Qowwat-e-waham

سلطان العاشقین اور قوتِ وَھم

Rate this post

سلطان العاشقین اور قوتِ وَھم

قوتِ وھم

وَھم ایک باطنی قوت ہے۔ اس سے مراد باطنی حواس اور قویٰ کا بیدار ہو جانا ہے۔ یہ حقیقت ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے ظاہری جسم کے اندر ہمارا ایک روحانی وجود بھی ہے جو ہمارا اصل وجود ہے۔ اربع عناصر سے بنا ہمارا جسم اس روح کا لباس ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ہماری روح اس مادی دنیا میں محفوظ رہے اور یہ لباس ہماری شناخت کا ذریعہ بھی بنے۔ اللہ نے جس طرح اس ظاہری وجود کو سننے، بولنے، دیکھنے اور محسوس کرنے کی قوت عطا فرمائی اسی طرح ہماری روح کو بھی تمام قوتیں عطا فرمائیں۔ البتہ اس دنیا میں آنے کے بعد جب ہمارا ظاہری جسم ہمارے روحانی وجود پر غالب آ جاتا ہے اور ہماری پوری توجہ جسم کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے پر صرف ہونے لگتی ہے تو ہماری روح ہماری بے توجہی کے باعث پژمردہ ہو جاتی ہے اور اس کے تمام حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔

شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
انسان کا ظاہر اس کی صورت اور جسد (جسم) ہے اور انسان کا باطن اس کی روح ہے۔ جسد اور ہے اور روح اور ہے۔ حالانکہ متکلم انسان واحد ہے۔۔۔۔۔ انسان کے جسد کی پرورش کی جائے اور شجرۂ روح کو پانی نہ ملے تو روح کا پودا خشک ہو جائے گا اور جسم کا درخت تازہ اور فربہ ہو جائے گا۔ صفاتِ حیوانیت غالب آ جائیں گی اور صفاتِ روح مغلوب ہو جائیں گی۔ اسی طرح جب روح کی پرورش (ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے) کی جاتی ہے تو صفاتِ روح صفاتِ بشریت پر غالب آ جاتی ہیں۔ (شرح فصوص الحکم والایقان، صفحہ 107)

 مرشد کامل اکمل کی توجہ اور ذکر و تصور اسمِ اللہذات سے ملنے والی روحانی قوت سے روح کو حیاتِ نو حاصل ہوتی ہے، اس کے تمام حواس بیدار ہو جاتے ہیں، وہ قوت حاصل کر کے عالمِ لاھوت لامکان تک پرواز کرتی ہے، اللہ کو دیکھتی اور اس سے ہم کلام ہوتی ہے۔ اسی روحانی خاصیت کو  اصطلاحِ فقر میں وھم کہا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث سے ہمیں ’وھم‘ کے متعلق واضح دلائل ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآئُ ط اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ۔  (سورۃ الشوریٰ۔51)
ترجمہ: اور ہر بشر (انسان) کی مجال نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے (جیسے موسیٰ علیہ السلام سے کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بناکر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے۔ بے شک وہ بلند مرتبہ اور حکمت والا ہے۔

وحی اور فرشتوں کے نازل ہونے کا سلسلہ تو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ لیکن ’پردے کے پیچھے‘ سے اللہ تعالیٰ آج بھی فقرا اور عارفین سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس آیت میں ’پردے‘ سے مراد انسانی جسم کا پردہ ہے کہ بظاہر تو عارف دنیا کے کاموں میں مشغول نظر آتا ہے لیکن باطن میں اللہ سے گفتگو میں محو ہوتا ہے جیسا کہ حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں ’’میں تیس سال سے اللہ سے ہمکلام ہوں لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ان سے بات کر رہا ہوں۔‘‘

رسالہ روحی شریف میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لے (اے طالبِ حق) اس کتاب کا مصنف ، فقیر نورِ مطلق تمام حجاب اور پردوں کو سامنے سے ہٹا کر سراپا وحدت ہو گیاہے۔ سبحان اللہ! اس فقیر کا جسم ایک ضعیف پردے کی طرح درمیان میں حائل ہے مگر وہ (ذاتِ باری تعالیٰ) اس کے درمیان عجیب راز اور نادر نکتے ظاہر فرما رہا ہے۔(رسالہ روحی شریف)

  سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قوتِ وھم کے متعلق فرمانِ عالیشان ہے:
مَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا سَیُکَلِّمُہٗ رَبُّہٗ لَیْسَ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَہٗ تَرْجُمَانٌ وَ لَا حِجَابٌ یَحْجُبُہٗ  (بخاری7443)
ترجمہ: تم میں سے کوئی ایسا نہ ہوگا جس سے اس کا ربّ کلام نہ کرے، اس کے اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا اور نہ کوئی حجاب ہوگا جو اسے چھپائے رکھے۔

حضرت سلطان باھوؒ نے وھم کے موضوع پر ایک مکمل کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام ’سلطان الوھم‘ ہے اور اس کے علاوہ بھی اپنی تمام کتب میں وھم کا ذکر فرمایا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
اوھام (وَھم کی جمع)  دل کا دیکھنا، سننا، بولنا اور سمجھنا ہے۔ (سلطان الوھم)

موسیٰ علیہ السلام اللہ سے کلام کے لیے کوہِ طور پر جاتے تھے اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اصل پیروکاروں کا وجود کوہِ طور کی مثل ہے اور وہ شہ رگ سے نزدیک ذات سے کلام کرتے ہیں۔ اس ربّ الارباب سے ذکر اور حضوری کے ذریعے جواب پاتے ہیں۔ (کلید التوحید کلاں)

اہلِ حضور کو مقامِ وحدانیت سے وھم ہوتا ہے چنانچہ جیسے ہی وہ وھم کی حالت میں داخل ہوتے جاتے ہیں ان کے مشکل کام وھم کی بدولت حل ہو جاتے ہیں اور ہر ظاہر و پوشیدہ شے انہیں دکھائی دینے لگتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس وھم کے متعلق اپنی مبارک تصنیف ’شمس الفقرا‘ میں فرماتے ہیں:
اصطلاحِ فقر میں وَھم سے مراد طالبِ مولیٰ کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے کہ ظاہرو باطن میں اُس کے دِل میں جو سوال بھی پیدا ہوتا ہے اس کاجواب بارگاہِ ربّ العزت سے وصول پاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وَھم سے مراد اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی ہے۔ 

حضرت موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ تھے۔ ایک مقررہ وقت پر کوہِ طور پر تشریف لے جاتے، با وضو ہو کر دو نفل پڑھتے، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں متوجہ ہوتے، استغراق کا ایک پردہ سا چھا جاتا اور آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو جاتے۔ آج بھی فقرا اور عارفین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں متوجہ ہوکر ہمکلام ہوتے ہیں۔

سیرِاوھام راہِ فقر میں بڑا اعلیٰ مرتبہ ہے جو حضورِ قلب کے بعد حاصل ہوتا ہے اور مقامِ فنا فی اللہ تک یہی مرتبہ سیرِاوھام ہی پہنچاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی اور وھم کی یہ قوت تب تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک مرشد کامل اکمل طالبِ صادق کے قلب کا تزکیہ و تصفیہ کر کے اسے روحانی زندگی اور اس کے باطنی حواس کو قوت عطا نہیں کر دیتا۔ مرشد کامل اکمل کے بغیر وھم کی صلاحیت حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اسی لیے مرشد کامل اکمل کو ’سلطان الوھم‘ کہا جاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
 اے جانِ عزیز! اس راہ کی ابتدا اور انتہا پیر ِ کامل ہی ہے۔قول ہے کہ:
اَلشَّیْخُ اَبْلَغُ فِیْ ھٰذِہِ الطَّرِیْقِ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ 
ترجمہ: پیرِ کامل ہی اس راستہ میں ہر شے سے گزار کر انتہا تک پہنچاتا ہے۔

پیرِکامل اور مرشدِو اصل کی علامت یہ ہے کہ وہ مرید کو عالمِ اوھام تک پہنچا کر فتحِ قلب عطا کرتا ہے اور اس جگہ مرید ہمتِ مؤثرہ کی بدولت سیرِ دل اور آرامِ دل حاصل کرتا ہے۔ فتحِ قلب یہ ہے کہ پیرِ کامل درج ذیل اصول کے مطابق دل کو زندہ کرتا ہے اور نفس کو مارتا ہے۔
اَلشَّیْخُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ  
ترجمہ : شیخ (دل کو) زندہ کرتا اور (نفس کو) مارتا ہے۔

پیرِکامل مرید کے دِل کو اپنے تصرف سے اوھام کے ذریعے حق تعالیٰ کی یاد کے ساتھ اس طرح زندہ کرتا ہے کہ اس کا کوئی سانس یادِ حق تعالیٰ کے بغیر نہیں نکلتا۔ خواب اور بیداری ہر حال میں ذکرِ اللہ کرکے دائمی سیر ِ اوھام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مرید کے دِل میں بصیرت کی ایسی دائمی قوت پیدا ہوتی ہے جس کی بدولت مرید تمام عالمِ الطاف کا معائنہ کرتا ہے۔ اسی دائمی قوت کے سبب وہ ایک لمحہ کے لیے بھی دیدارِ جمالِ حق سے محروم نہیں رہتا۔ چنانچہ پیر تحقیق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فتحِ دِل کی نشاندہی ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
رَأَیِ قَلْبِیْ رَبِّیْ
ترجمہ: میں نے اپنے ربّ کو اپنے دِل میں دیکھا۔
حضرت داؤد علیہ السلام بھی انہی معنوں کو ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ:
اُوْحِیَ بِرُؤْیَتِی اللّٰہِ تَعَالٰی اَنْظَرِیْ مَعْرِفَتَنِیْ قُلْتُ لَا رُؤْیَتَ قَالَ قَلْبُکَ فِیْ شَاھِدَتِیْ  وَ بِرُؤْیَتِیْ 
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنے دیدار کے متعلق وحی نازل کی اور پوچھاکیا توُ نے میرا دیدار کیا ہے اور میری معرفت حاصل کی ہے؟ میں نے عرض کی ’’ نہیں‘‘ تو فرمایا کہ تیرادِل تو میرے مشاہدے اور دیدار میں مشغول ہے۔ (سلطان الوھم)

وھم کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کریں:http://www.sultan-bahoo.pk/waham-sar-e-oham-sultan-bahoo-waham

اس ظاہری دنیا میں جہاں سائنس اور الیکٹرانک میڈیا کا ہر شعبہ انتہائی تیزی سے دن رات ترقی کر رہا ہے وہیں باطنی و روحانی دنیا میں بھی اس سے زیادہ تیزی سے انقلاب آ رہے ہیں۔ اگر ظاہر پرست لوگ یہ سمجھیں کہ روحانی دنیا کوئی جامد دنیا ہے جہاں ترقی و تبدیلی نہیں آتی تو یہ محض ان کی جہالت ہے۔ باطنی روحانی دنیا ظاہری دنیا سے زیادہ تیز رفتار اور سائینٹفک (Scientific) ہے۔ بلکہ اس قدر تیز رفتار اور سائینٹفک ہے کہ عام لوگوں کے لیے اس کا ادراک ہی ممکن نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر وحی کا نزول اور واقعۂ معراج اس کا واضح ثبوت ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ’’اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ ترجمہ: نماز مومنین کی معراج ہے‘ ‘اس بات کی دلیل ہے کہ ہر مومن کو اللہ کے قرب، دیدار اور ہم کلامی کا شرف حاصل ہو سکتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معراج پر حاصل ہوا۔ یہی قوت اور سعادت ’وھم‘ ہے جو مرشد کامل اکمل کی وساطت سے مومنین کو حاصل ہوتی ہے۔ البتہ ناقص مرشد اس صلاحیت سے خود بھی محروم ہوتے ہیں اور اپنے مریدوں کو بھی محروم رکھتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس یہ قوت ہوتی ہی نہیں لہٰذا وہ اس کے وجود کا ہی انکار کر دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ ایسا ممکن ہی نہیں حالانکہ یہ قرآن و حدیث اور اقوالِ اولیا کرام سے ثابت ہے۔ البتہ یہ سچ ہے کہ آج سے پہلے تصوف کی تاریخ میں کبھی بھی اس قوت کی موجودگی کا ذکر اس طرح برملا کرنے کی اجازت نہ تھی جس طرح اب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دور میں ان کے روحانی عروج اور کمال کی بدولت انہیں بارگاہِ الٰہی اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حاصل ہے۔ انہوں نے یہ اجازت صرف اُمتِ مسلمہ کی فلاح کی خاطر بہت ظاہری و باطنی تردد کے بعد مجلس ِ محمدیؐ سے حاصل کی ہے تاکہ اس زبوں حال اُمت کو ظاہری و باطنی عروج کی طرف کشش دلائی جا سکے کہ مرشد کامل اکمل کے وسیلے سے اللہ کا ایسا قرب بھی ممکن ہے جہاں باطنی آنکھوں سے اسے دیکھا جا سکتا ہے، باطنی کانوں سے اسے سنا جا سکتا ہے اور باطنی زبان سے اس سے بات کی جا سکتی ہے۔ جب طالب اللہ سے ہم کلام ہو کر یہ جاننے لگ جاتا ہے کہ اللہ اس سے کیا چاہتا ہے تو اس کے لیے اپنے ہر عمل کو اللہ کے حکم کے مطابق کر لینا مشکل نہیں رہتا اور یہی صراطِ مستقیم پر کامیابی سے چلنے کی کلید ہے۔

ہمیں یہ دعویٰ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس پرُفریب دور میں سوائے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے نہ ہی کسی مرشد کے پاس وھم کی یہ صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی ایسی روحانی قوت موجود ہے کہ وہ اسے اپنے مریدین کو عطا کر سکے۔ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے تو بے شک وہ جھوٹا اور لاف زن ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کسی بھی دوسرے طریقہ والا خواہ تمام عمر اپنی جان کو ریاضت اور مجاہدہ میںصرَف کر دے پھر بھی وہ قادری طریقہ کے ادنیٰ مرتبہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قادری کے لیے اس کا کھانا مجاہدہ اور اس کا سونا مشاہدہ ہے۔ قادری طریقہ پر چلنے والوں کے لیے بھوک اور سیری، سونا اور جاگنا، مستی اور ہوشیاری، بولنا اور خاموشی اختیار کرنا برابر ہیں۔ مخلوق سمجھتی ہے کہ وہ اُن سے بات کر رہے ہیں لیکن وہ اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور شاہ محیّ الدین جیلانی قدس سرہٗ سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ روٹی اِس جہان کی کھاتے ہیں لیکن کام اُس جہان کے کرتے ہیں۔ ان کی نظر، توجہ، گمان اور خیال ہمیشہ وصالِ حضور کی طرف ہی ہوتے ہیں۔ پس ان کی حقیقت کو کوئی اندھا اور پریشان حال شخص کیسے جان اور پہچان سکتا ہے۔

طریقہ قادری اختیار کرنے والے دونوں جہانوں پر امیر ہوتے ہیں کیونکہ وہ حقیقت میں تصور اسمِ اللہ سے فنا فی اللہ عارف باللہ فقیر (کے مراتب تک پہنچے ہوئے) ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ کے قادری کو نر شیر، بادشاہ او رصاحبِ راز کہتے ہیں۔ (گنج الاسرار)

سروری قادری راہِ فیض ہے اور کم حوصلہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں (دیگر سلاسل کے ناقص مرشدوں) نے طالبانِ مولیٰ کو اسمِ  اللہ کے اثرات کی تپش سے مار ڈالا، بعض اسمِ  اللہ ذات کا بار برداشت نہ کر سکے اور عاجز ہو گئے اور بعض مردود اور مرتد ہو گئے۔ (عین الفقر)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اپنی کمال قوتِ وھم کی بدولت بے شمار طالبانِ مولیٰ کو علم ِ لدنیّ کی نعمت سے بھی مالا مال کیا جنہوں نے اس علمِ لدنیّ کو معرفتِ الٰہی کی دعوت و تبلیغ میں استعمال کیا اور بے شمار کتب و مضامین تحریر فرمائے جو متلاشیانِ معرفتِ الٰہی کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بے شمار طالبانِ مولیٰ پر علمِ دعوت کھول کر عالمِ باطن میں بھی اپنی قوتِ وھم سے ان کو سنبھالا کہ وہ اس روحانی لطیف اور حقیقی عالم میں مقدس ہستیوں کی بارگاہ میں بھی باادب اور صراطِ مستقیم پر قائم رہیں۔

 

وھم کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کریں:
http://www.sultan-bahoo.pk/waham-sar-e-oham-sultan-bahoo-waham/