نفی اور اثبات |Nafi aur Asbat

Rate this post

نفی اور اثبات |Nafi aur Asbat

نفی اور اثبات

تحریر: نورین عبدالغفور سروری قادری۔ سیالکوٹ

الف اللہ چنبے دی بوٹی، میرے من وچ مرشد لائی ھُو
نفی اثبات دا پانی ملیس، ہر رگے ہر جائی ھُو
اندر بوٹی مُشک مچایا، جاں پھلاں تے آئی ھُو
جیوے مرشد کامل باھوؒ، جیں ایہہ بوٹی لائی ھُو

مندرجہ بالا بیت میں حضرت سخی سلطان باھوؒ طالبِ مولیٰ کے فقر کے مکمل سفر کو بیان فرما رہے ہیں کہ کس طرح مرشد کامل طالب کے قلب میں اسم اللہ ذات کی بوٹی لگا کر اسے روحانی طورپر پروان چڑھاتا ہے اور نفی و اثبات کے مقامات طے کروا کر توحید تک پہنچاتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ پہلے عارف ہیں جنہوں نے اسم اللہ ذات کے لیے’’چنبے دی بوٹی ‘‘ کا استعارہ استعمال فرمایا ہے۔ جس طرح چنبلی کے پودے کی پنیری سے ایک مکمل پودا بن جاتاہے اور پھولوں سے لد جاتا ہے تو اس کی خوشبو سارے ماحول کو مہکا دیتی ہے اسی طرح جب مرشد طالب کو ذکر و تصور اسم اللہ ذات عطافرماتا ہے تو اس کے دل میں عشقِ حقیقی کی پنیری لگا دیتا ہے اور اسمِ  اللہ ذات کا نور مرشد کی نگہبانی میں آہستہ آہستہ طالب ِصادق کے پورے وجود میں پھیل کر اس کو منور کر دیتا ہے۔ مرشد کامل اپنی نگاہِ کامل اور اپنے فضل و کرم سے طالب کے دل میں اسم اللہ ذات کی حقیقت کو کھول دیتا ہے، نفی سے تمام غیراللہ اور بتوں کو دل سے نکال دیتاہے اور اثبات کا راز ظاہر فرما کر اسم سے مسمّٰی تک پہنچا دیتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ میرامرشد کامل ہمیشہ حیات رہے جس نے مجھ پر فضل وکرم اور مہربانی فرما کر اپنی نگاہِ کامل سے میرے دل میں اسم ِاللہ ذات کی حقیقت کھول دی اور اثبات کے راز سے مجھے اسم سے مسمّٰی تک پہنچا دیا۔ اب یہ راز اور اس کے اسرار میری رگ رگ، ریشہ ریشہ اور مغز وپوست تک سرایت کر گئے ہیں۔ اب تو اسم اللہ ذات پورے وجود کے اندر اتنا سرایت کر چکا ہے کہ جی چاہتاہے جو اسرار مجھ پر کھل چکے ہیں ان کو ساری دنیا پر ظاہر کر دوں لیکن خواص کے یہ اسرار عام لوگوں پر ظاہر نہیں کیے جا سکتے اسی لیے ان اسرار کو سنبھالتے سنبھالتے جان لبوں تک آچکی ہے اور ظاہر باطن میں جدھربھی نظر دوڑاتا ہوں مجھے اسم اللہ ذات ہی نظر آتا ہے اور حالت اس آیت کی مثل ہو چکی ہے ’’تم جس طرف بھی دیکھوگے تمہیں اللہ کا چہرہ ہی نظر آئے گا۔‘‘ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
کلمہ طیب لَآ الٰہَ  اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ (ترجمہ:نہیں کوئی معبود اللہ کے سوا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اللہ کے رسول ہیں) کا زبانی اقرار اور قلبی تصدیق ہی کامل ایمان کی بنیاد ہے۔ کلمہ طیب کا پہلا حصہ ’’لَآ الٰہَ  اِلَّا اللّٰہ  ‘‘یعنی ’’کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا‘‘توحید ِ الٰہی ہے۔ توحید دین کی بنیاد اور ایمان کی جان ہے اور اپنی اپنی اُمتوں  کے لیے سب انبیا کا پہلا پیغام بھی۔ اس توحید کو ماننے اور نہ ماننے اور اس کے مطابق چلنے یا نہ چلنے پر ہی انسان کی سعادت و شقاوت اور نجات و ہلاکت کا دار و مدار ہے۔

صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے ارشاد فرمایا:’’دو چیزیں دو چیزوں کو واجب کر دیتی ہیں ‘‘۔
کسی نے عرض کیا ــــــ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! وہ دو چیزیں کون سی ہیں جو دو چیزوں کو واجب کر دینے والی ہیں؟‘‘حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

’’جو شخص اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرتے ہوئے مرا وہ دوزخ میں جائے گااور جو ایسے حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتا تھا تو جنت میں جائے گا‘‘۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
جو بندہ ’’لَآ الٰہَ  اِلَّا اللّٰہ‘‘کا قول کرے (یعنی توحید کو اپنا دین بنا لے اور اس پر قائم ہو جائے) اور پھر اسی حال میں مر جائے تو یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ جنت میں نہ جائے۔(بخاری و مسلم)تصوف میں کلمہ کی حقیقت کو یوں سمجھایا گیا ہے کہ ’’لَآ الٰہَ  ‘‘ طریقت ہے ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘حقیقت ہے اور ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ شریعت ہے۔

لَآ الٰہَ  (نہیں کوئی معبود) مقامِ نفی اور اِلَّا اللّٰہ  (سوائے اللہ کے) مقامِ اثبات ہے۔ نفی کا مطلب ہے ختم کرنا۔ ’’لَآ‘‘کی تلوار سے ظاہر ی اور باطنی تمام بتوں کو ختم کردینااور کسی کو بھی اللہ ربّ العزت کا شریک نہ ٹھہرانا۔ یعنی یہ اقرار کرنا کہ اے اللہ پاک! میں تیرے لیے اپنے دل سے ہر ایک بت کو توڑتا ہوں اور تیرے مقابلے میں کسی اور چیز کو نہیں مانتا، تو ہی میرے لیے سب کچھ ہے اور مجھے سب کچھ عطا کرنے والا ہے اور سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والا ہے۔ تو ہی ہر طرح کا رزق عطا کرنے والا اور ہر مصیبت اور آفات سے نجات دینے والا ہے اور میری یہ زندگی بھی تیری ہی عطا کردہ ہے۔ تو میرے ہر عمل کو دیکھنے والا اور میرے گناہوں اور غلطیوں سے درگزر کرنے والا ہے۔ میں اپنے ہر معاملے میں تجھے ہی کافی سمجھتا ہوں۔ میری ہر طرح کی عبادت صرف اور صرف تیرے ہی لیے ہے اور میں تیری اس امانت میں خیانت نہیں کروں گا اور نہ ہی کسی کو تیرا شریک ٹھہراؤں گا۔ ہر رشتے، ہر شے اور اپنے نفس کی اللہ کے مقابلے میں نفی کرنا ہی ’’لَآ الٰہَ‘‘ ہے۔ا ور یہ نفی صرف زبان سے نہیں بلکہ عملاً کرنا ضروری ہے ورنہ زبانی دعویٰ کر کے عملاً تضاد رکھنے والا منافق کہلائے گا۔ نفی پہلی اور اثبات دوسری منزل ہے یعنی ’’لَآ الٰہَ‘‘ کے بعد ’’اِلَّا اللّٰہ‘‘ا ثبات ہے اور اس منزل پر پہنچ کر ہی ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تو اس قدر خوبصورت ہے اور تیری ذات اور تیری تمام تر صفات اس قدر کامل ہیں کہ تیرے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں اور ہر جگہ صرف تو ہی ہے، ہر ایک رنگ تیرا ہی رنگ ہے، ہر روپ تیرا ہی روپ ہے، ہر شے میں تیرا ہی جلوہ ہے۔ تو ہر شے پر قادر ہے،سب کچھ تیرے قبضے میں ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
اِقْرَارٌ بِالِلّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْب
ترجمہ:زبان سے اقرار کرو اور دل سے تصدیق کرو۔
زبانی اقرار کا دار و مدار تصدیق ِ قلب پر ہے اور تصدیقِ قلب صرف عملاً نفی اور اثبات سے حاصل ہوتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: قَائِلُوْنَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کَثِیْرًا وَالْمُخْلِصُوْنَ قَلیْلٌ ترجمہ: (زبانی طور پر) کلمہ طیب پڑھنے والے توکثیر ہیں اخلاص سے کلمہ طیب پڑھنے والے بہت قلیل ہیں۔

حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
٭ جس شخص کو کلمہ طیب کی تصدیق ِ قلب حاصل نہیں اس کے زبانی اقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔ (عین الفقر)

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ فرماتے ہیں :
٭ کلمہ طیب مسلمان ہونے کی بنیاد ہے۔ جب کوئی کلمہ پڑھتا ہے تو وہ اقرار کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اس کے اقرار کے ساتھ ہی وہ مسلمان ہو جاتا ہے اور تصدیق ِ قلب سے (اللہ کو دیکھ کر) کلمہ پڑھنا خواص کا اور اس کی حقیقت تک پہنچ جانا عارفین کا مرتبہ ہے۔ (شمس الفقرا)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ اپنے پنجابی کلام میں فرماتے ہیں:

زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا، دل دا پڑھدا کوئی ھُو
جتھے کلمہ دل دا پڑھئے، اوتھے ملے زبان ناں ڈھوئی ھُو
دِل دا کلمہ عاشق پڑھدے، کی جانن یار گلوئی ھُو
ایہہ کلمہ مینوں پیر پڑھایا باھوؒ، میں سدا سوہاگن ہوئی ھُو

شرح: آپؒ اس بیت میں فرماتے ہیں کہ زبان سے کلمہ توہر کوئی پڑھتا ہے، ہر وقت کلمہ کا ورد کرتا ہے لیکن تصدیق ِ دل سے کلمہ کوئی کوئی ہی پڑھتا ہے۔ کلمہ طیب کی حقیقت جاننے کی کوشش ہر کوئی نہیں کرتا اور جو کوئی تصدیق ِدل سے کلمہ پڑھتاہے وہ کلمہ کی حقیقت اور کنہہ کو جان لیتا ہے اور اس پر باطنی علوم کھل جاتے ہیں۔ پھراس زبان سے ورد و وظائف کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ سب سے بڑھ کر اسے اللہ پاک کا قرب و وِصال اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری نصیب ہو جاتی ہے اور انسان گناہوں سے تائب ہو کرآقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حضوری میں حاضر رہتا ہے۔ تصدیق ِقلب کا مرتبہ عاشقوں کا مرتبہ ہے۔ زبانی باتیں بنانے والے کلمہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ مجھے تصدیق ِ قلب کے ساتھ کلمہ تو میرے مرشد نے پڑھایا ہے جس کی بدولت میں دونوں جہاں میں خوش بخت ہو گیا ہوں۔
مزید فرماتے ہیں:

لَآ اِلٰہَ گل گہناں مڑھیا، مذہب کی لگدا سالا ھُو
اِلَّا اللّٰہُ گھر میرے آیا، جیں آن اٹھایا پالا ھُو
اساں بھر پیالہ خضروں پیتا باھُوؒ، آب حیاتی والا ھُو

شرح: جب سےلَآ الٰہَ  (نفی ،نہیں ہے کوئی معبود) کا راز ہم پر عیاں ہوا ہے کسی فرقہ اور مسلک سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اثبات (اِلَّا اللّٰہ) کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس حقیقت کو پاکر ہمارے اندر سے ہر ڈر اور خوف نکل گیا ہے اور ہم وصالِ حق تعالیٰ کا آبِ حیات پی کر زندہ و جاوید ہوگئے ہیں۔
انسان بغیر رہنمائی کے تصدیق با لقلب کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ نفی اور اثبات کے مقامات طے کرتے ہوئے توحید کے مقام تک پہنچنے کے لیے کامل ترین ہستی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہستی مرشد کا مل اکمل کی ذات ہے جو اس راستے کا رفیق اور راہبر ہوتا ہے۔ اس کے متعلق آقاپاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
٭ پہلے رفیق تلاش کرواور پھر راستہ چلو۔
اگر ہم آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظاہری زمانے کو دیکھیں تو تمام اصحابؓ کے رفیق اور راہبر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ تمام اصحابؓ نے جو بھی مقام اور مرتبہ پایا وہ اپنے مرشد ِ کامل، انسانِ کامل، مظہر ذاتِ الٰہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کامل سے پایا اور ان کی پاکیزہ صحبت و رہنمائی سے پایا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقش ِ قدم پر قائم ایسی کامل ہستی ہر زمانے میں موجود ہوتی ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ کے مطابق ہی اپنے طالبوں کی رہنمائی کرتی ہے اور انہیں تزکیہ نفس کے بعد ایمان کی دولت اور کلمہ کی حقیقت سے روشناس کرواتی ہے۔
موجودہ دور کی وہ کامل ترین ہستی میرے مرشد کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس کی ذاتِ مبارکہ ہے جو تزکیۂ نفس اور تصفیٔہ قلب فرما کر طالب ِ صادق کو اپنی نگاہِ کامل سے نفی وا ثبات کے تمام مقامات طے کرواتے ہیں۔ آپ طالب پر کلمہ کی حقیقت اور کنہہ کو اس طرح کھول دیتے ہیں کہ طالب اللہ پاک کی معرفت حاصل کر کے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے لائق بن جاتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس توحید کے بارے میں فرماتے ہیں:
٭ توحید تک پہنچے کے لیے دل سے غیر اللہ کی محبت، طلب اور خوف کے بتوں کو توڑنا ہو گا۔ اللہ کے سوا ہر شے سے بے نیاز ہو جانا تو حید ہے۔
٭ کلمہ توحید کی تصدیق بالقلب کے لیے ضروری ہے کہ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب ہو۔
٭ حقیقی توحید یہ ہے کہ ظاہر وباطن میں صرف اللہ ہے۔
٭ مومن کی توحید یہ ہے کہ اللہ کی ذات میں فنا ہو کر بقا پالے اور اس کے ساتھ واحد ہو جائے۔
آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر ہمارے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس مسند ِ تلقین و ارشاد کے منصب ِعالیٰ پر فائز ہو کر مخلوقِ خدا کی اللہ کی طرف رہنمائی فرما رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس طالبانِ مولیٰ کو تصدیق ِقلب کے ساتھ کلمہ طیب پڑھا کر انہیں کلمہ طیب کی حقیقت اور کنہہ تک پہنچا رہے ہیں۔ مخلوقِ خدا کے لیے عام دعوت ہے کہ وہ آئیں اور آپ مدظلہ الاقدس کے ازلی فیض سے اپنے سینوں کو منور کریں تاکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکیں۔ آمین۔
استفادہ کتب:
عین الفقر تصنیف حضرت سخی سلطان باھوؒ
شمس الفقرا سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
ابیاتِ باھو کامل ایضاً
کلمہ طیب کی حقیقت مولانا محمد منظور نعمانی

 
Spread the love