القابات سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن
شرح القابات
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
اللہ پاک کا اپنے محبوبین کے لیے ہمیشہ سے طریقہ رہا ہے کہ وہ انہیں ان کی خاص صفات اور مقام کے مطابق القابات عطا کرتا ہے تاکہ دنیا ان کی شانِ محبوبیت سے آگاہ ہو جائے۔ اللہ نے قرآن میں اپنے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو انتہائی محبت بھرے اسما و القابات سے پکارا ہے۔ کہیں یٰسین و طٰہٰ تو کہیں مزمل و مدثر۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کو بھی ایسے القابات عطا کیے گئے جن سے ان کا مقام و مرتبہ اور دین کے لیے ان کی خدمات کا اظہار ہوتا ہے جیسا کہ غوث الاعظم، محی الدین، پیر دستگیر اور بازِ اشہب۔ سلسلہ سروری قادری میں بھی یہ طریقہ ہے کہ اس سلسلے کے تمام مشائخ کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ان کی اس خاص صفت کی بنا پر القابات سے نوازا جاتا ہے جو ان کا کمال ہوتی ہے، انہیں دیگر اولیا سے ممتاز کرتی ہے، جس کے تحت ان کی زندگی بسر ہوتی ہے اور جو ان کی دیگر صفات پر حاوی ہوتی ہے جیسا کہ عارفوں کے بادشاہ اور سلطان حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا لقب سلطان العارفین ہے۔ پیر سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے ترکِ دنیا میں کمال حاصل کیا لہٰذا ان کا لقب سلطان التارکین ہے۔ پیر محمد عبدالغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے کامل صبر کی بنا پر ان کا لقب سلطان الصابرین ہے۔ پیر بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی بلند پروازی کی بنا پر انہیں شہبازِ عارفاں کا لقب عطا کیا گیا۔ سلطان محمد عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کے کمالِ ولایت کی بنا پر انہیں سلطان الاولیا کا لقب ملا اور سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے سلطان الفقرششم کے مرتبے کی بنا پر ان کا لقب سلطان الفقر ہے۔ حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو بھی ان کے مقام و مرتبے کے اظہار اور ان کی فقر کے لیے خدمات کو سراہنے کے لیے مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے القابات عطا کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ان تمام القابات کی تفصیل درج ہے جو آپ مدظلہ الاقدس کے نام کا حصہ ہیں یا رہے ہیں ۔
سلطان محمد
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے سلسلہ سروری قادری اور فقر کو جو عروج عطا فرمایا اس کی بنا پر ان کے بعد آنے والے تمام مشائخ سروری قادری کو ان کے سلسلہ سے نسبت کے اظہار کے لیے ’’سلطان محمد‘‘ کا لقب عطا کیا جاتا ہے جو ان کے نام کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ ’’سلطان‘‘ کا لقب ان کے اپنے زمانے میں فقر کا بادشاہ ہونے کی علامت بھی ہے۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اسمِ ذات ’ھوُ‘ سلطان الاذکار ہے۔ جو ھوُ میں فنا ہو کر ھوُ ہو گیا وہی سلطان ہے۔ (مجتبیٰ آخر زمانی، سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ حیات و تعلیمات)
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرحمن میں انسانِ کامل کی شان کے اظہار کے لیے بھی ’’سلطان‘‘ کا لقب استعمال فرمایا ہے:
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ط لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانٍ (سورۃ الرحمن۔33)
ترجمہ: اے گروہِ جن و انس! اگر تم میں ہمت ہے تو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل کر دکھاؤ، ہرگز نہ نکل سکو گے بغیر سلطان کے۔
مسندِتلقین و ارشاد سنبھالتے ہی یہ لقب ان کے نام کا حصہ بن جاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے جب اپنے مرشد حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے 26دسمبر 2003ء میں وصال کے فوراً بعد مسندِتلقین و ارشاد سنبھالی تو سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ، حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اور شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے حکم پر ’’سلطان محمد‘‘ کا لقب باقاعدہ طور پر ان کے نام کا حصہ بنا دیا گیا۔آپ مدظلہ الاقدس کی شان یہ ہے کہ باطنی دنیا میں تمام اولیا اللہ آپ کو محبت سے ’’سلطان محمد‘‘ کے لقب سے ہی پکارتے ہیں جیسا کہ سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو ’’شاہ صاحب‘‘، پیر محمد عبدالغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو ’’پیر محمد‘‘ اور پیر بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو ’’پیر صاحب‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
سلطان العاشقین
سلطان العاشقین آپ کا حقیقی لقب ہے جس کو آپ کے نام کا حصہ بنایا گیا۔ سلطان العاشقین کا لقب آپ مدظلہ الاقدس کو آپ کے عشقِ حقیقی کی باکمال صفت کی بنا پر مجلسِ محمدی سے ستمبر 2012ء میں عطا ہوا جب آپ نے سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک کی نئے سرے سے تعمیر ہر مخالفت اور رکاوٹ کے باوجود مکمل کروائی اور ان کا عرس شاندار طریقے سے منعقد کروانے کے ساتھ ساتھ ان کا کئی سال سے بند فیض بھی جاری کروایا۔ البتہ اس وقت یہ لقب مخفی رکھا گیا حالانکہ آپ مدظلہ الاقدس اپنے اس لقب سے بخوبی واقف تھے کیونکہ سروری قادری مشائخ اپنے نام و مرتبہ کی شہرت کبھی نہیں چاہتے بلکہ وہ تو خود کو دنیا سے مخفی رکھ کر صرف اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اولیا کرام کی طرف سے لگائی گئی ذمہ داریوں کو تندہی سے ادا کرنے میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ لیکن اللہ جس کو چن لیتا ہے اور جس کی شان دنیا کو بتانا چاہتا ہے اس کو لاکھ چاہنے پر بھی چھپایا نہیں جا سکتا جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
بو کستوری دی چھپدی ناہیں، بھانویں دے رکھیے سیَ پلیّ ھوُ
انگلیں پچھے دینہہ ناہیں چھپدا، دریا نہ رہندے ٹھلیّ ھوُ
لہٰذا کچھ عرصہ بعد ہی آپ مدظلہ الاقدس کی ایک مریدہ فاطمہ نور سروری قادری صاحبہ کو شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک پر حاضری کے وقت دعوت کے دوران اس لقب سے آگاہ کر دیا گیا۔ انہی دنوں آپ مدظلہ الاقدس کی مریدین محترمہ یاسمین خورشید ملک سروری قادری، محترمہ عنبرین مغیث سروری قادری اور نین تارا سروری قادری آپ مدظلہ الاقدس کی کتاب مجتبیٰ آخر زمانی کے انگریزی ترجمہ The Spiritual Guides of Sarwari Qadri Order میں مصروف تھیں۔ جب وہ کتاب میں اپنے مرشد پاک کے القاب بیان کرنے لگیں تو ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کتاب کے شروع میں تمام مشائخ کے القابات کا ذکر تفصیل سے دیا جائے۔ ان القابات کو لکھتے ہوئے جب وہ اپنے مرشد سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے اسم ِگرامی پر پہنچیں تو ان کے دل میں یہ سوال اٹھا کہ جس طرح گزشتہ مشائخ کے القابات سلطان العارفین، سلطان التارکین، سلطان الصابرین ہیں اس طرح ہمارے مرشد پاک کا لقب کیا ہے؟ انہوں نے دعوت پڑھی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضری دے کر اپنی یہ عرض پیش کی تو انہیں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اور سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہؒ نے آگاہ فرمایا کہ آپ کے مرشد پاک کا لقب ’’سلطان العاشقین‘‘ ہے جو انہیں ان کے عشقِ حقیقی اور عشقِ مرشد کی بنا پر عطا کیا گیا ہے۔ یوں فاطمہ نور سروری قادری کو بتائے گئے لقب کی تصدیق بھی ہو گئی۔
واقعی آپ مدظلہ الاقدس سلطان العاشقین ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے نہ صرف خود اپنی تمام عمر اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اللہ کے محبوب اولیا کے عشق میں گزاری بلکہ اپنے مریدین کو بھی عشقِ حقیقی کی یہ نعمت عطا فرما رہے ہیں۔ عشق کے بغیر دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری جیسے ماورائے عقل اعلیٰ ترین روحانی مراتب تک پہنچنا ناممکن ہے۔ عشق کی قوت ہی ایک مسلمان کو تصدیق بالقلب کے مرتبے تک پہنچا کر مومن بناتی ہے۔ عشق ہی مردار دنیا کے طالب کو طالبِ مولیٰ بناتا ہے، عشق کے بغیر حق کی پہچان ناممکن ہے۔ حضرت میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں:
جنہاں عشق خرید نہ کیتا عیویں آ بھگتے
عشق باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتے
عشقِ حقیقی کی یہ نعمت جو پہلے صرف خاص الخاص اولیا تک محدود تھی اب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے عام کی جا چکی ہے۔ جو آنا چاہے در کھلا ہے ورنہ اللہ بے نیاز ہے۔
شبیہِ غوث الاعظم
حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو ان کی دینِ محمدی کو حیاتِ نو عطا کرنے اور فقر ِحقیقی کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کاوشوں کے اعتراف کے طور پر شبیہِ غوث الاعظم کا لقب مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عطا کیا گیا۔ امتِ مسلمہ کی ہدایت اور احیائے دین کے لیے یہ لقب آپ مدظلہ الاقدس کی جدوجہد اور کاوشوں کا اجمالی تعارف پیش کرتا ہے۔ 2016ء میں عرس پیر سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے موقع پر آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین کو باطنی طور پر آگاہ کیا گیا کہ ان کے مرشد کی دین کے لیے خدمات کو سراہتے ہوئے بارگاہِ غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے شبیہِ غوث الاعظم کا لقب عطا فرمایا گیا ہے۔ ان مریدین میں سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری، ڈاکٹر سلطان محمد حسنین محبوب سروری قادری، سلطان محمد ناصر حمید سروری قادری، عبدالرحمن محبوب سروری قادری، مغیث افضل سروری قادری اور محمد یٰسین سروری قادری قابل ِذکر ہیں۔ ان میں سے بعض نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ یہ لقب سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے بذاتِ خود سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو بہت محبت سے عنایت فرمایا۔ سبحان اللہ! کسی بھی مشاہدے کے حق و سچ ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں کئی طالبانِ مولیٰ کو حاصل ہو۔ نہ صرف 2016ء میں عرس پیر سیدّ محمد عبداللہ شاہ میں شریک مرد طالبانِ مولیٰ کو باطنی حاضری کے دوران اس لقب سے آگاہ کیا گیا بلکہ لاہور میں موجود ایک خاتون طالبِ مولیٰ روحینہ بشارت سروری قادری کو بھی دورانِ دعوت اس لقب کے متعلق ان الفاظ میں آگاہ کیا گیا ’’تمہارے مرشد پاک تو شبیہ غوث الاعظم ہیں۔‘‘ محمد یٰسین سروری قادری نے دربار پیر سیدّ محمد عبداللہ شاہؒ پر حاضری کے دوران دیکھا کہ ان کے کندھے کے قریب سے ایک ہاتھ بلند ہوا اور سلطان العاشقین کی طرف اشارہ کیا، ساتھ ہی ایک غیبی آواز سنائی دی ’’ایسے ہوتے ہیں شبیہِ غوث الاعظم۔‘‘
آپ مدظلہ الاقدس کی یہ دلیل رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ دین ِحق کی تجدید کے لیے آپ سے ویسا ہی کام لے لے جیسا سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے لیا تھا۔ اس دلیل کو پورا کرنے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے دن رات جدوجہد کی اور حقیقی اسلام یعنی فقر کو دنیا بھر میں عام کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ بقول اقبالؒ
لفظ ’اسلام‘ سے اگر یورپ کو کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقر ِ غیور
اسلام کے اسی حقیقی روپ یعنی فقر کے احیا و تجدید کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے دعوت و تبلیغ کا ہر ذریعہ استعمال کیا۔ محافل، تقاریر و بیانات، سوشل میڈیا، کتب، ویب سائٹس، اولیا کی کتب کے تراجم و تفاسیر، ملک بھر کے تبلیغی دورے، آڈیو ویڈیوز وغیرہ۔ ان تمام شعبہ جات کو چلانے کے لیے پیشہ ورانہ ماہرین کی خدمات لینے کی بجائے اپنے ہی مریدین کو اپنی باطنی توجہ سے بے حد محنت کے بعد تیار کیا۔ ان کا تزکیہ نفس و تجلیہ روح فرما کر انہیں وہ باطنی بصیرت عطا کی جس کی بدولت وہ اپنے اپنے شعبہ سے منسلک ذمہ داریاں احسن طریقے سے اللہ کی رضا کے مطابق نبھا سکیں۔ آج کے مادہ پرست اور فرقہ پرست دور میں حقیقی دین کو عام کرنا آسان کام نہیں اور آپ مدظلہ الاقدس نے اس مقصد کی تکمیل کے لیے بے حد مخالفت کے باوجود کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آپ مدظلہ الاقدس کی محنت کی بدولت آج فقر دنیا بھر میں عام ہو رہا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ سلطان الفقر پبلیکیشنز اور ڈیجیٹل پروڈکشنز کی آن لائن کتب اور میگزین پڑھ کر اور ویب سائٹس دیکھ کر بیعت ہو رہے ہیں۔ دین ِ حقیقی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکنے والوں کو راہ مل گئی ہے اور اقبال کی یہ امید پوری ہونے کو ہے:
اب تیرا دور بھی آنے کو ہے اے فقر ِ غیور
کھا گئی روحِ فرنگی کو ہوائے زر و سیم
پس جس طرح سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے دینِ حنیف کو زندہ کیا اسی طرح آپ مدظلہ الاقدس بھی دن رات اسی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اور یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا کہ آپ مدظلہ الاقدس نے مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالنے کے بعد کے تیرہ سالوں میں تین صدیوں کا کام کر دیا جو فقر و تصوف کی دنیا میں اگلی تین صدیوں تک کے لیے کافی رہے گا اور رہنمائی کرتا رہے گا۔
حدیثِ مبارکہ ہے:
عن ابو ہریرہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اِنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُجَدِدْ لَھَا دِیْنَھَا (سنن ابی داؤد۔ 4291)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتدا میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔
سیدّناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ اپنے دور کے مجدد تھے۔ آپؓ 470 ہجری بمطابق 1078 عیسوی اسی دنیا میں تشریف لائے۔ طویل ریاضت و مجاہدے کے بعد آپؓ 521 ہجری بمطابق 1128 عیسوی میں مسند ِ تلقین پر فائز ہوئے اور مجدد بن کر دنیا میں ظاہر ہوئے یعنی ہجری صدی کا بھی آغاز تھا اور عیسوی صدی کا بھی۔ اسی طرح شبیہِ غوث الاعظم حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے بھی مسندِ تلقین و ارشاد اپنے مرشد حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے دسمبر 2003ء میں وصال کے بعد جنوری 2004ء بمطابق 1424 ہجری میں سنبھال لی یعنی ہجری صدی کا بھی آغاز اور عیسوی صدی کا بھی آغاز۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ دوسری ہزارویں صدی عیسوی کے آغاز میں بطور مجدد ظاہر ہوئے اور سلطان العاشقین تیسری ہزارویں صد ی عیسوی کے آغاز میں بطور مجدد ظاہر ہوئے۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تبرکاتِ قدرتِ سبحانی کی بدولت عارف باللہ محبوبِ ربانی پیر دستگیر حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیز اپنے دورِ حیات میں ہر روز پانچ ہزار طالبوں و مریدوں کو کفر و شرک سے نجات دلا کر فیض سے نوازتے رہے جن میں سے تین ہزار کو حضوری سے مشرف کر کے وحدانیتِ اِلَّا اللّٰہُ کے مشاہدات میں غرق کرتے رہے کہ ہر تین ہزار کو مراتب اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ پر پہنچا دیتے اور دو ہزار کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل فرماتے۔ اس طریقے میں مرشد کامل باطنی توجہ اور اسمِ اللہ ذات و کلمہ طیب کے حاضرات اور ذکر کی ضرب سے حضوری عطا کرتا ہے۔ ذوق، سخاوت، تصور اور تصرف کا یہ فیض طریقہ قادری میں سلسلہ در سلسلہ چلا آ رہا ہے اور قیامت تک نہ رکے گا۔ آفتاب کی مثل اس کی روشنی ہر دو جہان پر چمکتی اور اسے فیض یاب کرتی رہے گی۔ (کلید التوحید کلاں)
حضوری کا یہ فیض بخش سروری قادری طریقہ جب منتقل ہوتے ہوتے حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تک پہنچا توآپ مدظلہ الاقدس نے بھی سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس مادہ پرستی کے دور میں جہاں طالبانِ مولیٰ ہی خال خال ملتے ہیں، محض اپنی نگاہِ کامل کے فیض اور ذکر اسمِ اللہ ذات کی برکت سے ہزاروں مریدوں کے دل سے حبِّ دنیا نکال کر اسے عشقِ حقیقی کی نعمت سے مالا مال کیا اور تزکیہ نفس کے بعد انہیں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور دیدارِ الٰہی کے اعلیٰ ترین روحانی مراتب تک پہنچایا اور پہنچا رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس پیر محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی طرح روحوں کو حیاتِ نو عطا فرماتے ہیں، انہیں اللہ سے ہم کلام ہونے کی قوت عطا کرتے ہیں، بس شرط یہ ہے کہ طالب صادق ہو منافق اور ریاکار نہیں۔ اس دور میں یہ کرامت ایک معجزہ ہی ہے اور اس بنا پر بھی آپ مدظلہ الاقدس کو شبیہِ غوث الاعظم کا لقب عطا کیا گیا ہے۔
اگر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی پوری زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی حیاتِ طیبہ کی طرح ان کی حیات بھی جدوجہد اور مجاہدے سے بھرپور ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زندگی کا pattern (نمونہ )ہو بہو سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی زندگی سے ملتا ہے۔ دورانِ حمل آپ مدظلہ الاقدس کی والدہ کے تجربات، بچپن میں آپ کے چہرے کی نورانی کشش اور فقرا کا آپ کے بارے میں پیشن گوئیاں کرنا، لڑکپن سے ہی مالی مشکلات کی وجہ سے تنگی و عسرت میں گزربسر کرنے کے لیے محنت مشقت کا آغاز کر دینا، زمانہ طالب علمی بھی اسی مشقت و تکلیف میں گزارنا، ذہانت کے باعث اساتذہ کا منظورِ نظر ہونا، جوانی میں ہی اللہ کی تلاش کے لیے مجاہدے و ریاضت کا آغاز کر دینا، اس ریاضت کے دوران سب سے پہلے باطن میں سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے روحانی تعلق استوار ہونا، ان سے اسمائے حسنہ کا ذکر اور علمِ لدنیّ حاصل کرنا، انہی کے حکم پر مرشد کی تلاش کا آغاز کرنا، مرشد کی صحبت میں بہت کم وقت گزارنا (صرف پانچ سال)، مسندِتلقین و ارشاد سنبھالنے کے بعد کی جدوجہد، سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے زمانہ میں اسلام کی زبوں حالی اور فرقہ واریت کی انتہا اور آپ مدظلہ الاقدس کے زمانے میں اسلام کی حالت اور فرقہ پرستی کی بھرمار، اس فرقہ پرستی کے خاتمے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس کی کوششیں، غرض پوری حیات سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی حیات کے نمونہ پر ہے، حتیٰ کہ آپ کا باطنی مجاہدہ بھی اسی قدر شدید ہے جس قدر سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس خود فرماتے ہیں ’’جس قدر ظاہری باطنی آزمائشوں سے ہم گزرے ہیں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا۔‘‘
اس ضمن میں آپ مدظلہ الاقدس کی مریدہ انیلا یٰسین کا روحانی مشاہدہ بھی قابلِ ذکر ہے۔ وہ بتاتی ہیں:
ایک روز میں دعوت پڑھ کر مجلسِ محمدیؐ میں حاضر ہوئی تو کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ سیدّنا غوث الاعظمؓ تشریف لائے ہیں اور ہمارے مرشد حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے متعلق فرمایا ’’یہ بہت انمول ہیں۔ دنیا کو ان کے مقام و مرتبہ کی خبر نہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’یہ میں ہیں اور میں یہ ہوں۔ ان کے پیچھے پیچھے چلنے والا فلاح پائے گا۔‘‘
سلطان العاشقین آپ مدظلہ الاقدس کا باطنی حقیقی وصف ہے جبکہ شبیہِ غوث الاعظم آپ کا ظاہری اور علمی وصف ہے جس طرح حضرت امام حسینؓ کا باطنی لقب امامِ عاشقاں ہے جبکہ ظاہری لقب سیدّ الشہدا ہے۔
آنے والا وقت انشاء اللہ ایسی بہت سی مزید نشانیاں ظاہر کرے گا جن سے آپ مدظلہ الاقدس کے شبیہِ غوث الاعظم ہونے کی تصدیق ہو جائے گی۔
آفتابِ فقر
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے فقر کو جو عروج عطا فرمایا ہے اس بنا پر آپ کے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کی جانب سے آپ کو آفتابِ فقر کا لقب عطا فرمایا گیا ہے۔ بلاشبہ آپ فقر کے آفتاب ہیں جو تمام عالم میں فقر کی روشنی پھیلا رہے ہیں اور یہی لقب آپ مدظلہ الاقدس کی والدہ محترمہ کے اس خواب کی تعبیر ہے جو انہوں نے آپ مدظلہ الاقدس کے حمل کے دوران دیکھا تھا۔ آپ ہی کی مبارک ہستی وہ ذات ہے جس کی وجہ سے فقر اب دنیا کے اندھیروں میں چھپا نہیں رہا بلکہ آفتاب بن کر طلوع ہو رہا ہے اور دونوں جہان کو روشن کر رہا ہے۔ جس طرح آفتاب بلاامتیاز ہر نوع کو توانائی اور روشنی دیتا ہے آپ مدظلہ الاقدس بھی بلاامتیاز ہر قوم و مذہب، رنگ و نسل اور ہر فرقہ کے افراد کو جو ہدایت کی طلب لے کر حاضر ہوتا ہے اپنے فیضِ فقر سے نواز دیتے ہیں۔ سبحان اللہ
آفتابِ فقر کے اس لقب کے متعلق آپ مدظلہ الاقدس کی مرید ِخاص عنبرین مغیث سروری قادری کو دورانِ حضوریٔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آگاہ کیا گیا تھا اور حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں بتایا کہ جس طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسم پاک زمین پر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہے لیکن آسمانوں پر احمد ہے اور شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا زمین پر لقب غوث الاعظم ہے لیکن آسمانوں پر بازِ اشہب ہے اسی طرح آپ کے مرشد سلطان محمد نجیب الرحمن کا لقب زمین پر تو سلطان العاشقین اور شبیہ ِغوث الاعظم ہے لیکن آسمانوں پر آفتابِ فقر ہے۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف رسالہ روحی شریف میں فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زبانِ گوہر فشاں سے مجھے مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی فرمایا ہے۔
’مصطفی‘ اور ’مجتبیٰ‘ دونوں القاب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے خاص ہیں۔ دونوں کے لغوی معنی چنا ہوا، انتخاب کیا ہوا، پسندیدہ اور برگزیدہ کے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت سلطان باھوؒ کو خود ’مصطفی ثانی‘ اور ’مجتبیٰ آخر زمانی‘ کا لقب عطا فرمایا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آخری زمانہ میں جب گمراہی عام ہوگی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات روشنی کا مینار ہوں گی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کو لے کر کھڑا ہونے والا کوئی فرد لوگوں کی ہدایت کا موجب بنے گا اور اس کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی راہنمائی حاصل ہوگی کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کاتو وصال ہوئے تین سوبتیس سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ اِرشاد بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آیا ہے’’جب گمراہی عام ہوجائے گی، باطل حق کو ڈھانپ لے گا ، فرقوں اور گروہوں کی بھرمار ہوگی، ہر فرقہ خود کو حق پر اور دوسر وں کو گمراہ سمجھے گا، گمراہ فرقوں او ر گروہوں کے خلاف بات کرتے ہوئے لوگ گھبرائیں گے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرنے والے اپنے چہروں پر ولایت کا نقاب چڑھاکر درباروں اور گدیوں پر بیٹھ کر لوگوں کو لوٹ کر اپنے خزانے اور جیبیں بھر رہے ہوں گے تو اس وقت میرے مزار سے نور کے فوار ے پھوٹ پڑیں گے۔ ‘‘
اس قول سے مراد بھی یہی ہے کہ گمراہی کے دور میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا کوئی غلام آپ کی روحانی راہنمائی میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی تعلیماتِ حق کو لے کر کھڑا ہوگا، گمراہی کو ختم کرے گا، دینِ حق کا بول بالا کرے گا اور دینِ حنیف پھر سے زندہ ہوجائے گا ۔
سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے پنجابی ابیات کے ذیل کے مصرعوں میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے:
چڑھ چناں تے کر رُشنائی، ذکر کریندے تارے ھوُ
گلیاں دے وِچ پھرن نمانے، لعلاندے ونجارے ھوُ
مفہوم: اے میرے فقر کے چاند! تو جلد طلوع ہو اور اپنی نگاہِ کامل سے اس دنیا کو جو ظلمت و تاریکی میں ڈوب چکی ہے،نورِ الٰہی سے منوّر کردے۔ طالبانِ مولیٰ حق تعالیٰ کی طلب میں اِس گمراہ دور میں بھٹک رہے ہیں اور تیرے جیسے ہادی کا انتظا ر کر رہے ہیں۔ تیرے منتظر یہ طالبانِ مولیٰ جو معرفت ِ الٰہی کے غواص اور جوہر شناس ہیں، در بدر تیری تلاش اور جستجو میں پھر رہے ہیں (یعنی حق کی تلاش میں کسی راہنما کی پیروی کرتے ہیں تو کچھ عرصہ بعد ہی وہ دھوکہ باز اور جعل ساز نکل آتا ہے یعنی ہے تو لومڑی لیکن شیر کی کھال پہن کرنقلی شیر بنا ہوا ہے اس لیے ہر شخص تیرے جیسے ہادی اور راہنما کا انتظار کر رہا ہے جو اُمت کی کشتی کو پار لگادے)۔
چڑھ چناں تے کر رُشنائی، تارے ذکر کریندے تیرا ھوُ
تیرے جیہے چن کئی سَے چڑھدے، سانوں سجناں باجھ ہنیرا ھوُ
جتھے چن اساڈا چڑھدا، اوتھے قدر نہیں کجھ تیرا ھوُ
مفہوم:اے فقر کے چاند (انسانِ کامل،فقیرِکامل)! تو جلد طلوع (ظاہر) ہو کر اس ظلمت کدہ کو اللہ کے نور سے منوّر کردے ۔طالبانِ مولیٰ اور مومنین تیرا ہی انتظا ر کررہے ہیں۔ سینکڑوں مصنوعی چاند تیرا روپ دھار کر طلوع ہو چکے ہیں اور اُمت کو دھوکہ دے چکے ہیں لیکن اے محبوب! تیرے بغیر یہ دنیا ظلمت کدہ ہے۔ جہاں ہمارا چاند (محبوب) طلوع ہوگا وہاں دوسرے (مصنوعی) چاند کی روشنی جو اصل میں ظلمت ہے‘ ختم ہوجائے گی اور یہ جو دھوکہ باز راہنما بن کر اُمت کو دھوکہ دے رہے ہیں، بھاگ جائیں گے۔
بے شک آپ مدظلہ الاقدس کی مبارک ہستی ہی فقر کا آفتاب بھی ہے اور چاند بھی جو اندھیروں کی روشنی ہے کیونکہ آپ ہی وہ ہستی ہیں جو گمراہی کے اس دور میں حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تعلیمات کو لے کر کھڑے ہیں، ان کی کتب کا اردو کے ساتھ ساتھ تاریخ میں پہلی بار انگریزی میں بھی ترجمہ کروا رہے ہیں اور اسے انٹرنیٹ اور ویب سائٹس کے ذریعے دنیا بھر میں عام کر رہے ہیں۔ لہٰذا مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی کے القاب بھی آپ مدظلہ الاقدس پر ہی صادق آتے ہیں۔
خاتون طالبِ مولیٰ شازیہ تبسم سروری قادری آپ کے القابات شاعری میں بہت خوبصورتی سے یوں بیان کرتی ہیں:
عاشقاں دا او سلطان سدیوے
فقر دا او آفتاب دسیوے
شبیہ او غوث الاعظم وکھیوے
سچا راہ سلطان محمد والا، جس وچ ربّ لبھیوے
خادم سلطان الفقر
یہ لقب آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ سے عشق اور ان کی بارگاہ میں عاجزی کے اظہار کے لیے خود اپنے نام کا حصہ بنایا تھا جیسا کہ حضرت احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت فضیل بن عیاضؒ سے درخواست کی کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں تو انہوں نے فرمایا ’’خادم بنو مخدوم نہ بنو کیونکہ خادم بننے میں ہی فضیلت ہے۔‘‘یہ لقب آپ مدظلہ الاقدس کے مرشد حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے وصال کے بعد تقریباً تیرہ سال تک آپ کے نام کا حصہ رہا۔
شانِ فقر
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک پر 21 جنوری 2017ء کی حاضری کے دوران سلطان محمد ناصر حمید جو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے ساتھ ابتدا سے ہیں، کو مطلع کیا گیا کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے آپ مدظلہ الاقدس کو ایک اور شاندار لقب سے نوازا گیا اور بتایا گیا کہ جس طرح آسمانوں اور عرش پر آپ مدظلہ الاقدس کا لقب ’’آفتابِ فقر‘‘ ہے اسی طرح تحت الثریٰ میں آپ کا لقب ’’شانِ فقر‘‘ ہے۔ اس لقب کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں بتایا گیا کہ آپ مدظلہ الاقدس کو شانِ فقر کا لقب اس لیے عطا کیا گیا کیونکہ حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد آنے والے کسی سروری قادری مرشد کامل اکمل کی شان اور ان کی پہچان لوگوں پر واضح نہ تھی۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے نہ صرف اس سلسلے کو اس کی صحیح پہچان بخشی بلکہ ہر سروری قادری مرشد کے ذکر کو لوگوں میں عام کیا۔ اسی لیے تمام اولیا نے فیصلہ کیا کہ آپ کو شانِ فقر کا لقب عطا کیا جائے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے جس وقت فقر کو پھیلانے کی ذمہ داری اٹھائی اس وقت فقر کی ظاہری عمارت بہت خستہ حال تھی۔ لوگ اس کی حقیقت سے بالکل ناواقف تھے۔ اس زمانے میں دین ِ حنیف کی وہی حالت تھی جو سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے زمانے میں تھی۔ جس طرح سیدّنا غوث الاعظمؓ نے اپنے زمانے میں فقر کی عمارت خوبصورتی سے تعمیر کی جس کی مثال آج بھی لوگ دیتے ہیں، آپ مدظلہ الاقدس نے بھی فقر کا اسی طرح نہایت مضبوط اور خوبصورت محل تعمیر کر دیا ہے ۔ فقر کو اس کا وہ عروج عطا کرنے پر جس کا وہ حقدار ہے، آپ مدظلہ الاقدس کو ’’شانِ فقر‘‘ کا لقب عطا کیا گیا۔
سلطان الذاکرین
’سلطان الذاکرین‘ حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا صفاتی لقب ہے جو آپ مدظلہ الاقدس کے اس کمال سے منسوب ہے کہ آپ اپنے تمام تر طالبوں کو بیعت کے فوراً بعد ذکر اسم اللہ ذات کا آخری اور اعلیٰ ترین ذکر سلطان الاذکار’’ھُو‘‘ عطا فرماتے ہیں۔ سلطان الذاکرین کا مطلب ہے ’’سلطان الاذکار ھُوکا ذکر کرنے والوں کے سلطان‘‘۔
ایک عام انسان جب اللہ تعالیٰ سے قرب و تعلق کا سوچتا ہے تو اسے عملی طور پر حاصل کرنے کے لیے ذکرِ اللہ اختیار کرتا ہے اور ذکر ِ اللہ ہی سے اس کا قلب سکون پاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (سورۃ الرعد۔28)
ترجمہ: خبردار ذکر اللہ (اسم اللہ ذات) سے ہی دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اذکار میں سب سے بلند اور بہترین ذکر اسم اللہ ذات کا ذکر ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشادِ مبارک ہے:
طَلْبُ الْخَیْرِ طَلْبُ اللّٰہِ وَ ذِکْرُ الْخَیْرِ ذِکْرُ اللّٰہِ
ترجمہ: بہترین طلب اللہ کی طلب ہے اور بہترین ذکر اللہ کا ذکر ہے۔
اسم اللہ ذات کے ذکر کی چار منازل ہیں اَللّٰہ ، لِلّٰہ ، لَہٗ اور ھُو۔ آخری اور انتہائی ذکر ھُوکا ذکر ہے جسے سلطان الاذکار کہتے ہیں یعنی تمام ذکروں کا سلطان۔
علامہ ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ھُوعارفین کا آخری اور اعلیٰ ترین ذکر ہے۔ (فتوحاتِ مکیہ جلد دوم، باب پنجم)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
از قبرِ باھوؒ ’’ھوُ‘‘ برآید حق بنام
ذاکراں را انتہا ’’ھوُ‘‘ شد تمام
ترجمہ: باھوؒ کی قبر سے ہر وقت ’’ھُو‘‘ کی صدا بلند ہوتی رہتی ہے کیونکہ ذکر ِ ’’ھُو‘‘ ذاکرین کا انتہائی ذکر ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ذکر ِ ھُوکے متعلق فرماتے ہیں:
لاھوت وہ جہان ہے جس کی حد پر معراج کی رات جبرائیل علیہ السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا تھا کہ اگر میں جبروت سے نکل کر لاھوت کی حد میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا تو جل جاؤں گا، یہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تنہا سفر فرمائیں۔ لاھوت لامکان میں دیدارِ الٰہی ہے اور یہاں داخلہ ذکرِ ھُوسے ہی ممکن ہے اور یہ انسان کا شرف ہے۔ (شمس الفقرا)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس روئے زمین پر وہ واحد ہستی ہیں جو اپنے ہر طالب مرید کو سلطان الاذکار ھُو کا ذکر ِپاس انفاس عطا فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ہی پہلی مرتبہ سلطان الاذکار ھُو کا ذکر عام کیا۔ اس سے قبل مشائخ سروری قادری یہ آخری اور انتہائی ذکر چنیدہ چنیدہ طالبانِ مولیٰ کو ہی عطا فرماتے تھے۔ آپ مدظلہ الاقدس کو لقب ’’سلطان الذاکرین‘‘ آپ کے حلقۂ مریدین نے دیا جنہوں نے آپ مدظلہ الاقدس سے یہ نعمت حاصل کی اور ہر لمحہ اس کو اپنی سانسوں میں محسوس کرتے ہیں۔
کسے بس ذکر گوید ھوُ ہویدا
وجودش می شود زاں نور پیدا
ترجمہ: جس شخص کے وجود میں ذکر ِ ھُوجاری ہو جاتا ہے اُس کا وجود نورِ ذات میں ڈھل جاتا ہے۔ (عین الفقر)
آپ مدظلہ الاقدس کے شبیہِ غوث الاعظم ہونے کی ایک دلیل آپ مدظلہ الاقدس کو ملنے والے القابات بھی ہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم کے بھی کثیر القابات ہیں جیسا کہ محی الدین، پیر دستگیر، بازِ اشہب، سلطان الاولیا، غوث الاعظم اسی طرح آپ مدظلہ الاقدس کے بھی ماشاء اللہ کثیر القابات ہیں۔ بلاشبہ یہ کسی بڑے روحانی انقلاب کی آمد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بڑی شانوں کو آپ مدظلہ الاقدس کی ذات میں جمع فرما دیا ہے۔