۔ یہ صرف آپ مدظلہ الاقدس کا ہی فیض اور کمال ہے کہ ہر طرح کا نفس اور فطرت رکھنے والا انسان آپ کی بارگاہ میں آتے ہی باادب طالبِ مولیٰ بن جاتا ہے اور پھر آپ اسے اپنی شفیق ذات کے زیرِ سایہ اسمِ اللہ ذات کی حقیقت تک پہنچاتے ہیں۔

آپ مدظلہ الاقدس نے اسمِ اللہ ذات کی حقیقت اپنی تصنیف ’حقیقت اسمِ اللہ ذات ‘ میں انتہائی تفصیل کے ساتھ بیان فرما دی ہے تاکہ طالبانِ مولیٰ اس کے کمالات اور فیوض و برکات سے واقف ہوں اور اس کے ذکر و تصور کے ذریعے قرب ولقائے الٰہی حاصل کر سکیں۔ آپ مدظلہ الاقدس فقر و تصوف کی تعلیمات پر مبنی اپنی شاہکار تصنیفِ لطیف شمس الفقرا میں فرماتے ہیں:
اسمِ اللہ  ’’اسمِ ذات‘‘ ہے اور ذاتِ سبحانی کے لیے خاص الخاص ہے۔ علمائے راسخین کا قول ہے کہ یہ اسم ِ مبارک نہ تو مصدر ہے اور نہ مشتق یعنی یہ لفظ نہ تو کسی سے بنا ہے نہ ہی اس سے کوئی لفظ بنتا ہے اور نہ اس اسمِ پاک کامجازاً اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے اسما مبارک کا کسی دوسری جگہ مجازاً اطلاق کیا جاتا ہے۔ گویا یہ اسمِ پاک کسی بھی قسم کے اشتراک اور اطلاق سے پاک، منزّہ ومبرّا ہے۔ اللہ پاک کی طرح اسمِ اللہ بھی احد، واحد اور  لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُلَدْ ہے۔

یہ اللہ کا ذاتی نام ہے جس کے وِرد سے بندے کا اپنے ربّ سے خصوصی تعلق قائم ہوتا ہے۔ یہ اسم پاک قرآنِ پاک میں چار ہزار مرتبہ آیا ہے۔ عارف باﷲ فقرا کے نزدیک یہی اسمِ اعظم ہے۔ یہ نام تمام جامع صفات کا مجموعہ ہے کہ بندہ جب اللہ کو اس نام سے پکارتا ہے تو اس میں تمام اسمائے صفات بھی آجاتے ہیں گویا وہ ایک نام لے کر اسے محض ایک نام سے نہیں معناً تمام اسمائے صفات کے ساتھ پکار لیتا ہے۔ یہی اس اسم کی خصوصیت ہے جو کسی اور اسم میں نہیں ہے۔ امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے اس نکتہ کی وضاحت بہت خوبصورت الفاظ میں کی ہے:
’’بے شک جب توُ نے اﷲ تعالیٰ کو صفتِ رحمت کے ساتھ پکارا یعنی رحمن یارحیم کہا تو اس صورت میں توُنے صفتِ رحمت کا ذکر کیا صفتِ قہر کا نہیں، یونہی صفتِ علم کے ساتھ ’یا علیم‘ کہہ کر پکارا تو صرف صفتِ علم کا ذکر کیا صفتِ قدرت کا نہیں لیکن جب تونے اللہ  کہا تو گو یا تمام صفات کے ساتھ اسے پکار لیا کیونکہ الٰہ ہوتا ہی وہ ہے جو تمام صفات سے متصف ہو۔‘‘ (تفسیر کبیر۔ 85-1)

آپ مدظلہ الاقدس مزید فرماتے ہیں:
جب انسان ﷲ تعالیٰ کو اس کے ذاتی نام یعنی اسمِ اللہ ذات سے یاد کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ اپنی ذات (جو اسکی تمام صفات واسماکی جامع ہے) سے اس کی طرف تجلیّ فرماتا ہے جس سے ذاکر ﷲ تعالیٰ کے ذاتی اَنوار کا اپنے اندر مشاہدہ کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ کے ذاتی جلوے اور دیدار سے مشرف ہوتا ہے اور ذاکر کا وجود ﷲ تعالیٰ کے ذاتی اَنوار (جو تمام صفات کے جامع ہیں) سے منور ہوجاتا ہے۔ 

اسمِ اللہ ذات اپنے مسمیّ ہی کی طرح یکتا، بے مثل اوراپنی حیرت انگیز معنویت وکمال کی وجہ سے ایک منفرد اسم ہے۔ اس اسم کی لفظی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کے حروف کو بتدریج علیحدہ کر دیا جائے تو پھر بھی اس کے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اورہر صورت میں اسمِ اللہ  ذات ہی رہتا ہے۔ اسم اللہ کا پہلا حرف ’’ا‘‘ ہٹا دیں تو  لِلّٰہ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں’’اللہ کے لئے‘‘ اور یہ بھی اسم ِ ذات ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ(سورۃ البقرہ۔284)
ترجمہ: اﷲ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ 

اگر اس اسم پاک کا پہلا ’’ل‘‘ ہٹا دیں تو    لَہٗ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’اس کے لئے‘‘ ا ور یہ بھی اسمِ ذات ہے ۔ جیسے ارشادِ ربانی ہے:
لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر  (سورۃ التغابن۔1)
ترجمہ: اسی کے لیے بادشاہت اور حمد وستائش ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اور اگر دوسرا ’’ل‘‘ بھی ہٹا دیں تو ھُورہ جاتا ہے جو اسمِ ضمیر ہے اور اس کے معنی ہیں ’’وہ‘‘۔ یہ بھی اسم ِ ذات ہے جیسے کہ قرآنِ مجید میں ہے:
ھُوَُ  الَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۔  (سورۃالحشر۔22)
ترجمہ: وہی ﷲ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر ھُو(ذاتِ حق تعالیٰ)۔

ذاتِ باری تعالیٰ کی طرح اس کا اسم بھی نور ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (سورۃ النور۔35 )
ترجمہ: اللہ (اسمِ اللہ  ذات ) آسمانوں اور زمین کا نوُر ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اسی نورسے کلُ مخلوقات نے ظہور پایا اور یہی نورتمام مخلوقات کا رزق بنا۔ (مجالستہ النبیؐ)

اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کو اسمِ اللہ ذات کی صورت میں ظاہر فرمایا جس سے نورِمحمدی کی تخلیق فرمائی پھر نورِ محمدی سے تمام مخلوقات کی ارواح کو پیدا کیا گیا اور انسانی ارواح کا رزق اسمِ اللہ ذات کا نور ہے۔ اللہ کے بندے جب اللہ کا دیدار، معرفت اور وصال چاہتے ہیں تو یہ دیدار، وصال اور معرفت صرف اسم  اللہ ذات کی صورت میں ممکن ہے کیونکہ اسمِ اللہ کی صورت میں ذات کے اظہار سے پہلے اللہ کی صورت اور ماہیت کو سمجھنا اور پہچاننا کسی انسان کے لیے سوائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ممکن نہیں کیونکہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اللہ کی اس صورت کا دیدار اور قرب حاصل کرنے والے ہیں۔ اللہ کی معرفت، دیدار اور وصال کے لیے راہِ فقر اختیار کر کے اسم اللہ ذات کا تصور اور ذکر ضروری ہے۔ جب ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے ارواح کو ان کا رزق مل جاتا ہے تو ان کو وہ قوت و بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھتی ہیں۔  (شمس الفقرا،حقیقت اسمِ اللہ ذات)

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسمِ   اللہ  ذات کی شان اور حقیقت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
 اسمِ اللہ ذات عین ذات ہے۔ (عین الفقر)

اسمِ اللہ راہبر است در ہر مقام
از اسمِ اللہ یافتند فقرش تمام

ترجمہ: اسمِ اللہ ذات طالبانِ مولیٰ کی ہر مقام پر راہنمائی کرتا ہے اور اسمِ اللہ ذات سے ہی وہ کامل فقر کے مراتب پر پہنچتے ہیں۔ (محک الفقر کلاں)

سن! چاروں الہامی کتابیں یعنی توریت ،زبور، انجیل اور اّم الکتاب یعنی قرآنِ پاک اسمِ اللہ ذات کی شرح ہیں۔ اسمِ اللہ کیا ہے؟ عین اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو بے چون و بے چگون اور بے مثل و بے شبہ ہے۔
قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدْ (سورۃ اخلاص۔1)
ترجمہ: (آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما دیجیے) کہ اللہ یکتا ہے ۔
جو بھی اسمِ اللہ کا ذکر کرتا اور اسے یاد رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتاہے۔ اسمِ اللہ ذات کو پڑھنے اور اس کا ذکر کرنے سے (ذاکر پر) علمِ لدنیّ  ( وہ الہامی و باطنی علم ہے جو اللہ بغیر کسی واسطے کے اپنے خاص بندے کے قلب پر القاکرتا ہے۔)  کھل جاتاہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا (سورۃ البقرہ۔31)
 ترجمہ: اور ہم نے آدم کوکلُ اسماکا علم عطا کیا۔ 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٌ لَفَسِقٌ (سورۃ الانعام۔121)
ترجمہ: جس چیز پر اسمِ اللہ نہیں پڑھا جاتا بے شک وہ چیز فاسق ہے۔

جان لے کہ حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  اسمِ اللہ  کی برکت سے عرش وکرسی اور لوح و قلم سے بالاتر  قَابَ قَوْسَیْنِ  کے مقام پر پہنچے جہاں اللہ اور ان کے درمیان کوئی حجاب نہ تھا۔ اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے کیونکہ اسمِ اللہ دونوں جہانوں کی چابی ہے۔ سات آسمانوں اور سات زمینوں کا بغیر کسی ستون کے قائم رہنا بھی اسمِ اللہ کی ہی برکت سے ممکن ہے۔ تمام پیغمبروں کو پیغمبری اسمِ اللہ کی بدولت ملی اور اسمِ اللہ کی ہی برکت سے انہیں کفار سے نجات اور ان پر فتح حاصل ہوئی کیونکہ انہوں نے کہا  اَللّٰہُ مُعِیْنُ (اللہ ہی ہمارا مدد گار ہے)۔ بندے اور مولیٰ کے درمیان وسیلہ اسمِ اللہ ہے۔تمام اولیا، غوث، قطب اور اہلِ اللہ کو ذکر، فکر، الہام مذکور، استغراقِ توحید، مراقبہ اور کشف و کرامات کے سب (مراتب) اسمِ اللہ کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں۔ ذکرِاسمِ اللہ سے اس قدر علمِ لدنیّ کھلتا ہے کہ کوئی دوسرا علم پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی۔

ہر کرا باسم اللہ شد قرار
ہر چہ باشد غیر اللہ  زان فرار

ترجمہ :جسے اسمِ  اللہ ذات کے ساتھ قرار نصیب ہو جاتا ہے وہ ہر غیر اللہ سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔ (عین الفقر)

بعض طالبوں کو تصور اسمِ اللہ ذات سے محبت و معرفت اور مشاہدئہ انوار مراقبے میں حاصل ہوتا ہے اور وہ انوارِ الٰہی میں غرق ہو کر عین بعین دیدار ِ الٰہی کرتے ہیں۔ ایسے مراقبے میں آنکھیں تو بند ہوتی ہیں لیکن قلب خونِ جگر نوشی کی حالت میں ہوتا ہے اور عین بعین ذات کو دیکھتا ہے۔ ایسے صحیح صاحبِ مراقبہ کو چاہیے کہ مراقبے سے ہرگز سر نہ اُٹھائے کیونکہ اس کا مراقبہ اسے محرمِ اسرارِ پروردگار بناتا ہے اور اسے یقین و اعتبار کے مراتب تک پہنچاتا ہے ۔ بعض کو تصور ا سمِ  اللہ ذات سے معرفت و محبت کا مشاہدہ اورباعیان معراج نصیب ہوجاتی ہے جس سے وہ لاھوت لامکان میں ساکن ہو کر سب کچھ عین دیکھتے ہیں۔  (نور الہدیٰ کلاں)

جب روزِ محشر لوگوں کی نیکی اور بدی کا حساب ہو گا تو جس کے دل پر اسمِ  اللہ نقش ہو گا یا جس نے ایک مرتبہ بھی سچے دل سے اسمِ  اللہ کا ذکر کیا ہو گا، اگراس کے گناہ آسمانوں اور زمینوں کے چودہ طبقات کے برابر بھی ہوئے تو اسمِ اللہ کی برکت سے ترازو کا نیکیوں والا پلڑا وزنی ہو جائے گا۔ یہ دیکھ کر فرشتے پکاریں گے کہ اے اللہ! اس شخص کی کونسی نیکی کی وجہ سے ترازو کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ بندہ میرا طالب ہے اور یہ ہمیشہ اسمِ  اللہ میں غرق رہتا تھا۔ اے فرشتو!تم اہلِ حجاب ہو کیونکہ تم عبادتِ حق اور اسمِ اللہ کی حقیقت سے ناواقف ہو۔ میںان کے ساتھ ہوں (جو ذکر ِ اسمِ  اللہ کرتے ہیں) اور وہ میرے ساتھ ہیں جبکہ تم (اسمِ اللہ سے) بیگانے ہو۔اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (عین الفقر)

اسمِ  اللہ کی شان یہ ہے کہ اگر کوئی تمام عمر روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ، تلاوتِ قرآنِ پاک اور دیگر عبادات میں مصروف رہے یا عالم و معلم بن کر اہلِ فضیلت میں سے ہو جائے مگر اسمِ  اللہ اور اسمِ  محمد سے بے خبر رہے اور ان اسما مبارک کا ذکر نہ کرے تو اس کی زندگی بھر کی عبادت ضائع اور برباد ہو گئی اور اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ (عین الفقر) 

فقہ کا ایک مسئلہ سیکھنا ایک سال کی عبادت کے ثواب سے بہتر ہے کیونکہ مسائلِ فقہ سیکھنا اسلام کی بنیاد ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو کر ذکر اللہ کے ساتھ لیا گیا ایک سانس ہزار مسائلِ فقہ سیکھنے کے ثواب سے افضل ہے۔ (عین الفقر) 

جسے بھی تقویٰ نصیب ہوا اسمِ اللہ ذات ہی سے ہوا۔ اسمِ  اللہ ذات سے چار اسم ظاہر ہوتے ہیں: اوّل اسمِ   اَللّٰہ جس کا ذکر بہت ہی افضل ہے۔ جب اسمِ  اللہ سے ’ا‘جدا کیا جائے تو یہ اسمِ لِلّٰہ  بن جاتا ہے اور اسمِ لِلّٰہ  کا ذکر فیضِ الٰہی ہے۔ جب اسمِ  لِلّٰہ کا پہلا ’ل‘ جدا کیا جائے تو یہ اسمِ  لَہٗ بن جاتا ہے اور اسمِ  لَہٗ کا ذکر عطائے الٰہی ہے۔ جب دوسرا ’ل‘ بھی جدا کر دیا جائے تو یہ ’’ھُو‘‘ بن جاتا ہے اور اسم ِ ھُوکا ذکر عنایتِ الٰہی ہے۔ چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہےلَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ترجمہ: نہیں کوئی معبود سوائے ھُو(ذات ِحق تعالیٰ) کے۔ (سورۃ البقرہ۔255 ) اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (محک الفقر کلاں)

اَللّٰہ ، لِلّٰہِ، لَہٗ  اور  ھُو  اسمِ اعظم یعنی اسمِ اللہ  ذات ہیں۔ (عین الفقر)

اس جدید دور میں عام مسلمانوں کے پاس طویل مجاہدوں اور ریاضت کے لیے وقت نہیں اور اللہ کے عاشق بھی جلد از جلد اللہ تک پہنچنا چاہتے ہیں لہٰذا سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اسمِ اللہ ذات کے فیض کی اس راہ کو طالبانِ مولیٰ کے لیے آسان ترین بنانے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں طالبوں اور مریدوں کو اسمِ اللہ ذات چار منازل میں ترتیب وار عطا کیا جاتا تھا یعنی   اَللّٰہ، لِلّٰہ ، لَہٗ ، ھُو ۔۔طالب درجہ بدرجہ ان منازل سے گزرتا اور ساتھ ساتھ قربِ الٰہی میں بھی ترقی کرتا۔ اس عمل میں کافی عرصہ بھی لگ جاتا تھا اور جو طالب پہلی منزل پار نہ کر پاتا وہ اگلی منزل پر بھی پہنچ نہ پاتا تھا۔ اس طرح بہت سے طالب اپنی طلب میں ناقص ہونے کی وجہ سے ابتدائی منازل پارنہ کر سکتے اور ’ھُو‘ تک کبھی پہنچ ہی نہ پاتے تھے۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے صرف چند خاص الخاص طالبانِ مولیٰ کو ذکر ’’ھُو‘‘ عطا فرمایا اور اپنی زندگی میں ہی اپنے محرمِ راز اور روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کوطالبانِ مولیٰ کو ذکرِ ھُو عطا کرنے کی اجازت دے دی۔ مسندِتلقین و ارشاد سنبھالتے ہی آپ مدظلہ الاقدس نے راہِ فقر میں یہ انقلاب پیدا کیا کہ ذکر اسمِ اللہ ذات کی چار منازل سے گزارنے کی بجائے آپ مدظلہ الاقدس اپنے ہر مرید کو بیعت کرتے ہی ذکر ِ’یَاھُو‘ عنایت کر کے اسے یک دم بارگاہِ الٰہی کی حاضری کے لائق بنا دیتے ہیں۔ بیشک یہ آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہِ ربوبیت میں انتہائی قرب اور اعلیٰ مقام کی نشانی اور دلیل ہے کیونکہ جو ذات جتنی قربِ الٰہی کے مقام پر ہوگی وہ اتنی ہی جلد اپنے طالبوں کو قربِ خداوندی دلانے کی استطاعت رکھتی ہوگی۔

 ’ھُو‘ سلطان الاذکار ہے۔ اس کی تجلیات سب سے تیز اثر رکھتی ہیں۔ ایک نو وارد طالب کے لیے انہیں سہنا قطعاً آسان نہیں ہے۔ یہ صرف اس کے کامل مرشد کا کمال ہے جو خود اس کو یہ تجلیات برداشت کرنے کے لائق بناتا ہے۔ ہر پل خود اس کے گرد حصار کی طرح رہ کرھُو کی ان تجلیات کو اس پر سہل اور لطیف بنا دیتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ابتدا ھُو انتہا ھوُ ہر کہ باھُومی رسد
عارفِ عرفان شود ہر کہ با ھوُ ’ھُو‘ شود

ترجمہ: ابتدا بھی ھُو ہے اور انتہا بھی ھُو ہے۔ جوکوئی ھُو تک پہنچ جاتا ہے وہ عارف ہوجاتا ہے اور ھُو میں فنا ہو کر ’ھُو‘ بن جاتا ہے۔ (عین الفقر)
جس کے وجود میں اسمِ ھُو  کی تاثیر  پیدا ہوتی ہے اُسے ھُوسے انس ہو جاتا ہے اور پھر وہ غیر ماسویٰ اللہ تمام لوگوں سے وحشت کھاتا ہے۔ (عین الفقر)
ذکرِ  ھُوکرتے کرتے جب ذاکر کے وجود پر اسمِ ھوُ غالب آکر اُسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے تو اس کے وجود میں  ھُو  کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ (محک الفقر کلاں)

 شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ  ذکر ِ ھُوکے بارے میں فرماتے ہیں:
ھُوکا ذکر عارفین کا انتہائی اور آخری ذکر ہے۔ (فتوحاتِ مکیہ جلد دوم، باب پنجم)

سیدّ عبد الکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
  ھُواسمِ اعظم ہے اور اسمِ اللہ سے اخصّ ہے۔ (انسانِ کامل)

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ھُوسلطان الاذکار ہے اور جو ھُو میں فنا ہوکرھُو ہو گیا وہی سلطان ہے۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ   ھُو کے بارے میں فرماتے ہیں:

ہر کہ پیمان با ھوُ الموجود است
گردنش از بند ہر معبود رست

 ترجمہ: جس نے حاضر و موجود ھُوکے ساتھ   پیمان باندھ لیا (یعنی ھُو میں فنا ہو کرھُو ہو گیا) وہ زندہ جاوید ہو گیا اور اس کی گردن ہر غلامی سے آزاد ہوگئی۔ (رموزِ بیخودی)

منم کہ طوافِ حرم کردہ ام بتے بے کنار
منم کہ پیش بتاں نعرہ ہائے ھوُ زدہ ام

ترجمہ: میں وہ ہوں جس نے (خواہشاتِ نفس و دنیاکا)  بُت دِل میں رکھ کر کعبہ کا طواف کیا اور وہ بھی میں ہی ہوں جس نے بتوں (ظاہری مذہبی راہنماؤں) کے سامنےھُوکا نعرہ لگایا ہے یعنی اندھوں کے سامنے ھُو کے راز کو کھولا ہے۔

ھُو‘ تک پہنچنا ہی درحقیقت اللہ تک پہنچنا ہے۔ ذکر ’ھُو‘ کی تجلیات میں نفس فنا ہو جائے تو انسان کی ذات میں ’ھُو‘ ظاہر ہو جاتا ہے۔ھُو تک پہنچنا ہی اصل کمال ہے اور طالب کو اس کمال تک پہنچانا ہمارے مرشد ِکامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کا کمال ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مرشد پاک کی وصیت اور حکم کے مطابق طالبوں کو براہِ راست آخری اور انتہائی ذکر ’یاھُو‘ عطا کرتے ہیں جو یقینا آپ مدظلہ الاقدس کی قابلیت اور اس صلاحیت کی دلیل ہے کہ آپ اپنے طالبوں کو اس انتہائی مقام پر بآسانی پہنچا سکتے ہیں۔

اسمِ اللہ ذات کے فیض کو عام کرنے کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی جدوجہد طویل، صبر آزما اور لائقِ صد تحسین ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے کئی بار پورے پاکستان میں سفر کیا اور ہر شہر میں طالبانِ مولیٰ کو بیعت فرما کر اور بغیر بیعت کے بھی ذکر و تصور اسمِ  اللہ ذات عطا فرمایا۔ پاکستان سے باہر بھی ساری دنیا سے طالبانِ مولیٰ آن لائن بیعت اور بغیر بیعت کے ذکر و تصور اسمِ  اللہ ذات آپ مدظلہ الاقدس سے حاصل کر رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اسمِ اللہ ذات کے فیض کو عام کرنے کے لیے پندرہ ہزار سے زائد کتب ’حقیقت اسمِ  اللہ ذات‘ اور ’مرشد کامل اکمل‘ چھپوا کر مفت تقسیم کیں اور ان گنت سونے کے اسمِ  اللہ ذات اور سنہرے پرنٹڈ (Printed) اسمِ  اللہ ذات طالبانِ مولیٰ کو عطا کیے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زیر ِنگرانی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھی دنیا بھر میں تمام مسلمانوں کو ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات حاصل کرنے کی دعوت دی جارہی ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے فیض کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس کی یہ خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ  کا فرمان ہے ’’سخی وہ ہے جو چل پھر کر اسمِ  اللہ ذات اور دیدارِ الٰہی کا فیض تقسیم کرے۔‘‘ اور آپ مدظلہ الاقدس کی سخاوت بے انتہا ہے کہ آپ کم استعداد کے طالب کی استطاعت کو بھی اپنے فیض سے بڑھاتے اور اسے اس کی استعداد سے بڑھ کر فیضِ اسمِ  اللہ ذات عطا فرماتے ہیں۔

اسمِ اللہ ذات کے تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کریں:
https://www.sultan-bahoo.pk/zikr-e-ism-e-allah-zaat-sultan-ul-azkar-hoo-tasawur-mushq-murqoom-e-wajudia-sultan-bahoo-ism-e-allah-zaat