Faiz-ism-e-Mohammad

سلطان العاشقین اور فیض اسمِ محمد

Rate this post

سلطان العاشقین اور فیض اسمِ محمد

فیض اسمِ محمد 

سلطان الاذکار ’ھُو‘ کے فیض کو عوام الناس میں عام کرنے کے ساتھ ساتھ اسمِ محمد  کے فیض کو عام کرنے کا سہرا بھی صرف اور صرف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے سر ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے مرشد پاک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ہزاروں لاکھوں مریدوں میں سے اسمِ محمد کا تصور صرف آپ مدظلہ الاقدس کو ہی عطا فرمایا اور دنیا سے ظاہری طور پر پردہ فرمانے سے قبل آپ مدظلہ الاقدس سے فرمایا:
اب اسمِ اللہ  ذات اور اسم  محمد تمہارے حوالے ہیں۔ ان کے فیض کو عام کرنا اب تمہاری ذمہ داری ہے۔ (سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ حیات و تعلیمات)

اپنے مرشد پاک کی اسی وصیت پر عمل کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے طالبوں پر اسم محمدکا فیض بھی کھول دیا ہے۔ اسم  محمد کے اسرار و رموز، فیوض و برکات اور اثرات بیان کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس اپنی حقائق و تعلیماتِ فقر پر مبنی تصنیفِ مبارکہ’شمس الفقرا‘ میں فرماتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری حیاتِ مبارک میں صحابہ کرامؓ نے معرفتِ الٰہی کی تمام منازل اور مراتب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرہ مبارک کے دیدار اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرب و نگاہِ کامل کی توجہ سے حاصل کیے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد آنے والے طالبانِ مولیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسم ِمبارک کے توسط اور برکت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس تک باطنی رسائی حاصل کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کرم و تاثیر سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مہربانی اور ساتھ کے بغیر آج تک نہ کوئی اللہ تک پہنچ پایا ہے نہ پہنچ پائے گا۔ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہ کی توجہ حاصل نہ ہو، روح نہ زندگی پاتی ہے اور نہ وصال و معرفتِ الٰہی۔ موجودہ زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کامل سے فیض یاب ہونے کا ذریعہ ذکر و تصور اسمِ اللہ اور اسمِ محمد ہے جو طالب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں لے جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے اصحابؓ کا ساتھ نصیب کرتا ہے۔ اس مجلس میں صبر و استقامت، ادب و حیا اور مکمل اطاعت و پیروی کے ساتھ دنیاوی تعلقات کو باطنی طور پر قطع کر کے مستقل حاضری کے بعد ہی ایک طالب اس لائق بنتا ہے کہ اسے محبوبیت کے مراتب حاصل ہوں اور اللہ کی معرفت و وصال نصیب ہو۔ 

اللہ کے بے شمار صفاتی نام ہیں لیکن اسمِ اللہ اس کا ذاتی نام ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بھی بے شمار صفاتی نام ہیں لیکن اسم  محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذاتی نام ہے۔ جس طرح اسم ’’اللہ‘‘ اللہ کے تمام ناموں میں سب سے زیادہ قوت والا اسم ہے اسی طرح اسم  محمدحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام ناموں میں سب سے زیادہ اثر اور قوت رکھنے والا اسم ہے۔

اسمِ محمد کا ظہور اس وقت ہوا جس وقت انوارِ الٰہیہ اور تجلیات نورِ محمدی کے سوا کسی شے کا ظہور نہ ہوا تھااس لیے اسمِ محمد خود بھی منبعِ انوار و تجلیات ہے اور معجزانہ شان کا حامل ہے۔ ظہورِ ذاتِ حق تعالیٰ کی ترتیب کو مدِنظر رکھیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نورِ الٰہی، صورت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ظاہر ہوا۔ جب اولیا کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ازل میں خود کو ’اسم اللہ ذات‘ کی صورت میں ظاہر فرمایا تو اس میں ’ذات‘ سے مراد نورِ محمدی یا ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے جو اللہ کا ظہورِ اوّل اور ’نور‘ سے ’ذات‘ کا پہلا اظہار ہے۔ چنانچہ اسمِ  محمد، اسم اللہ ذات سے جدا یا علیحدہ نہیں بلکہ اسمِ اللہ ذات اسمِ محمد میں اور اسمِ محمد اسمِ اللہ ذات میں گم ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام کو اپنا کلام قرار دیا۔ (شمس الفقرا)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسمِ اللہ ذات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اسمِ محمدکو اسمِ  اللہ ذات کا ہی حصہ قرار دیتے ہیں۔ محک الفقر کلاں میں آپؒ فرماتے ہیں:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ  کی شرح یوں بھی ہے کہ فقر کی ابتدا اسم  اللہ سے ہے یعنی فقرا ا سم اللہ سے فقیر بنتے ہیں ا ور اسم اللہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فخر ہے کہ اسم اللہ اسم  محمدمیں تبدیل ہوجاتا ہے چنانچہ حدیثِ قدسی میں فرمان حق تعالیٰ ہے:
اَنْتَ اَنَا وَ اَنَا اَنْتَ 
ترجمہ: (اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم !)  تو میں ہے اور میں تو ہوں۔

 یعنی یہ دو نام ایک ہی صنف سے ہیں اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ 
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔ (محک الفقر کلاں)

چنانچہ اسمِ محمد درحقیقت اسی قوت اور اثر کا حامل ہے جو اسمِ  اللہ کو حاصل ہے۔ لیکن اسمِ اللہ میں جلال بھی ہے جمال بھی، قہر بھی ہے لطف بھی جبکہ اسمِ محمد میں جمال ہی جمال اور رحمت ہی رحمت ہے لہٰذا انسانی باطن پر اس کے اثرات زیادہ خوش کن ہیں۔ اسمِ محمد کے تصور سے انسانی روح شریعتِ محمدی کے تابع ہوکر اللہ کی زیادہ تابع دار ہو جاتی ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں جہاں اسمِ اللہ ذات کی مکمل تشریح و تفصیل بیان کی وہاں اسمِ محمد کے معارف، اثرات و کمالات بھی بیان فرمائے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اسم ِ محمد کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اسم  محمد  کے ’میم‘ سے معرفتِ الٰہی کا مشاہدہ ہوتا ہے اور حرف ’ح‘ سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری نصیب ہوتی ہے۔ اسمِ محمد کے دوسرے ’میم‘ سے دونوں جہان کا مشاہدہ حاصل ہوتا ہے اور حرف ’دال‘ سے شروع ہی میں جملہ مقصود حاصل ہو جاتے ہیں۔ یہ چاروں حرف ننگی تلوار ہیں کافر اور یہودی نفس کے قتل کے لیے۔ (کلید جنت)

اسمِ محمد  کا ہر حرف ایک خاص تاثیر اور قوت رکھتا ہے۔ جب سالک مرشد کی اجازت سے اسمِ محمد  کا تصور کرتا ہے تو ان حروف کی تجلیات کے زیراثر اپنے نفس و باطن میں واضح تبدیلیاں محسوس کرتا ہے اور ان صفات کا حامل ہوتا جاتا ہے جن کی بنا پر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام محبوبِ الٰہی ہیں۔ اس کا نفس مردہ اور قلب زندہ ہوتا ہے۔ وہ جسم و مکان کی قید سے آزاد ہو کر روحانی طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس تک رسائی حاصل کرتا ہے جہاں اُن کی زیر تربیت وہ تمام صفاتِ محمدی  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے متصف ہو کر اللہ کے ہاں محبوبیت کا مرتبہ پالیتا ہے۔ سالک کی شخصیت پر اسمِ محمد کے تصور کے اثرات بیان کرتے ہوئے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب طالبِ مولیٰ اسمِ اللہ ذات، اسمِ محمد اور کلمہ طیبہ کے تصور میں محو ہوتا ہے تو اس کے گناہ نورِ اسمِ اللہ ذات کے لباس میں چھپ جاتے ہیں۔ (محبت الاسرار) 

جب طالب اسمِ محمد  کو اپنے تصور میں لاتا ہے تو بے شک جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح مبارک مع ارواحِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نہایت لطف و کرم سے تشریف فرما ہوتی ہیں۔ صاحبِ تصور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں: ’’میرا ہاتھ پکڑ۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہاتھ پکڑتے ہی طالب کا دل معرفتِ الٰہی کے نور سے روشن ہو جاتا ہے جس سے وہ ارشاد کے لائق ہو جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صاحبِ تصور کو اپنی زبان مبارک سے فرماتے ہیں کہ خلقِ خدا کی امداد کرو۔ پس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم سے صاحب ِتصور خلقِ خدا کو تعلیم و تلقین دیتا ہے۔ (کلید ِ جنت)
اسمِ  محمد   کے تصور سے علم کی سچی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ (کلید ِجنت)
جس کسی کے وجود میں اسمِ محمد   کا نور (تصور اسم  محمد سے) داخل ہو جائے اس شخص کا ہر کام نورِمحمد سے ہوتا ہے۔ (عقلِ بیدار)

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ مرشد کامل اکمل صرف اسی مرشد کو قرار دیتے ہیں جو اپنے طالبوں کو اسم  اللہ ذات اور اسم  محمد عطا کرے۔
سن! مرشد کامل مکمل وہ ہے جو برزخِ  (برزخ سے مراد دو جگہوں کو ملانے والا پل یا دو مقامات کے درمیان کی جگہ ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کو برزخ اس لیے فرمایا ہے کیونکہ یہ عبد اور معبود کو ملانے کا ذریعہ یا وسیلہ ہیں۔)  اسمِ اللہ  یا برزخِ  اسمِ محمد  لکھ کر طالبِ مولیٰ کو دے اوراسے (ان اسما کی راہ) دکھا دے۔ طالبِ مولیٰ اس برزخ سے جو کچھ دیکھے گا (اگر اس پر یقین کرے تو) بے شک صراطِ مستقیم پائے گا۔ جو طالب ایسے مرشد سے روگردانی کرتا ہے وہ یقینا اسمِ اللہ اور اسمِ محمد سے روگردانی کرتا ہے۔ کلمہ طیب میں بھی یہ دونوں اسم موجود ہیں، جس نے ان دونوں اسما یعنی اسمِ اللہ اور اسمِ محمد سے روگردانی کی اس نے کلمہ طیب سے روگردانی کی اور جس نے کلمہ طیب سے روگردانی کی وہ مرتد ہوگیا اور مرتد کی نماز، روزہ اور کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ (عین الفقر)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ترتیب یہ ہے کہ ہر سال عید میلاد النبیؐ کے بابرکت موقع پر اور میلادِ مصطفیؐ بسلسلہ یومِ منتقلی امانتِ الٰہیہ 21 مارچ کوان تمام طالبانِ مولیٰ کو اسمِ محمد  عطا فرماتے ہیں جن پر اسمِ اللہ ذات کی حقیقت کھل چکی ہو اور جو روحانی ترقی کے ابتدائی مدارج طے کر چکے ہوں۔ چنانچہ ہر سال عید میلاد النبیؐ پر اور 21 مارچ یومِ منتقلی امانتِ الٰہیہ کے موقع پر سینکڑوں طالبانِ مولیٰ (مرد و خواتین) کو آپ مدظلہ الاقدس کی جانب سے اسمِ  محمد کا فیض جاری کیا جاتا ہے۔یہ طالبانِ مولیٰ کی انتہائی خوش نصیبی ہے کہ وہ آپ مدظلہ الاقدس کی بابرکت پرُنور ذات کے فیض کی بدولت اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کی وہ تاثیر حاصل کر رہے جو پہلے صرف خاص الخاص لوگوں تک محدود تھی اور جس تک رسائی عام انسان کی سوچ سے بھی باہر تھی۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ہر عمل اقبالؒ کے اس شعر کی تفسیر ہے:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے

(بانگ ِدرا)

اسمِ محمدؐ کے تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کیجیئے 
https://www.sultan-bahoo.pk/tasawur-ism-e-mohammad-sultan-bahoo-tasawur-ism-e-mohammad