محاسن و اخلاق۔۔سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن
محاسن و اخلاق
اعلیٰ محاسن اور اخلاقِ حسنہ ایمان اور عشقِ الٰہی کی اساس ہیں۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے:
تم میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ شخص ہے جس کی عادات و اخلاق سب سے عمدہ ہوں۔ (بخاری شریف 3759)
تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ (بخاری شریف 6035)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ازل سے ہی بارِ امانت کے لیے منتخب شدہ تھے اور اس تفویض شدہ فریضہ کے لیے محاسن و اخلاق کا ہونا سورج میں تپش اور ستاروں کی چمک کی مانند ہے۔ ولایتِ عظمیٰ ایک انسان کا ربّ کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کا عمل ہے اور جہاں اس میں باطنی صفات اور روحانی کمالات اہم ہیں وہاں ظاہر میں سب سے زیادہ اہمیت محاسن و اخلاق کو حاصل ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنے اخلاق میں لائقِ تحسین و صد آفرین ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس منکسر المزاج ، سخی، کریم النفس، پرُتپاک اور سلیم الطبع ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس چاہے کسی بھی مسلک، فرقہ، مذہب یا طبقہ کے لوگوں سے ملیں آپ مدظلہ الاقدس کا اخلاق ہمیشہ سے عمدہ و عظیم ہے جو اپنے آپ میں بہترین مثال ہے۔
وفا اور قربانی
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس وفا اور قربانی کی سب سے اعلیٰ مثال اپنی تصنیف مبارکہ شمس الفقرا میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلانِ نبوت اور دعوتِ الی اﷲ کے جواب میں جن صحابہ کرامؓ نے لبیک کہا اور دل کی تصدیق کے ساتھ کلمہ طیب پڑھ کر ﷲ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے، ان پر مصائب اور تکالیف کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ جو مومن غریب و نادار اور غلام طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اُن پر پہلے روز سے تشدد کی چکیّ چلا دی گئی۔ انہیں اتنی شدت سے جسمانی، روحانی اور مالی اذیتیں دی گئیں کہ انسان اس کا تصور کر کے ہی کانپ اٹھتا ہے۔ مگر آفرین ہے صحابہ کرامؓ کی وفا اور قربانی پر کہ کسی قسم کا ظلم و ستم ان کو نہ تو راہِ حق سے ہٹا سکا اور نہ ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان کی وفا میں کوئی کمی آئی۔
جو مومن معاشرہ میں ذی عزت اور صاحبِ حیثیت لوگ تھے ان کو تحریص و ترغیب کے ذریعے دینِ حق سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر اکسایا گیا۔ انہیں طرح طرح سے دنیاوی جاہ و مال کے لالچ دیئے گئے مگر جب ان کے پائے استقلال میں ذرا سی بھی لغزش نہ آئی تو انہیں مختلف طریقوں سے ڈرایا دھمکایا گیا۔ ان سے کاروباری اور معاشرتی میل جول بند کر دیا گیا حتیٰ کہ ایک دور ایسا آیا کہ سارے اہلِ مکہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور تمام صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کا سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ متواتر تین سال تک مومنین کی یہ جماعت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی معیت میں ’’شعبِ ابی طالب‘‘ میں اہل ِمکہ کے سوشل بائیکاٹ کا شکار رہی۔ لیکن قربان جائیے ان کے جذبۂ ایمانی پر کہ سخت سے سخت تر حالات میں بھی ان کا ایمان متزلزل نہ ہوا۔ (شمس الفقرا)
عشق قربانی مانگتا ہے اور وفا کا طلبگار ہے، وفا بھی ایسی کامل جس میں لغزش نہ آئے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے راہِ حق کے لیے اس قدر قربانیاں دیں کہ جن کا تصور بھی عام انسان کے لیے محال ہے۔ ان تمام قربانیوں کا تذکرہ باب ’’خدماتِ مرشد‘‘ میں ہو چکا ہے۔ مختصر یہ کہ اپنا وقت، آرام و سکون، مال و دولت حتیٰ کہ اپنی صحت اور ذات سب کچھ نچھاور کر دیا اور اف تک نہ کی اور نہ ہی کسی بدلے کی تمنا رکھی بلکہ ہمیشہ مرشد کی خوشی میں سکون تلاش کیا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے مسند ِتلقین و ارشاد سنبھالتے ہی اپنے مرشد کے مشن کو اپنا نصب العین بنا لیا اور اس کو کامیاب بنانے میں آپ کی انتھک اور شبانہ روز محنت شامل ہے یعنی اپنے مرشد کی حیات میں وفا اور قربانی کی جو داستانیں رقم کیں ان کا سلسلہ مرشد کے وصال کے بعد بھی جاری ہے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس مریدین کے لیے بھی وفا کا پیکر ہیں۔اگرچہ کوئی مخلص راہِ فقر نہیں چھوڑتا کیونکہ اس میں کششِ عظیم ہے لیکن اگر کوئی بدبخت راہِ سلوک چھوڑتا ہے تو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی وفا کا یہ عالم ہے کہ آخری لمحہ تک وفا نبھاتے ہیں اور ہدایت کی طرف راہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔
تسلیم و رضا
تلاشِ حق کی سختیاں، طالبِ مولیٰ کی آزمائشیں یا مسندِتلقین و ارشاد کی بھاری امانت، آپ مدظلہ الاقدس کے چہرہ مبارک پر کبھی پریشانی کے آثار نظر نہیں آئے بلکہ آپ مدظلہ الاقدس ہمیشہ صدقِ دل سے ربّ العزت کی رضا پر راضی رہے اور سرِتسلیم خم رہا چاہے خوشی ہو یا غم، دکھ ہو یا سکھ، سکون ہو یا اضطراب، آسانی ہو یا تنگی، بیماری یا صحت، بھوک یا سیری ہر حالت میں اپنے مولیٰ سے راضی و خوش رہے۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین کا مشاہدہ ہے کہ باطنی قوتوں کے باوجود آپ اللہ ربّ العزت کی مرضی و منشا کے مطابق چلتے اور اس کی تلقین فرماتے ہیں۔
عجز و انکساری
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس آشنائے رازِ حقیقی، اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقرب و عاشق ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس امام الوقت، مجددِ دوراں اور قطب الاقطاب ہیں۔ باوجود عالی مرتبت ہونے کے آپ مدظلہ الاقدس عملی زندگی میں عاجز و حلیم اور اپنے آپ کو عام لوگوں کی سطح سے بھی نیچے رکھتے ہیں تاکہ مریدین بھی عجز و انکساری کو اپنی طبیعت کا خاصہ بنا لیں۔ آپ مدظلہ الاقدس مریدین و عقیدتمندوں کو عجز و انکساری کی نصیحت کرتے ہیں کیونکہ یہ صفت بارگاہِ الٰہی میں بے حد مقبول ہے اور فقر و تصوف میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔
تحمل و بردباری
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بردباری کی اعلیٰ مثال آپ کا بچوں کی نادانی، نوعمر کی ناسمجھی، نازک طبع کی پریشانی اور نفسانی شخص کی کوتاہیوں پر صبرِجمیل کرنا ہے۔ آپ کی فطرت میں نہ تو غیر منطقیت ہے اور نہ ہی جلدبازی کا عنصر۔ آپ محبت اور تحمل سے چاہنے والوں سے گفتگو فرماتے اور ان کے ظاہری و باطنی مسائل سنتے ہیں۔ تبسم آپ مدظلہ الاقدس کے چہرہ مبارک کا خاص وصف ہے چاہے مریدین اپنی بات مکمل کرنے میں آپ مدظلہ الاقدس کے قیمتی وقت کے کئی گھنٹے لے لیں۔
مخالفین کے وار پر بھی ہمیشہ تحمل، ہمت اور حکمت عملی کا مظاہرہ کیا۔ آپ کے تحمل و بردباری کی ایک مثال خانقاہ سلطان العاشقین کا انجان جگہ پر تعمیر کرنا ہے جہاں کے باسیوں نے آپ مدظلہ الاقدس کی ذات اور راہِ فقر پر طرح طرح کے تیر چلائے اور آنے والے مریدین کو روکنا اور ان پر آوازیں کسنا معمول بن گیا تھا۔ آفرین آپ کے تحمل پر کہ آپ نے آہستہ آہستہ ساری غلط فہمیاں دور فرما دیں، ان کو خانقاہ کی اہمیت سے آگاہ کیا اور اپنا بنا لیا۔
عفو و درگزر
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ۔ (سورۃ الشوریٰ۔ 43)
ترجمہ: اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بلاشبہ یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا خاصہ ہے کہ آپ مریدین اور عقیدتمندوں سے ناراض نہیں ہوتے اور بڑی چھوٹی ہر کوتاہی سے درگزر فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے طاقت ہونے کے باوجود کبھی دشمنانِ فقر سے بدلہ نہیں لیا بلکہ ہمیشہ عفو و درگزر اور حکمت و دانائی سے کام لیا جس سے مخالف بھی آپ سے مانوس و مشتاق ہو گئے۔
کئی مخالف سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی جماعت تحریک دعوتِ فقر میں ظاہر ہوئے جن کا مقصد صرف تحریک کو ذاتی غرض کے لیے استعمال کرنا یا نقصان پہنچانا تھا مگر ہر وار سے پہلے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے ان کو توبہ کا موقع دیا اور راہِ راست کی تلقین کی اور ان کے توبہ کر لینے پر انہیں فراخ دلی سے معاف فرما دیا البتہ کچھ اشخاص کے بضد رہنے پر سلطان العاشقین نے ٹھوس ثبوت کی بنا پر ان کو عہدوں سے برطرف کر دیا مگر ان کے عیوب کو مجلس کا موضوع کبھی نہیں بنایا۔
شفقت و محبت
باپ سے بھی زیادہ مہربان اور ماں سے بھی زیادہ شفیق سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ایک دردمند انسان اور بیابانِ دنیا میں بارانِ رحمت ہیں۔ آپ کڑکتی دھوپ میں پھل دار اور گھنے درخت کی مثل ہیں جو موسم کی سختیاں خود جھیلتا ہے اور سایہ میں بیٹھے ہوئے کو خبر بھی نہیں لگنے دیتا کہ وہ اس کے لیے کیا کچھ کر رہا ہے۔
مریدین اکثر آپ کی شفقت کا تذکرہ آپس میں اور گھروں میں کرتے ہی ہیں مگر یہی حال بچوں کا بھی ہے۔ نرسری کا بچہ ہو یا یونیورسٹی کا طالب علم، آپ مدظلہ الاقدس کی شفقت و محبت کا ذکر زبان زدِ عام ہے حتیٰ کہ آپ کی نرمی، صاف گوئی، حکمت اور ہمدردی کا ایک دوسرے سے سن کر مرد و خواتین آپ کی ہفتہ وار محفل نورِ مصطفیؐ میں آتے ہیں اور عظمت کا رعب اور شفقت کا تاثر لے کر جاتے ہیں۔
بچوں کی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے محبت
گیارہ سالہ ننھے ولی تبسم کی سالگرہ قریب تھی۔ اس سالگرہ میں اس نے والدین سے مرشد کریم کو سالگرہ پر بلانے کا مطالبہ کر دیا۔ جہاں مرشد کریم جاتے ہیں وہاں پروانوں کی طرح مقرب مرید بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اس لیے والد نے ولی کی اس خواہش پر ایک شرط رکھی کہ یا مرشد کریم کو سالگرہ پر مدعو کر لیتے ہیں یا ولی نے جو پلے سٹیشن (playstation) کی خواہش کی تھی وہ خرید لیتے ہیں۔ ولی نے ایک لمحہ ہچکچائے بغیر پلے سٹیشن کی خواہش چھوڑ کر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو دعوت پر مدعو کیا۔
جب کیک کٹا تب ولی کے ایک طرف اس کے والد تو دوسری طرف والدہ تھیں مگر کیک کٹتے ہی وہ مرشد کریم کی طرف دوڑا اور پہلا کیک کا ٹکڑا اپنے مرشد کو کھلایا۔اس کے بعد ہوا کچھ یوں کہ جب ولی تحائف کھول رہا تھا تو اس میں ولی کی مرحومہ پھوپھی کے بیٹوں کی طرف سے پلے سٹیشن بھی تحفہ میں موجود تھا۔ ننھے بچے نے مرشد کی خاطر جو خواہش قربان کی وہی اس کو تحفہ میں مل گئی۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنے ننھے عاشق و طالب ِمولیٰ کو مایوس نہ ہونے دیا۔
سلطان العاشقین کی شفقت سے کوئی محروم نہیں اور آپ مدظلہ الاقدس اتنے مہربان ہیں کہ بچوں کو بھی آپ مدظلہ الاقدس سے عشق ہو جاتا ہے۔
سخاوت
ایک عام انسان کا دل افسردہ اور آزمائش میں مبتلا ہو جاتا ہے جب اسے اپنے کمائے ہوئے مال یا جمع پونجی میں سے اللہ کی راہ میں کچھ دینا پڑ جائے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس جب بیعت ہوئے تو اپنے مرشد کے قدموں میں ساری جمع پونجی لا کر رکھ دی۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے مرشد سلطان الفقر ششمؒ کی ضروریات کی ہر ذمہ داری خود سنبھال لی۔ کپڑے، جوتے، گاڑی، گھر کا قیمتی سامان، ادویات حتیٰ کہ زمین بھی خرید کر ان کے نام کر دی۔ جب اپنی ساری دولت مرشدکے قدموں پر نچھاور کر چکے اور صرف تنخواہ پر بات آگئی تب بھی مرشد کا ہی اس پر پہلا حق جانا۔اسی سلسلہ میں ایک واقعہ درج ہے:
دسمبر 1998ء میں ایک بار سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ گھوڑا خریدنے لاہور تشریف لائے۔ اس وقت آپؒ کے پاس ایک لاکھ کی رقم کم پڑ گئی تو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اور ایک دوسرے مرید آپؒ کی بارگاہ میں رقم پیش کرنے کے لیے گھر سے لینے چلے گئے۔ سوئے اتفاق دونوں ایک ہی وقت رقم لے کر سلطان الفقر ششمؒ کی بارگاہ میں واپس پہنچے اور آپؒ کی بارگاہ میں اس رقم کو پیش کیا۔ آپؒ نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی رقم دائیں اور دوسرے ساتھی کی رقم بائیں ہاتھ میں پکڑ لی اور اپنے مرشد سلطان محمد عبدالعزیزؒ کا ایک واقعہ سنایا ’’ایک بار آپؒ سفر میں تھے کہ رقم ختم ہو گئی۔ آپؒ نے فرمایا کہ جو ہمیں واپسی کا کرایہ دے گا اللہ تعالیٰ اسے دولت سے مالا مال کر دے گا۔ ایک شخص نے اس زمانہ میں بیس روپے اِدھر اُدھر سے ادھار اکٹھے کر کے ان کی بارگاہ میں پیش کیے اس کے بعد وہ آدمی کروڑ پتی ہو گیا۔‘‘ اس موقع پر سلطان عبدالعزیزؒ کے ایک مرید بھی موجود تھے، انہوں نے عرض کیا کہ ان دونوں کے لیے بھی ایسی دعا فرمائیں۔ آپؒ نے ایک لمحہ سوچا پھر دوسرے ساتھی کی رقم ان کو لوٹا دی اور سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی رقم رکھ کر فرمایا ’’ان کو دولت نہیں دینی ہے، ان کے لیے ہم نے کچھ اور ہی سوچ رکھا ہے۔ ہاں ان کی جو بھی جائز ضرورت ہوگی اللہ تعالیٰ اسے پورا کرتا رہے گا اور کوئی ضرورت رکی نہیں رہے گی۔‘‘
سلطان الفقر ششمؒ کا بارِ امانت کی طرف اشارہ تھا اور جہاں تک ضروریات کی بات ہے، سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس دو خانقاہیں چلا رہے ہیں اور مسجدِزہراؓ کی تعمیر بھی ہو رہی ہے، اس کے علاوہ خانقاہ نشینوں کا خرچہ ہے، لنگر ہر وقت کھلا رہتا ہے، 100 سے زائد کتابوں کی اشاعت ہو چکی ہے اور مزید کی اشاعت جاری ہے، لاتعداد ویب سائٹس کام کر رہی ہیں۔ ہر اتوار محفل نورِ مصطفیؐ منعقد ہوتی ہے اور سالانہ دو عظیم الشان محافلِ میلاد بارہ ربیع الاوّل اور 21 مارچ کو منعقد ہوتی ہے جن میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین و حضرات شرکت فرماتے ہیں، سروری قادری مشائخ کے عرس مبارک پر بھی خاص محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے، یہ سب اخراجات ماشا اللہ پورے ہوتے ہیں۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس آنے والے تمام ہدایا و عطیات انہی اخراجات کے لیے دے دیتے ہیں اور جیب اکثر خالی ہوتی ہے۔ اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے۔ مریدین کی دل آزاری نہ ہو، اس لیے تحائف اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔آج کل کے دور میں ایک گھر چلانا اتنا مشکل ہے جبکہ ذریعہ آمدن نہ ہونے کے باوجود آپ مدظلہ الاقدس اتنا بڑا نظام چلا رہے ہیں۔ اگر کوئی صرف اس نکتہ پر غور و فکر کرے تب بھی آپ مدظلہ الاقدس کو مرشد کامل اکمل تسلیم کر لے۔
جدت پسند
جہاں علمائے ظاہر ترقی معکوس کی جانب گامزن ہیں وہاں انسانِ کامل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس تعمیر و ترقی کو سراہتے ہیں کیونکہ اللہ پاک خود زمانہ ہے اور جس سمت زمانے کا رخ ہو اسی طرف چلنا چاہیے ورنہ نسلیں نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔ حدیثِ قدسی ہے:
ابنِ آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانہ کو برا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔ (بخاری شریف 7491)
چونکہ خیر و شر ربّ العزت کی تخلیق ہے اور انتخابِ راہ بندہ کی دلیل ہے اس لیے زمانہ کی ایجادات کو برا کہنے کی بجائے ان کو اسلام کے رنگ میں رنگ دینا چاہیے جیسے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس جدید ذرائع ابلاغ مثلاً ٹک ٹاک (TikTok)، یوٹیوب (YouTube)، فیس بک (Facebook) وغیرہ پر اپنی ٹیم سے حمد، نعت، منقبت، تعلیماتِ فقر پر مبنی انگلش و اُردو مضامین وغیرہ نشر و پوسٹ کرا کے عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں۔آپ طالب ِعلم مرد و خواتین کو علم کے حصول اور تعلیم کو مکمل کرنے کی ہدایت دیتے ہیں اور اس کو پسند فرماتے ہیں۔ جو خواتین شوق یا مجبوری میں نوکری کرتی ہیں ان کو کبھی نہیں روکا بلکہ حوصلہ افزائی ہی کی ہے۔
سلطان العاشقین کا یہ نظریہ ہے:
کوئی ایسا مجدد جو دین کی روح کو جدیدیت کے اندر داخل کر سکے وہی اس نظام کو دوبارہ کھڑا کر سکتا ہے۔ مجدد وہ ہوتا ہے جسے اللہ علمِ لدنیّ عطا کرے اور وہ اسی علم کے مطابق دین کی تجدید کرتا ہے۔ اللہ اس کی بات خود لوگوں سے منوا لیتا ہے۔ وہ جدید دور کے مطابق اسلام کو زندہ کرنے اور ایسا نظام لائے جو تمام دنیا کے انسانوں کے لیے کشش رکھتا ہو تب ہی اسلام کو ساری دنیا میں عروج حاصل ہو سکتا ہے۔
صبر
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس صابر و شاکر اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے فقیر کامل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ذاتِ مطلق میں محو عبادت اور ہر لمحہ تفکر و مراقبہ کے عالم میں رہتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ربّ العزت سے ایسا مضبوط تعلق ہے کہ آپ کو مصائب و تکالیف پر بھی پیار آتا ہے۔ زندگی کی کسوٹی پر آپ مدظلہ الاقدس نے ہمیشہ صبر کیا حتیٰ کہ شعلے پھولوں کی پیتاں بن کر آپ کے قدم مبارک پر بکھر گئے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مصیبتیں انبیا کرام علیہم السلام پر آتی ہیں، پھر درجہ بدرجہ ان کے قریب لوگوں پر آتی ہیں۔ (مسند امام احمد بن حنبلؒ 27619)
آپ مدظلہ الاقدس اللہ کے مقرب ولی ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس پر جو آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں اگر کسی پہاڑ پر آتیں تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ہر مصیبت کو اللہ کی رضا سمجھ کر اس پر ایسا صبر کیا کہ ماتھے پر شکن بھی نہ آئی اور دل وصالِ الٰہی میں محو رہا۔
ترکِ دنیا و توکل
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ابھی سلک سلوک کی راہ پر چلے بھی نہ تھے اور دولت کی فراوانی تھی، باوجود اس کے آپ مدظلہ الاقدس کا دل دنیا سے بیزار اور خلوت پسند تھا۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَا ھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَھْوٌ وَّ لَعِبٌ ط وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ (سورۃ العنکبوت ۔64)
ترجمہ: یہ دنیا کی زندگی سوائے کھیل تماشا کے اور کچھ نہیں ہے۔ بے شک آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس نے کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ بھیجا اور رشتہ داروں کو بھی دے کر کبھی واپسی کا مطالبہ نہ کیا یعنی مال و دولت ہاتھ میں تھی نہ کہ دل میں۔
جس وقت آپ مدظلہ الاقدس کی نظر سلطان الفقر ششمؒ کے چہرہ اقدس پر پڑی آپ نے اپنا وقت، جان و مال سب کچھ مرشد کے نام کر دیا۔ صرف ایک نوکری رہ گئی جو آپ کے مرشد نے چھوڑنے کی اجازت نہ دی۔ بظاہر آپ مدظلہ الاقدس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی دنیا کے نہیں ہیں جیسا کہ ایک کشتی پانی پر تیرتی ہے مگر پانی (دنیا) کبھی کشتی (دل) کے اندر نہیں آتا۔
مسندِتلقین و ارشاد سنبھالتے ہی آپ نے کچھ عرصہ بعد (2013 میں) نوکری بھی چھوڑ دی۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ربّ العزت پر کامل توکل کا یہ عالم ہے کہ جیسے پرندے اپنا رزق ساتھ لے کر نہیں اڑتے، آپ مدظلہ الاقدس بھی کل تو کیا آج کے رزق کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور پالنے والے ربّ نے انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ آپ مدظلہ الاقدس اس آیت کریمہ کے مصداق ہیں:
وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ (سورۃ آلِ عمران۔160)
ترجمہ: مومنوں کو تو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔
جہدِمسلسل و استقامت
استقامت سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ایک ممتاز صفت ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زندگی جہد مسلسل ہے۔سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے پوری زندگی محنت کی چاہے غربت میں دھوپ میں گزرا بچپن ہو یا جوانی کی دن رات کی نوکری۔ آپ نے بحیثیت طالبِ مولیٰ بھی اپنے مرشد کے مشن کی کامیابی کے لیے ہر لمحہ وقف کیا۔ جب سے آپ مدظلہ الاقدس نے مسندِتلقین و ارشاد سنبھالی ہے آپ نے فقر کے کاموں کے لیے اپنی بقایا زندگی وقف کر دی چاہے وہ مریدین کی ظاہری و باطنی تربیت ہو، تحریک دعوتِ فقر کی ذمہ داریاں و معمولات ہوں یا کتب کی تالیف و تصنیف، آپ مدظلہ الاقدس کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے حتیٰ کہ ہفتہ کو بھی مریدین سے ملاقات اور مسجدِزہراؓ کے تعمیری معاملات کے جائزے میں اور اتوار کو محفل نورِ مصطفیؐ کے سلسلہ میں مصروف رہتے ہیں یعنی پورے ہفتے میں ایک دن بھی اپنے آرام کے لیے نہیں رکھا اور حیران کن طور پر اللہ کے کاموں میں کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔
محنتی لوگوں کے بارے میں ایک رائے عام ہے کہ بعض ورکاہولک (workaholic) ہوتے ہیں اور اپنے آپ اور اہلِ خانہ کو وقت نہیں دیتے۔ لطف والی بات یہ ہے کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہر کام میں توازن برقرار رکھتے ہیں اور اکثر تو اہم معمولات بھی ترک کر کے اہلِ خانہ کو وقت دیتے ہیں۔
عفت و حیا
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس میں کمال درجہ کی حیا ہے۔ آپ گفتگو و کردار دونوں میں بے حیائی کو ناپسند فرماتے اور اس سے روکتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زبانِ گوہر فشاں سے کبھی نازیبا و غیر مہذب جملہ تو کیا ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ کبھی بھی تہمد کے بغیر غسل نہیں فرمایا، ہمیشہ تہمد پہن کر غسل فرماتے ہیں۔ تنہائی میں بھی آپ نے کبھی کپڑے نہیں اتارے۔ خواتین جو ملاقات اور مسائل کے حل کے لیے آتی ہیں آپ مدظلہ الاقدس ان سے نظریں جھکا کر گفتگو فرماتے ہیں۔
وسعتِ علم
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا ظاہری علم اور معلوماتِ عامہ میں بھی کوئی ثانی نہیں۔ ہر طالب ِمولیٰ آپ مدظلہ الاقدس کے علم و خرد کی وسعت کے سحر میں مبتلا ہے۔ ہر سالک کسی نہ کسی موضوع میں دلچسپی رکھتا ہے اور جب وہ اس موضوع پر آپ مدظلہ الاقدس سے گفتگو کرتا ہے تو آپ مدظلہ الاقدس کو اس موضوع میں کامل پا کر حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔
فقہ، شریعت، تصوف، تاریخ یا اس کے نتائج و سبق، مشائخ کی حیات و تعلیمات، ملکی امور، صحافت، سیاست، ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، ویب سائٹ وغیرہ ماشا اللہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو ہر علم پر دسترس حاصل ہے اور آپ ظاہری و باطنی علوم کا گہرا سمندر و منبع ہیں۔
کم گوئی
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کم گو ہیں لیکن آپ کا کلام ہمیشہ جامع اور مکمل ہوتا ہے اور بسیارگوئی سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔ آپ کے لب مبارک سے کبھی کوئی لفظ بے مقصد و بے معنی نہیں نکلا۔ آپ مناسب، حق پر مبنی کلام فرماتے ہیں جو گوہر فشاں اور فیض بخش ہوتا ہے۔ اکثر جب سوال کیا جائے تو جواب کی صورت میں کلام فرماتے ہیں، خاص طور پر محافل میں آپ مدظلہ الاقدس کا مخصوص کلام بیشتر دلوں میں پوشیدہ سوالات کے جوابات ہوتے ہیں جو ہر مرید کو یکساں طور پر مطمئن کر دیتے ہیں خواہ ان کے سوالات اور مسائل بالکل مختلف ہوں۔ یہ ایک حیرت انگیز امر لیکن ایک مصمم حقیقت ہے جو آپ مدظلہ الاقدس کے انسانِ کامل کے بلند پایہ مرتبہ پر فائز ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اکثر جب کسی موضوع پر اظہارِ خیال فرماتے ہیں تو چند جملوں میں ہی اس کا احاطہ کر لیتے ہیں گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے ہنر میں بھی کامل ہیں۔
آپ مزاح بھی فرماتے ہیں جو دردمند سالک کے دل کو کھلتی ہوئی کلی کی چٹک کی مانند مسرت پہنچاتا ہے۔ آپ کا مزاح بھی مہذب، معقول اور میانہ روی کے سنہری اصولوں پر ہوتا ہے جو دل آزاری نہیں کرتا بلکہ موجبِ سکونِ دل ہوتا ہے۔ اکثر مزاح صرف مزاح نہیں بلکہ اس میں حکمت کے موتی پوشیدہ ہوتے ہیں یعنی آپ مدظلہ الاقدس کا کلام کبھی بے مقصد نہیں رہا۔
غریبوں پر شفقت
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے مریدین میں کافی تعداد غربا اور مساکین کی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس خندہ پیشانی سے ان سے ملاقات فرماتے، گلے لگاتے، ہاتھ ملاتے اور دعا کرتے ہیں۔ کوئی بھی غریب مرید آپ کی شفقت و محبت سے محروم نہیں بلکہ سب امیر غریب آپ مدظلہ الاقدس کی نظر میں برابر ہیں سوائے صاحب ِتقویٰ کے جو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہیں۔
رازداری
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے بیشمار مریدین ہیں جو اپنے دل کا بوجھ آپ مدظلہ الاقدس کے پاس تنہائی میں ہلکا کرتے ہیں۔ ایسے مریدین بھی ہیں جن کے لیے فقط تصورِ مرشد ہی باعثِ فرحت ہے کیونکہ وہ واقفِ راز ہیں کہ:
عارف کامل قادری بہر قدرتے قادر و بہر مقام حاضر
ترجمہ: عارف کامل قادری ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے۔ (رسالہ روحی شریف)
آپ مدظلہ الاقدس جہاں محبت اور علم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا عالیشان سمندر ہیں وہاں کبھی موجیں پرسکون بھی دکھائی دیتی ہیں مگر اس سمندر کی گہرائی کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں نہ صرف رازِ حقیقی کے خزانے پوشیدہ ہیں بلکہ اللہ کے بندوں کے بھی بے شمار راز دفن ہیں۔ آپ ان رازوں کے ایسے امین ہیں کہ چاہے اہل ِخانہ ہوں یا خاندان، حتیٰ کہ کسی مقرب کو بھی آپ مدظلہ الاقدس نے دوسرے کا راز کبھی نہیں بتلایا۔اس لیے آج بھی آپ مدظلہ الاقدس کے پاس بچے اور بڑے بلکہ جو بھی مریدین آتے ہیں بہت سے راز بتا کر اپنے دل کا بوجھ کم کرتے ہیں جو آپ کے لبوں پر کبھی نہیں آتے۔ سلطان العاشقین کے تمام مریدین کامل یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مرشد ان کے بھیدوں کے محافظ ہیں جن تک کسی دوسرے کو رسائی حاصل ہے نہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہر مرید پرسکون ہے اور دوسرے کو یہی ترغیب دیتا ہے کہ اگر دل بوجھل ہے تو مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین کے پاس چلے جاؤ۔
جو لوگ مریدین نہیں بلکہ عقیدتمند ہیں وہ بھی آپ کے پاس مشورہ لینے آتے ہیں اور اپنے ذاتی راز بتاتے ہیں جن میں پاکستان کی نامور شخصیات بھی شامل ہیں کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی رازداری مسلم اور تسلیم شدہ ہے۔
عظمت و احترام
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ذی وقار اور صاحبِ وجاہت ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی بارعب شخصیت کے سامنے حکمران، وزرا اور مشائخ بھی آنکھیں جھکا کر احترام سے بیٹھتے ہیں۔ یہ مناظر آپ مدظلہ الاقدس کی مجلس میں اکثر دیکھے گئے ہیں۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے تمام مریدین اور ملاقات کے لیے آنے والا ہر شخص عزت و احترام سے ملتا ہے اور آپ مدظلہ الاقدس سب سے فرداً فرداً ملاقات فرماتے ہیں چاہے وہ اتوار کو منعقد ہونے والی محفل نورِ مصطفیؐ ہو یا بڑی محافل میں آنے والے ہزاروں لوگ ہوں۔ اگر تھکاوٹ ہونے کے باوجود کوئی شخص دعا کے لیے روک لے تو آپ شگفتہ پیشانی سے بات سنتے اور دعا کرتے ہیں۔ محافل میں بااثر شخصیات آپ کی منتظر ہوتی ہیں جو احترام و عقیدت سے ملتی اور مسائل بیان کرتی ہیں۔
ہیبت و جلال
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس شیریں زبان، شائستہ مزاج اور پیکرِعجز و حیا ہیں لیکن ہیبتِ جلال کا یہ عالم ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کی محافل میں انتہائی نظم و ضبط اور سکوت کا عالم ہوتا ہے۔ مجلس میں کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ ادھر اُدھر جائے یا کوئی بات یا سرگوشی کرے۔ صرف سانسوں کی آواز ہوتی ہے۔
کوئی شخص بھی آپ مدظلہ الاقدس سے دورانِ گفتگو بے تکلفی میں بھی کوئی ناحق کلام، گستاخی اور غلط بیانی نہیں کرتا کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی شخصیت جلال و جمال کا ایسا حسین امتزاج ہوتا ہے کہ دوسرا ایسے الفاظ دل سے زبان تک نہیں لا پاتا۔
عالی ہمت
اصطلاحِ عام میں ہمت کے لیے پہاڑ کا استعارہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ انسانِ کامل کی عالی ہمت کا موازنہ کائنات کی کسی شے سے نہیں کیا جا سکتا کہ جس کام کا بوجھ اٹھانے سے پہاڑوں اور زمین و آسمانوں کی ہمت جواب دے گئی وہاں انسانِ کامل کا حوصلہ متزلزل نہ ہوا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ (سورۃ الاحزاب۔ 72)
ترجمہ: ہم نے بارِ امانت (امانتِ الٰہیہ) کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا سب نے اس کے اٹھانے سے عاجزی ظاہر کی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔
امانت سے مراد خلافتِ الٰہی یعنی نائبِ رسولؐ ہونا ہے۔
عام انسان پر جب ایک بھی مشکل آتی ہے تو وہ چیخ اٹھتا ہے۔ اگر ایک سے زیادہ مشکلات آجائیں تو اس کی ہمت و حوصلہ جلد ہی جواب دینے لگتے ہیں، اس کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں اور یہ صورتحال ناکامی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
لیکن سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی زندگی کی مشکلات اور مصائب کو دیکھا جائے تو حق یہ ہے کہ آپ کی پوری زندگی آزمائشوں سے عبارت ہے۔ انسان ورطۂ حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ کس طرح آپ مدظلہ الاقدس نے ہمت و حوصلے سے تمام مشکلات کا ناصرف ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ انہی کے ذریعے اس مشکل سے اپنی کامیابی کا راستہ بھی ہموار کیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آپ مدظلہ الاقدس نے بڑے بڑے خطرات مول لے کر اور اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر فقر کی بازی جیتی۔
آپ مدظلہ الاقدس کی عالی ہمت کی مثال اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ جب آپ نے مسندِتلقین و ارشاد سنبھالی تو ہر کوئی آپ کا مخالف تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اکیلے ایک کمرہ سے اپنا کام شروع کیا اور آج آپ مدظلہ الاقدس کی ہمت اور بلند حوصلے کی وجہ سے ساٹھ سے زائد ممالک میں آپ کے مریدین اور عقیدتمند لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔
چند موقعوں پر کچھ طاقتور اداروں کے ملازمین اپنے اختیارات و طاقت کا ناجائز و غیر قانونی استعمال کرتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس کی مخالفت پر اتر آئے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بلند حوصلہ اور ہمت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ آپ کہ بلند ہمتی دیکھ کر وہ گھبراہٹ کا شکار ہو گئے اور الٹے پائوں بھاگ گئے اور پھر آپ مدظلہ الاقدس کو ناجائز پریشان کرنے کی جرأت نہ کی۔
صاحبِ جمعیت و غنایت
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس صاحبِ جمعیت فقیر ہیں جو تمام باطنی مقامات سے گزر کر کامل وصالِ حق تعالیٰ حاصل کر چکے ہیں اور علم و معرفت کا گنج و خزانہ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس فنا فی اللہ بقا باللہ یعنی عارف باللہ ہیں اور اسی مقام کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (سورۃ یونس۔62)
ترجمہ: بیشک اولیا اللہ کو نہ تو کوئی غم ہوتا ہے اور نہ ہی خوف۔
یہاں وہ سکون اور اطمینان کی نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں۔حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مقامِ جمعیت تمام علوم کا جامع ہے کیونکہ اس میں حیّ القیوم ذات کی حقیقت کے تمام علوم پائے جاتے ہیں۔ وہ پانچ خزانے اور پانچ مقامات جن میں تمام نعمتوں کا تصرف پایا جاتاہے، یہ ہیں: اوّل مقامِ ازل اور اس کی نعمتوں اور خزانوں پر تصرف، دوم مقامِ ابد اور اس کی نعمتوں اور خزانوں پر تصرف، سوم مقامِ دنیا اور اس کی نعمتوں اور خزانوں پر تصرف یعنی زمین پر موجود دنیا کی نعمتوں اور اس کے تمام تصرفات کو اپنے ہاتھ میں لے آنا۔ چہارم مقامِ عقبیٰ اور اس کی نعمتوں اور خزانوں پر تصرف، پنجم مرتبہ جس کی نعمتیں، خزانے اور اس کے تصرفات سب سے اعلیٰ ہیں، وہ ہے حق تعالیٰ کا قربِ وحدانیت حاصل کر کے فنا فی اللہ بقا باللہ ہو جانا۔ یہ مکمل و کامل جمعیت ہے۔ (شمس العارفین)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس صاحبِ غنایت( غنایت غنا سے ہے۔ غنا کے لغوی معنی تونگری، دولت مندی، بے نیازی اور بے پروائی کے ہیں۔) ولیٔ کامل ہیں۔ آپ کا دل دنیا و عقبیٰ کی تمام نعمتوں اور مرتبوں سے سیر اور بے نیاز ہے۔ آپ باطنی مقام و مراتب حقداروں کو سخاوت سے عطاکرتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اس راہ (فقر) کی اصل قرب و وصالِ الٰہی ہے اور یہ راہ صاحبِ غنایت کی نظر و نگاہ سے حاصل ہو تی ہے اور صاحبِ غنایت دیدار عطا کرنے والے (مرشد کامل) کو کہتے ہیں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
صاحبِ یقین
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس حق الیقین کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ۔ (سورۃ الحجر۔ 99)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کی عبادت کرتے رہو حتیٰ کہ تمہیں یقین کامل (حق الیقین) ہو جائے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ذکر و تصور اسم اللہ ذات اور نگاہِ کامل سے مریدین کو یقینِ کامل عطا کرتے ہیں کیونکہ آپ خود معرفت و علم میں لاثانی اور کامل مکمل درجہ رکھتے ہیں۔ آپ عبادات و علم سے حق الیقین تک پہنچے اور اسی کی آپ تلقین کرتے ہیں۔
حکمت و دانائی
فرمانِ الٰہی ہے:
یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا (سورۃ البقرہ۔269)
ترجمہ: اللہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کر دیتا ہے اور جسے حکمت عطا کی گئی اسے خیر کثیر نصیب ہو گئی۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس حکمتِ الٰہیہ سے سرفراز و ممتاز ہیں۔ آپ وہ کامل ہستی ہیں کہ آپ کی نگاہِ فیض سے لوگوں کے قلوب پر علمِ لدنیّ عیاں ہوتا ہے۔ بطور فقیر کامل آپ کی حکمت و دانائی ایسی کامل ہے کہ آپ کو عالمِ کبیر اور کائنات کو عالمِ صغیر بنا دیتی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس معرفتِ الٰہی کے ایسے پیچیدہ نکات طالبانِ مولیٰ پر کھولتے اور ایسے ایسے مقامات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ عش عش کر اٹھتے ہیں۔ معرفت کی وہ گتھیاں سلجھاتے ہیں جو کتابوں میں بھی موجود نہیں۔ آپ سے گفتگو کے دوران طالبانِ مولیٰ معرفت و حکمت کے موتی چنتے ہیں جو ان کے لیے دین کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں بھی راہنما ثابت ہوتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس تحمل و بردباری اور حکمت و دانائی سے نتائج پر پہنچتے ہیں اور بہترین فیصلے فرما کر پیچیدہ معاملات کو پل بھر میں ایسے سلجھاتے ہیں کہ زمان و مکان میں مقید خرد دنگ رہ جاتی ہے۔ مخالفین سے بھی اس حکمت سے معاملات طے فرماتے ہیں کہ وہ آپ کی دانائی کے قائل ہو جاتے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس علم و حکمت کا گہرا سمندر اور علمِ لدنیّ کا گنج ہیں۔ اس لیے ہر طرح کے معاملہ پر آپ کا عمیق کلام نظریات و حقیقت کی ایسی جہتیں افشا کرتا ہے کہ ان کا ادراک عقل و دانش سے ناممکن ہے۔ آپ صرف صوفی عالم نہیں بلکہ عالمِ شریعت، طریقت، حقیقت و معرفت ہیں۔ نہ تو قلم آپ مدظلہ الاقدس کی سیرت کی تمام خوبیاں بیان کرنے کی جرأت کر سکتا ہے اور نہ اس میں اتنی وسعت ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کی حکمت و دانائی کو لکھ سکے۔
صدق
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (سورۃ توبہ۔119)
ترجمہ: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں (صادقین) کے ساتھ ہو جاؤ۔
الشیخ محمد عبدہٗؒ لکھتے ہیں:
صدیقین وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرت اور جن کا باطن ہر گرد و غبار سے یوں پاک صاف ہوتا ہے کہ جب ان پر حق پیش کیا جاتا ہے تو بے ساختہ اس کو قبول کر لیتے ہیں۔ خیر و شر کے درمیان انہیں التباس نہیں ہوتا بلکہ نگاہ جیسے سیاہ و سفید کے درمیان بے تکلف امتیاز کر لیتی ہے اسی طرح وہ حق و باطل اور خیر و شر میں امتیاز کر لیتے ہیں۔ صدیقیت کا یہ مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کئی جید صحابہؓ کو حاصل تھا اور صدیقِ اکبر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ اسی صدیقیت ِکبریٰ کا مظہرِ اُتم ہے۔ (تفسیر روح البیان)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
انبیا کے بعد صدیقین کو اس لیے رکھا گیا ہے کہ ہر کسی کو صحبتِ نبوت نصیب نہیں ہو سکتی۔ اب قیامت تک کوئی قطبیت، غوثیت اور عبدیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر کیوں نہ فائز ہو جائے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ادنیٰ سے ادنیٰ صحابیؓ کی گردِ پا کو بھی نہیں پا سکتا۔ یہ شرفِ صحابیت قیامت تک بند ہو گیا۔ جب ظاہری صحبت کا دور ختم ہو گیا تو آنے والے ادوار کے لیے اُمت کو صدیق (مرشد کامل اکمل، کامل فقرا) عطا فرما دئیے۔ جو کوئی ان کی صحبت میں رہے گا اسے بالواسطہ صحبتِ نبویؐ کا فیض حاصل ہوگا۔ (شمس الفقرا)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس صدیق یعنی مرشد کامل اکمل اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے عارف باللہ فقیر ہیں۔ ہر مشکل و طوفان میں آپ نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے صدق و اخلاص کی بدولت سلطان الفقر ششمؒ نے آپ کے متعلق فرمایا:
’’ہم فقر کا عنوان ہیں اور آپ اس کی تفصیل ہوں گے۔‘‘
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے مرشد کے ان الفاظ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا اور اپنے صدق کی بدولت اس راستے میں آنے والی ہر مشکل سے ٹکرا گئے۔ آپ نے راہِ فقر میں جو بھی عمل کیا اور جو بھی قربانیاں دیں مکمل صدق اور خلوص سے دیں اسی لیے وہ فوراً بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئیں۔ چنانچہ آپ اپنے صدق و اخلاص کے باعث مرشد کے محبوب بن گئے۔
آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کی ظاہری صحبت میں صرف پانچ سال گزارے اور اپنے بے پناہ صدق و خلوص کی بنا پر پہلے تین سالوں میں ہی آپ مدظلہ الاقدس بارِ امانت کے لیے منتخب ہو گئے اور بقیہ دو سالوں میں آپ مدظلہ الاقدس کی تربیت بھی مکمل ہو گئی۔
جب سے آپ مدظلہ الاقدس مسندِتلقین و ارشاد پر فائز ہوئے ہیں تب سے باطل قوتیں آپ کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں لیکن آپ مدظلہ الاقدس ان سب کے سامنے چٹان بن کر حق اور سچ پر قائم ہیں۔