سلطان العاشقین کی گھوڑوں سے محبت اور عقیدت

Rate this post

سلطان العاشقین کی گھوڑوں سے محبت اور عقیدت

اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر گھوڑے پالنا نہ صرف انبیا کرام ؑ بلکہ اولیا اور فقرا کاملین کی سنت بھی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گھوڑوں سے محبت سے متعلق بہت سی احادیث روایت میں آتی ہیں۔ 

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے جب 26 دسمبر 2003ء کو اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد سلسلہ سروری قادری کی مسند ِتلقین و ارشاد سنبھالی تو اس وقت زمانہ تیز رفتاری سے ترقی اور ایجادات کے نئے افق چھو رہا تھا۔ سوشل میڈیا ذرائع تیزی سے پھیل رہے تھے، لوگوں کا رجحان دین سے ہٹ کر دنیا کی طرف ہو چکا تھا اور جعلی و ناقص پیروں کی وجہ سے لوگ سلاسلِ طریقت سے بھی برگشتہ ہو چکے تھے۔ ایسے میں ضروری تھا کہ تصانیف کے ذریعے لوگوں کے شکوک و شبہات کو دور کیا جائے اور انہیں دنیاداری سے دین کی اصل روح یعنی فقر کی طرف لایا جائے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ماہنامہ سلطان الفقر کے اجرا کے ساتھ ساتھ تصانیف میں مشغول رہے۔ اس دوران شہر شہر قریہ قریہ فیض ِاسم اللہ ذات تقسیم کرنے کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے تبلیغی دوروں کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور لاکھوں لوگوں کو فیضِ فقر سے مستفیض فرمایا۔

 تاہم گھوڑوں پالنے کی خواہش سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دل میں شدت سے موجود تھی۔ ایسا کس طرح ممکن ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلہ فقر کے وارث اور حاملِ امانتِ الٰہیہ مرشد کامل اکمل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع میں گھوڑے نہ پالیں۔ چونکہ خانقاہ سلسلہ سروری قادری شہری حدود میں واقع تھی اور شہری ماحول میں جانور رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ خانقاہ سروری قادری میں گھوڑے رکھنے کا مناسب انتظام بھی نہیں تھا۔ تاہم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اکثر اپنی مجالس میں گھوڑوں کے متعلق گفتگو فرمایا کرتے جس سے آپ کی گھوڑوں سے محبت کا اظہار ہوتا۔ 

تصانیف کا کام پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد جب سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مرکزِفقر قائم کرنے کا حکم ملا تو آپ مدظلہ الاقدس نے رنگیل پور شریف براستہ سندر اڈا ملتان روڈ لاہور میں مسجدِزہراؓ اور اس سے ملحقہ خانقاہ سلطان العاشقین کی بنیاد رکھی۔ اس وقت سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اتباعِ رسول اور اتباعِ مرشد میں گھوڑے رکھے۔ اس نیک مقصد کی خاطر آپ نے خانقاہ سلطان العاشقین کے قریب ایک اصطبل خصوصی طور پر تیار کروایا اور سب سے پہلا گھوڑا جو آپ مدظلہ الاقدس کے اصطبل کی زینت بنا اسے آپ نے اطلس نام دیا۔ 

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس گھوڑوں کی خوراک، ان کے مسائل اور بیماریوں کے متعلق مکمل آگاہی رکھتے ہیں اور اس حوالے سے اصطبل کے نگران کو بھی وقتاً فوقتاً ہدایات جاری فرماتے ہیں۔ سالانہ عظیم الشان محافل میلادِ مصطفیؐ کے موقع پر خاص طور پر تمام گھوڑوں کو خوبصورت انداز میں سجا کر پنڈال کے سامنے باندھا جاتا ہے۔ طالبانِ مولیٰ محفل کے اختتام تک ان کی زیارت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

گھوڑے رکھنے کی عظمت اور فضیلت میں آیات اور کثیر احادیث بھی منقول ہیں جو ذیل میں تحریر کی جا رہی ہیں۔  

گھوڑوں کی عظمت قرآن پاک میں

گھوڑا وہ واحد جانور ہے جس کی اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں قسم کھائی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ الْعٰدِیٰتِ ضَبْحًا۔  فَالْمُوْرِیٰتِ قَدْحًا۔(سورۃ العٰدیٰت 1-2)
ترجمہ:قسم ہے ان (گھوڑوں) کی جو دوڑتے ہیں۔ ان کے سینے سے آواز نکلتی ہے اور جب ان کے سمُ (پاؤں) پتھروں پر پڑتے ہیں تو ان سے چنگاریاں نکلتی ہیں۔ 

عربوں میں معروف ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام پہلے شخص تھے جو گھوڑے پر سوار ہوئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ آپ کو گھوڑوں سے خاص شغف تھا۔ آپ کے پاس ایک ہزار گھوڑے تھے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو ورثے میں ملے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی فرمایا کرتے تھے ’’مجھے میرے والد سے ورثے میں عزیز ترین مال یہی گھوڑے ملے ہیں۔‘‘

حضرت سلیمان  علیہ السلام کا گھوڑوں سے محبت کا ایک واقعہ قرآن پاک میں بیان ہوا ہے:
ترجمہ: اور داؤد ( علیہ السلام) کو ہم نے (حضرت) سلیمان ( علیہ السلام) جیسا بیٹاعطا کیا بہترین بندہ، کثرت سے اپنے ربّ کی طرف رجوع کرنے والا اور جب تیسرے پہر اس (حضرت سلیمان  علیہ السلام) کے سامنے خوب سَدھے ہوئے تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے جن کو روکییٔ تو تین پاؤں پر کھڑے ہوں چوتھے سم کا کنارہ زمین پر ٹکائے ہوئے۔ چلائیے تو ہوا ہو جائیں۔ تو حضرت (سلیمان   علیہ السلام) نے کہا کہ مجھے ان گھوڑوںکی محبت پسند آئی اپنے ربّ کی یاد کے لیے۔ پھر انہیں چلانے کا حکم دیا یہاں تک کہ نگاہوں کے پردے میں چھپ گئے (بہت دور چلے گئے)۔ پھر حکم دیا کہ میرے پاس واپس لاؤ اور جب واپس لائے گئے تو ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنے لگے۔ (سورۃ ص: 30-33)

گھوڑوں کی فضیلت احادیث مبارکہ میں

سیدّنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’روزِ قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رکھ دی گئی ہے۔‘‘ (مسند احمد 5200)

جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہتے ہیں’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا آپ ایک گھوڑے کی پیشانی کے بال انگلی سے ملتے ہوئے فرما رہے تھے قیامت تک گھوڑوں کی پیشانی کے ساتھ برکت بندھی ہوئی ہے یعنی ثواب اور غنیمت۔‘‘ (صحیح مسلم 4847)

سیدّنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’روزِ قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ خیر اور مقصود و مطلوب وابستہ کر دیا گیا ہے اور ان کے مالکان ان پر سوار ہو کر سختیاں جھیلتے ہیں، پس تم لوگ گھوڑوں کی پیشانیوں کو چھوا کرو اور ان کے لیے برکت کی دعا کیا کرو اور ان کو قلادے ڈالو، لیکن وہ تانت کے نہ ہوں۔‘‘ (مسند احمد14851)

سیدّنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی انگلیوں کے ساتھ گھوڑے کی گردن کے بال ہٹاتے اور فرماتے ’’قیامت کے دن تک گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ خیر یعنی اجر اور غنیمت وابستہ کر دی گئی ہے۔‘‘ (مسند احمد 19410)

گھوڑوں کی خدمت و اکرام کی فضیلت

عربوں کے شرفا اور قبیلوں کے سردار گھوڑوں کی خدمت خود کیا کرتے تھے۔ وہ یہ کام خدام اور غلاموں سے نہیں لیتے تھے۔ عربوں کے حکما کہا کرتے تھے کہ قبیلوں کے سردار اور شرفا کیلئے تین کام کرنے میں عار نہیں: والد، مہمان اور گھوڑے کی خدمت۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گھوڑے کی خدمت اور اکرام کی بہت زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے۔

سیدّنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس کے وعدے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی راہ میں ایک گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا سیر ہونا، سیراب ہونا، پیشاب اور لید، یہ سب چیزیں روزِ قیامت اس کے ترازو میں نیکیاں ہوں گی۔‘‘ (مسند احمد 8853)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص نے اللہ پر ایمان لاتے ہوئے اور اس کے وعدے کو سچا جانتے ہوئے اللہ کی راہ میں گھوڑا باندھا (یعنی گھوڑا رکھا) تو اس کی شکم سیری اور سیرابی، اس کی لید اور اس کا پیشاب روزِ قیامت اس کے میزان (نیکیوں کے پلڑے) میں ہوں گے۔‘‘ (بخاری 2853)

روح بن زنباع فرماتے ہیں کہ میں حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہٗ کی زیارت کے لیے گیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اپنے گھوڑے کے لیے ’’جو‘‘ صاف فرما رہے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہٗ کے اردگرد آپ کے اہل خانہ ہیں۔ میں نے عرض کیا ’’کیا ان گھر والوں میں سے کوئی ایسا نہیں جو آپ کی طرف سے اس کام کو سر انجام دے سکے؟‘‘ انہوں نے فرمایا ’’کیوں نہیں! لیکن میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص اپنے گھوڑے کے لیے ’جو‘صاف کرے گا اور اس کے لیے (کھانے والی تھیلی میں) لٹکا دے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر دانے کے بدلے نیکی عطا فرمائے گا۔‘‘ (مسند احمد 5197)

 سیدّنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے گھوڑے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’روزِ قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ خیر وابستہ کر دی گئی ہے، گھوڑا کسی کے لیے اجر ہوتا ہے، کسی کے لیے پردہ اور کسی کے لیے گناہ۔ جو گھوڑا باعثِ اجر ہو تا ہے، وہ وہ ہوتاہے، جس کوآدمی اللہ کی راہ کی خاطر پالتا ہے، ایسا گھوڑا جو کچھ کھاتا ہے، اس میں بھی اس کے مالک کے لیے اجر ہے اور جب وہ ایک دو ٹیلوں تک چلتا ہے تو اس کے ہر ہر قدم کے بدلے مالک کے لیے اجر ہوتا ہے، اگر سامنے نہر آ جائے اور وہ اس سے پانی پی لے تو وہ جو پانی پیتا ہے اس کے ہر ہر قطرے کے عوض مالک کو ثواب ملتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی لید اور پیشاب کے اجر وثواب کا بھی ذکر کیا۔‘‘ (مسند احمد 8965)

 سیدّنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہٗ ، سیدّنا سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہٗ سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ اللہ کی راہ والے گھوڑے پر خرچ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے صدقہ کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو پھیلا رکھا ہو اور وہ ان کو بند کرنے والا نہ ہو۔ (مسند احمد5198 ،17768)

سیدّہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’گھوڑوں کی پیشانیوں کے ساتھ قیامت کے دن تک، یعنی ہمیشہ کے لیے خیر وابستہ کر دی گئی ہے، پس جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی راہ کے لیے تیاری کرتے ہوئے گھوڑا باندھا اور اسی کے راستے کی خاطر ثواب کی نیت سے اس پر خرچ کیا تو اس گھوڑے کا سیر ہونا، بھوکا ہونا، سیراب ہونا، پیاسا ہونا اور اس کا پیشاب، یہ سب چیزیں قیامت کے دن اس کے ترازوں میں کامیابی کا باعث ہوں گی، لیکن جس نے گھوڑے کو ریاکاری، شہرت اور اتراہٹ کے لیے پالا تو اس کے سیر ہونے، بھوکا رہنے، سیراب ہونا، پیاسا ہونا اور اس کی لید اور پیشاب، یہ سب چیزیں قیامت کے دن اس کے ترازوں میں خسارے کا باعث بنیں گی۔‘‘ (مسند احمد 28126)

گھوڑوں کی خدمت اور اکرام میں اس قدر احادیث وارد ہونے کے باعث سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس گھوڑوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ گھوڑوں کی خدمت پر مامور طالبانِ مولیٰ کو بھی اسی بنا پر عزیز رکھتے ہیں۔ اصطبل میں تشریف لے جاتے ہی خدمتگاروں سے گھوڑوں کے متعلق استفسار فرماتے ہیں، ان کی غذا کے شیڈول اور دیگر امور کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔ مریدین کو اکثر نصیحت فرماتے ہیں کہ یہ گھوڑے اللہ کی رضا کی خاطر رکھے ہوئے ہیں نہ کہ شوق کی خاطر، اس لیے محض اللہ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ان کی خدمت دل و جان سے کریں اور ان کے آرام اور خوراک میں کسی بھی قسم کی کوتاہی سے پرہیز کریں۔ 

گھڑ دوڑکی فضیلت

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس قدمِ محمدؐ پر ہیں اس لیے آپ کا ہر ہر قدم اتباعِ رسولؐ میں اٹھتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس سنتِ نبوی اور سنتِ مرشد کی اتباع میں گھڑ دوڑ بھی نہایت شوق سے ملاحظہ فرماتے ہیں۔ اس کے لیے خصوصی طور پر خانقاہ سلطان العاشقین کے عقب میں ایک جگہ مقرر کی گئی ہے جہاں گھوڑوں کی دوڑ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ گھڑ دوڑ کے حوالے سے ذیل میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں :
امام احمد بن حنبلؒ نافع سے اور وہ حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے گھڑ دوڑ کا مقابلہ کرایا اور پانچویں برس میں داخل ہونے والے گھوڑوں کی منزل دور مقرر کی۔ (ابوداؤد2577)

حضرت ابواسحاق رضی اللہ عنہٗ نے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کروائی جنہیں تیار کیا گیا تھا۔ یہ دوڑ مقامِ حفیا سے شروع کرائی اور ثنیۃ الوداع اس کی آخری حد تھی۔ (ابواسحاق نے) ابوموسیٰ سے پوچھا کہ اس کا فاصلہ کتنا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ چھ یا سات میل۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ بھی کروائی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا۔ ایسے گھوڑوں کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے شروع ہوئی اور حد مسجد بنی زریق تھی۔ پوچھا گیا اس میں کتنا فاصلہ تھا؟ انہوں نے کہا تقریباً ایک میل۔ ابن ِعمر رضی اللہ عنہٗ بھی دوڑ میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے۔ (بخاری 2870)

امام مالک نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسے گھوڑوں کی حفیا کے مقام سے دوڑ کروائی جنہیں فالتو چربی زائل کر کے سبک اندام بنایا گیا تھا۔ ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع تک تھی اور جن کو سبک اندام نہ بنایا گیا تھا ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ بھی ان میں شامل تھے جنہوں نے گھوڑے دوڑائے۔ (صحیح مسلم4843)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم   کے گھوڑے

جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام گھوڑوں کو بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کے پاس بہت سے گھوڑے تھے۔ ذیل میں ان کا ذکر ترتیب سے کیا جاتا ہے:
1۔ السکب (تیز رفتار): یہ سفید پیشانی والا سرخ و سیاہ گھوڑا تھا جس کے بائیں پائوں پر سفید لکیر تھی۔ ابنِ تاثیر کہتے ہیں کہ یہ سیاہ رنگ کا تھا۔ یہ سب سے پہلا گھوڑا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی ملکیت میں آیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  نے اسے ایک بدو سے دس اوقیہ چاندی کے عوض خریدا تھا۔ آپ   صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سب سے پہلے اس پر غزوۂ احد میں شرکت فرمائی تھی۔ اس دن مسلمانوں کے پاس حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہٗ کے گھوڑے اور السکب کے علاوہ کوئی تیسرا گھوڑا نہیں تھا۔
2۔ المرتجز (رجز پڑھنے والا): اس کا یہ نام اس کی نظم پڑھنے جیسی خوبصورت ہنہناہٹ کی وجہ سے پڑا۔ یہ سیاہ اور سفید رنگ والا تھا۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ یہ اصیل گھوڑا تھا۔
3۔ اللحف (لپٹنے والا): یہ نام اس لیے پڑا کہ وہ لمبی (غاندار) دم والا تھا گویا کہ وہ اپنی دم کو زمین پر بچھانے والا تھا۔ یہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کی خدمت میں ربیعہ بن ابو البراء یا فردہ بن عمر و الجزامی نے پیش کیا تھا۔
4۔ اللزاز(چمٹنے والا): گویا کہ وہ اپنی تیزی کی وجہ سے اپنی منزل سے فوراً چمٹ جانے والا تھا۔ یہ گھوڑا مقوقس نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔
5۔ الظرب (ٹیلا۔ چھوٹا پہاڑ): یہ دیو ہیکل اور مضبوط گھوڑا تھا۔ فردہ بن عمرو نے بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔
6۔ الورد (سرخ زردی مائل): یہ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہٗ نے بطور ہدیہ پیش کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم   نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہٗ کو عطا فرمایا اس کا یہ نام اس کے رنگ کی وجہ سے پڑا۔
7۔ سبحہ (تیرنے والا): اس کی تیز رفتار اور خوبصورت آرام دہ چال کی وجہ سے یہ نام پڑا۔

حافظ شریف الدین الدمیاطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کے مذکورہ بالا سات گھوڑوں کے بارے میں سب کا اتفاق ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  زیادہ سواری السکب پر فرماتے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع میں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے بھی اپنے گھوڑوں کو نام دیئے ہیں۔ جن کے نام شہباز، کبوترا، چن، شیردل، نگینہ اور اطلس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے عشقِ مرشد کی بنا پر سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے گھوڑوں کے نام پر اپنے گھوڑوں کے نام رکھے ہیں۔ 

گھوڑے پالنے کے اسباب

اکثر کم فہم لوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے گھوڑے پالنے کو دنیاداری اور شوق سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ذیل میں گھوڑے پالنے کی فضیلت میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں تاکہ کم فہم لوگوں کے علم میں اضافہ ہو سکے۔ 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر بندھی ہوئی ہے، گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک گھوڑا وہ ہے جو آدمی کے لیے باعثِ اجر ہے، ایک وہ گھوڑا ہے جو آدمی کی (عزت و وقار) کے لیے پردہ پوشی کا باعث ہے اور ایک گھوڑا وہ ہے جو آدمی کے لیے باعثِ گناہ ہے۔ وہ آدمی جس کے لیے گھوڑا باعثِ اجر ہے وہ ایسا شخص ہے جو اس کو اللہ کی خاطر رکھتا ہے اور اسی کے لیے تیار کرتا ہے، یہ گھوڑا اس شخص کے لیے باعثِ اجر ہے، اس کے پیٹ میں جو چیز (خوراک) بھی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اجر و ثواب لکھ دیتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی1636)

 عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہوتے ہیں، ایک گھوڑا رحمن کیلئے ہوتا ہے، ایک انسان کیلئے اور ایک شیطان کیلئے ہوتا ہے، رحمن والا گھوڑا وہ ہے، جس کو اللہ تعالیٰ کے راستے کیلئے باندھا جاتا ہے، پس اس کا چارہ بلکہ لید اور پیشاب، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی بہت سی چیزوں کا ذکر فرمایا، سب چیزوں میں اجر ہے۔ شیطانی گھوڑا وہ ہے جس پر جوا کھیلا جاتا ہے اور (جاہلیت کے طریقوں کے مطابق) بازیاں لگائی جاتی ہیں اور انسانی گھوڑا وہ ہے، جس کو انسان اس مقصد کیلئے باندھتا ہے کہ اس کے بچے پیدا ہوں اور حاجت پر پردہ پڑا رہے (یعنی اس کے ذریعے گھر کی ضرورتیں پوری ہوتی رہتی ہیں)۔ (مسند احمد 3756)

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے تمام گھوڑے بھی نہایت قیمتی اور اعلیٰ نسل کے ہیں او رمحض اللہ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خوشنودی اور رضا کی خاطر رکھے گئے ہیں نہ کہ شوق اور دنیا داری کی خاطر۔

گھوڑوں کو دعا کی اجازت

معاویہ بن حدَیج سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ہر عربی گھوڑے کو ہر فجر کے وقت دو دعائیں کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، پس وہ کہتا ہے: اے اللہ! تو مجھے بنی آدم میں سے جس کے سپرد کرے، مجھے اس کے اہل اور مال سے بڑھ کر اس کا محبوب بنا دے۔ ‘‘ (مسند احمد21829)

ابو شماسہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں : معاویہ بن حدَیج، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہٗ کے پاس سے گزرے اور وہ اپنے گھوڑے کے پاس کھڑے تھے۔ انہوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ تو بس اپنے گھوڑے کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہٗ نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ اس گھوڑے کی دعا قبول ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’چوپائیوں میں سے ایک چوپائے کی دعا کی کیا حقیقت ہوتی ہے؟‘‘ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہٗ نے کہا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! نہیں ہے کوئی گھوڑا، مگر وہ سحری کے وقت یہ دعا کرتا ہے: اے اللہ! تو نے مجھے اپنے بندوں میں ایک بندے کے سپرد کر دیا ہے اور میرا رزق اس کے ہاتھ میں رکھ دیا ہے، اب مجھے اس کے اہل، مال اور اولاد سے بڑھ کراس کا محبوب بنا دے۔‘‘ (مسند احمد 21773)

گھوڑوں کی تحقیر سے ممانعت

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے گھوڑوں کی تذلیل و تحقیر کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔ آپ نے گھوڑوں کی دم کاٹنے سے، خصی کرنے سے اور پیشانی کے بال کاٹنے سے بھی منع فرمایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گھوڑے کی فطرت میں اِترانا شامل ہے۔ ایسا کرنے سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔حدیث مبارکہ ہے:
سیدنا عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے گھوڑے کی گردن کے بال، دم کے بال اور پیشانی کے بال کاٹنے سے منع کیا اور فرمایا: گھوڑوں کی دُمیں (مکھیوں وغیرہ کو) ہٹاتی ہیں، گردن کے بال ان کو سردی سے بچاتے ہیں اور پیشانیاں، کیا بات ہے ان کی کہ اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت تک خیر کو ان کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ (مسند احمد17790)

گھوڑا ایک حساس جانور ہے جو انسانی رویے کو محسوس کرتا اور ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ وہ ناصرف اپنے مالک کو پہچانتا ہے بلکہ جو سکھایا جائے اسے سیکھ کر اس پر بخوبی عمل بھی کرتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے سختی سے گھوڑوں کو خصی کروانے اور ان کے بال کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی طرف سے گھوڑوں کی خدمت اور دیکھ بھال پر مامور طالبانِ مولیٰ کے لیے خصوصی طور پر ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ کوئی بھی ایسا عمل اور رویہ نہ اختیار کیا جائے جن سے گھوڑوں کو تکلیف پہنچے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پسندیدہ گھوڑے

ابو قتادہ رضی اللہ عنہٗ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ’’ بہترین گھوڑا وہ ہے جو سیاہ ہو اور اس کی پیشانی پر تھوڑی سی سفیدی ہو،اس کا اوپر والا ہونٹ یا ناک سفید ہو ،پھر وہ جس کی تین ٹانگیں سفید ہوں اور آگے والی دائیں ٹانگ گھوڑے کے رنگ کی ہو، اگر سیاہ رنگ کا نہ ہو تو پھر وہ جس میں قدرے سرخی اور قدرے سیاہی ہو اور اس کے کان سیاہ ہوں وہ بھی اس کی مثل ہے۔‘‘ (جامع ترمذی 1696)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’سرخ رنگ کے گھوڑے میں برکت ہے۔‘‘ (ابو داؤد 2545)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے گھوڑوں میں سیاہ، سرخی مائل سیاہ، سفیداور سرخ گھوڑے شامل ہیں۔یہ تمام گھوڑے نہایت خوبصورت، دلکش اور تنومند ہیں۔ (گھوڑوں کے متعلق تفصیل آگے  بیان کی جا رہی ہے)

اولیا کاملین کے گھوڑے

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے اصطبل پر بیسیوں گھوڑے کھڑے ہوتے تھے اور روایات میں آتا ہے کہ ان کے پاؤں کی تمالیں بھی سونے کی ہوتی تھیں۔ سیدّ عبدالقادر اربلی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ سیدّنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ میں فرماتے ہیں:
بغداد میں ایک شخص نے آپ رضی اللہ عنہٗ کے گھوڑوں کا اصطبل دیکھا جس میں اعلیٰ نسل کے چالیس گھوڑے سونے چاندی کے کھونٹوں سے بندھے ہوئے تھے جن پر ریشمی جھولیں پڑی ہوئی تھیں۔(منقبت۔55)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ بھی گھوڑوں کا شوق رکھتے تھے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپؒ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گھوڑوں کی جوڑی عطا فرمائی تھی جس کے نسل سے آج بھی گھوڑے موجود ہیں۔ (مجتبیٰ آخر زمانی)

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے مرشد کریم سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے کثیر تعداد میں گھوڑے رکھے ہوئے تھے۔ آپ بذاتِ خود بہت بڑے گھڑ سوار اور نیزہ باز تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ ہر سال اوچھالی وادی سون سکیسر میں نیزہ بازی کے مقابلے کرواتے۔ ان مقابلوں کے انعقاد کا بنیادی مقصد فیضِ فقر کو عام کرنا تھا تاکہ وہ لوگ جو دینی محافل میں شرکت نہیں کرتے وہ ان مقابلوں کے ذریعے سلطان الفقر ششم کی صحبت سے مستفید ہو سکیں اور طالبانِ دنیا سے طالبانِ مولیٰ بن جائیں۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس عشقِ مرشد میں اس قدر فنا ہو چکے ہیں کہ مرشد کے رنگ میں ہی رنگ گئے ہیں۔ اپنے مرشد کی ہر ادا اور ہر سنت کو اپنانا سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا اپنے مرشد سے عشق کا اظہار ہے۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ بھی گھوڑوں سے بے حد محبت فرماتے تھے اور سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس بھی گھوڑوں سے بے حد محبت فرماتے ہیں۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی گھوڑوں سے محبت اور عقیدت

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ترتیب یہ ہے کہ جب بھی خانقاہ سلطان العاشقین تشریف لے کر جاتے ہیں تو سب سے پہلے اصطبل کا معائنہ کرتے ہیں۔ آپ اپنے دستِ شفقت سے گھوڑوں کی پیشانی پر پیار کرتے ہیں، ان کی خوراک اور ادویات کے متعلق استفسار فرماتے ہیں اور ان کے آرام و سکون کا خاص خیال رکھنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ گھوڑوں کی بہترین صحت اور ان کی بیماریوں کے متعلق نہ صرف خود تحقیق کرتے ہیں بلکہ ڈیوٹی پر مامور طالبانِ مولیٰ کو بھی تحقیق کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔اگر کوئی گھوڑا بیمار ہو جائے تو آپ مدظلہ الاقدس بے چین ہو جاتے ہیں اور فوراً ڈاکٹر کو بلانے کا حکم فرماتے ہیں اور اکثر اوقات دیسی ادویات بھی تجویز فرماتے ہیں۔ جب تک گھوڑا مکمل صحت یاب نہ ہو جائے مسلسل اس کی صورت حال دریافت فرماتے رہتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی خصوصی تاکید پر گھوڑوں کے لیے ایک فرسٹ ایڈ باکس (First aid box) بھی اصطبل میں رکھا گیا ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں فوراً گھوڑوں کو طبی امداد دی جا سکے۔ گھوڑوں کے معمولات پر ہمہ وقت نظر رکھنے کے لیے سگنل اپلیکیشن (Signal App) پر ایک گروپ بھی بنایا گیا ہے جس کی بدولت سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس گھوڑوں سے متعلق ہر معاملے سے آگاہ رہتے ہیں اور صورتحال کے مطابق ہدایات بھی جاری فرماتے ہیں۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے خصوصی طور پر صاحبزادہ سلطان محمد مرتضیٰ نجیب صاحب کو گھوڑوں کا نگران مقرر فرمایا تاکہ گھوڑوں کی خدمت اور خیال میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی جائے۔ اس کے علاوہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے خلفا میں سے پروفیسر سلطان حافظ حماد الرحمن بھی گھوڑوں کی نگرانی پر مامور ہیں۔

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے گھوڑے

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے گھوڑوں کے نام شہباز، کبوترا، چن، شیردل، نگینہ اور اطلس ہیں۔ ذیل میں تمام گھوڑوں کا مختصر تعارف پیش کیا جا رہا ہے:
دیسی گھوڑوں میں سولہ بند (خصوصیات) دیکھے جاتے ہیں، جن گھوڑوں میں ان سولہ میں سے جتنے زیادہ بند موجود ہوں گے وہ گھوڑے اسی قدر اچھے اور قیمتی شمار ہوں گے۔ سولہ بند میں سے چار موٹے ہونے چاہئیں یعنی آنکھ، ناک، جوڑ اور ران۔ چار چھوٹے ہونے چاہئیں جن میں گامچی (ٹخنے اور سمُ کا درمیانی حصہ)، آسن (جہاں رزین رکھتے ہیں)،کان اور دمچی شامل ہیں۔ چار چوڑے ہونے چاہئیں یعنی سمُ، چھاتی، پٹھا اور ماتھا اور چار لمبے ہونے چاہئیں یعنی تانا (اگلی اور پچھلی ٹانگوں کا فاصلہ)، گردن، نلی (گھٹنے سے سم تک کا حصہ) اور دم۔

لطف کی بات یہ ہے کہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے تمام گھوڑوں میں یہ سولہ بند موجود ہیں۔ ہر گھوڑے کے متعلق لکھتے ہوئے ان سولہ خصوصیات کا تذکرہ بار بار نہیں کیا گیا تاکہ قارئین کو تکرار محسوس نہ ہو۔ تاہم ہر گھوڑے کے متعلق صرف ان خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے جو دیکھنے والے کو پہلی نظر میں ہی پرُکشش نظر آتی ہیں۔

شہباز

حافظ ابنِ قیم اپنی کتاب ’’زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’سواری کی قدر و قیمت سوار سے ہوتی ہے۔‘‘
شہباز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اس پر سواری فرمائی۔

شہباز ایک بارعب اور خوبصورت گھوڑا ہے۔ اس کا رنگ سیاہ ہے جبکہ اس کے ماتھے پر سفید نشان ہے۔ ایسے گھوڑے کو عرفِ عام میں ’بلا مشکا‘ کہتے ہیں۔ شہباز ایک بہت ہی ذہین گھوڑا ہے۔ اس کو جو کچھ سکھایا جائے وہ فوراً سیکھ لیتا ہے اور اگر کسی حرکت سے روکا جائے تو دوبارہ وہ حرکت نہیں کرتا۔ اس کے ہنہنانے کی آواز بہت رعب دار ہے جو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔ جب شہباز ہنہناتا ہے تو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے باقی تمام گھوڑے بھی ہنہنانے لگتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہباز کی آواز سن کر باقی گھوڑوں کے حوصلے بھی بلند ہوتے ہیں۔

شہبازکے کان خوبصورت اور نوکدار ہیں۔ جب وہ کانوں کو سامنے کی جانب موڑتا ہے تو دونوں کانوں کے اوپر والے کنارے تقریباً مل جاتے ہیں اور ان کا درمیانی فاصلہ انتہائی کم رہ جاتا ہے جو قریب سے یا غور سے دیکھنے پر پتہ چلتا ہے۔ جب کان سامنے کی جانب کھڑے کرتا ہے تو مزید خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ 

شہباز کی گردن عام گھوڑوں کی نسبت قدرے لمبی ہے جو اس کی خوبصورتی کا چار چاند لگا دیتی ہے۔ جب سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس کی پیشانی پر اپنا دستِ مبارک پھیرتے ہیں تو وہ اپنی پیشانی کو مزید قریب کرنے کی کوشش کرتا ہے گویا اپنے پیار کا اظہار کر رہا ہو۔

شہباز کے پچھلے دونوں پائوں سفید ہیں اور اس کی آنکھیں بڑی ہیں جو خوبصورت گھوڑوں کی خاصیت ہوتی ہے۔ شہباز کا تانا زیادہ ہے جو تیز رفتار گھوڑے کی علامت ہے۔

کبوترا

کبوترا نہایت شریف گھوڑا ہے۔ اس کا رنگ سرخی مائل سیاہ ہے جو کہ مشکا کی ایک قسم ہے۔ تیل جیسا رنگ ہونے کی بنا پر اس کو تیلیا مشکا بھی کہتے ہیں۔ برق رفتار گھوڑے کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اس کے سُم کالے ہوتے ہیں۔ کبوترا کے چاروں سمُ کالے ہیں۔اس کا سینہ چوڑا ہے جو کہ ایک خوبصورت اور عمدہ گھوڑے کی نشانی ہے۔ 

کبوترا کی خاص صفت یہ ہے کہ یہ بہت ہی صفائی پسند ہے۔ نہ گندی جگہ پر بیٹھتا ہے اور نہ کھڑا ہوتا ہے۔

چن

چن سفید گھوڑا ہے جس کو عرفِ عام میں ’’نقرہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی ماں نقرئی یعنی مکمل سفید اور باپ مشکا پنج کلیان (جو گھوڑا مکمل کالا ہو لیکن اس کی چاروں ٹانگیں اور ماتھا سفید ہو) تھا۔ چن کی دم پتلی ہے جو خوبصورت گھوڑے کی نشانی ہے۔ اس کا سینہ باہر کو نکلا ہوا ہے جو نایاب گھوڑوں کی خصوصیت ہے۔ اس کے نتھنے کھلے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ ایک سخت جان گھوڑا ہے۔چن کی آنکھوں کے اردگرد اور ناک کا رنگ گلابی ہے جو کہ نسلی نقرہ کی نشانی ہے۔ 

گھوڑوں کے شوقین حضرات کے نزدیک اس گھوڑے کے کان خوبصورت ہوتے ہیں جن کا درمیانی فاصلہ کم ہو۔ چن کے کانوں کے درمیان فاصلہ دوسرے گھوڑوں کی نسبت کم ہے۔

جس نقرہ پر کسی اور رنگ کا داغ نہ ہو اسے ’’چاندی نقرہ‘‘ کہتے ہیں اس لحاظ سے چن ’’چاندی نقرہ‘‘ گھوڑا ہے۔ یہ ڈانس کرنے والا گھوڑا ہے جو ’’ڑیوڑھ‘‘ ڈانس کرتا ہے۔

شیر دل

نیزہ بازی کے گھوڑوں میں جو رنگ سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے وہ ’’کمیت‘‘ ہے۔ شیردل کا رنگ بھی کمیت ہے۔ یہ بہادر اور دلیر گھوڑا ہے۔ اس کی نسل کابل کے گھوڑوں سے ملتی ہے جو میانوالی میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ کابل میں دنیا کے معروف اور بہادر گھوڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح نسلی لحاظ سے شیردل بہادر گھوڑا ہے اور اس کے اطوار بھی بہادر گھوڑوں والے ہیں۔ 

انگلش کا محاورہ ہے No hoof, no horse یعنی جس گھوڑے کے سمُ اچھے نہیں وہ اچھا نہیں۔ اگر شیر دل کے سموں کو دیکھا جائے تو اس کے سمُ چوڑے اور مضبوط ہیں جو برق رفتار اور نیزہ باز گھوڑے کی اہم خاصیت ہے۔ شیردل بہت تیز رفتار ہے۔ منجھے ہوئے شہسوار بھی اس کو مکمل ڈھیل دینے سے گھبراتے ہیں۔ جس جگہ سے شیر دل خریدا گیا تھا وہاں اسے مضبوط پیروں والا گھوڑا کہا جاتا تھا۔

اس کے نتھنے بڑے ہیں جو کہ نیزہ باز گھوڑے کے لیے ضروری ہیں کیونکہ ایسے گھوڑے جلدی نہیں تھکتے۔ جس گھوڑے کا چہرہ لمبا ہو وہ خوبصورت گھوڑا شمار کیا جاتا ہے۔ شیردل کا چہرہ لمبا اور ماتھا چوڑا ہے جو اس کو بہت ہی رعب دار بناتا ہے۔

جب سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اصطبل میں تشریف لاتے ہیں تو شیردل آپ کو دیکھتے ہی سرجھکا لیتا ہے اور بار بار کن اکھیوں سے آپ مدظلہ الاقدس کی طرف دیکھتا ہے، دایاں پاؤں بار بار اٹھا کر زمین پر مارتا ہے جیسے پیغام دے رہا ہو کہ میں نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو پہچان لیا ہے۔

نگینہ

نگینہ ایک خوبصورت گھوڑا ہے۔ اس کے جسم، ٹانگوں اور ماتھے کا رنگ مکمل کالا ہے۔ اس طرح کے گھوڑ ے کو ’’بند مشکا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے گھنگریالے بال اس کو مزید پرُکشش بنا دیتے ہیں۔ گھوڑوں میں خوبصورت دم وہ مانی جاتی ہے جو لمبی ہو۔ نگینہ کی دم لمبی اور اس کی آنکھیں موٹی ہیں جوخوبصورت گھوڑے کی نشانی ہے۔

اطلس

رنگ کے لحاظ سے اطلس ابلق گھوڑا ہے یعنی اس کے دو رنگ ہیں سفید اور کمیت۔ یہ بہت خوبصورت گھوڑا ہے۔ اس کے ہونٹ پتلے اور ٹانگیں باریک ہیں۔ یہ بھی خوبصورت گھوڑے کی نشانی ہوتی ہے۔ اس کی چاروں ٹانگیں سفید ہیں جس کی وجہ سے اطلس نہایت پرُکشش دکھائی دیتا ہے۔

اطلس ڈانس کرنے والا گھوڑا ہے جو لنگوری اور جھومر دھمال پر ڈانس کرتا ہے۔

 
Spread the love