Majlis-e-Mohammadi

سلطان العاشقین اور مجلسِ محمدی

Click to rate this post!
[Total: 0 Average: 0]

سلطان العاشقین اور مجلسِ محمدی

مجلسِ محمدی

یہ ہر مومن مسلمان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ کاش وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور میں پیدا ہوتا اور ان کا فیض بلاواسطہ ویسے ہی حاصل کرتا جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حاصل کرتے تھے۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ فرماتا ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ    (سورۃ الاحزاب۔6)
ترجمہ: یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ (ان کے) قریب ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر دور کے مومنوں کو اپنی جان سے بھی عزیز اور قریب رکھتے ہیں اور اپنے فیض اور قرب کے کسی بھی طالب کو خود سے دور نہیں رکھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رحمتہ اللعالمین ہیں اور دو جہانوں کے سردار ہیں لہٰذا ہر دور میں کامل حیات کے ساتھ موجود ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فیض کے چشمے آج بھی اسی طرح جاری ہیں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ظاہری حیات میں تھے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
پس ہر وہ شخص مومن، مسلمان یا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حیات ہی نہیں مانتا۔ وہ جو کوئی بھی ہے جھوٹا، بے دین، منافق اور کذاب ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْکَذَّابُ لَا اُمَّتِیْ
 ترجمہ: کذاب میرا امتی نہیں ہو سکتا۔ (کلید التوحید کلاں)

جسے حیات النبیؐ پر اعتبار نہیں وہ دونوں جہان میں خوار ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہر وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو اور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ (کلید التوحید کلاں)
جو شخص اخلاص اور یقین کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں فریاد کرے تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مع لشکر ِ صحابہؓ،  امام حسن ؓ وامام حسینؓ  تشریف لا کر ظاہری آنکھوں سے زیارت کراتے اور مدد فرماتے ہیں۔ (عقلِ بیدار)
سن! اگر کوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات کو مردہ سمجھتا ہے تو اس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے۔ (عین الفقر)

علامہ اقبالؒ حیات النبیؐ کے بارے میں فرماتے ہیں:
میرا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں پر ناگوار ہوگا اس واسطے خاموش رہتا ہوں۔ (خط بنام نیازالدین خاں۔فتراکِ رسولؐ۔ باب سوم، اقبال اور عشق ِرسولؐ۔ صفحہ 71)

اس زمانے میں عاشقانِ رسول کے لیے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت اور فیض سے مستفید ہونے کا بہترین ذریعہ روحانی طور پر مجلسِ محمد ی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہونا ہے جو کسی مرشد کامل اکمل کے توسط سے ہی ممکن ہے جو خود اس مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں کامل ہو اور اپنے طالبوں کو بھی یہاں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی ہر کتاب میں مجلسِ محمد ی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی موجودگی کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی حضوری پانے کی راہ بتائی ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اسمِ اللہ  ذات اور اسمِ  محمد کے تصور سے حاصل ہوتی ہے۔

اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
صحابہ کرامؓ کے لئے اسمِ اللہ ذات حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظاہری چہرہ مبارک تھا اور اسم محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک تھی۔ موجودہ زمانے میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ صرف اسمِ اللہ  ذات اور اسمِ محمد کا تصور ہے بشرطیکہ یہ وہاں سے حاصل ہو اہو جہاں پر اسے عطا کرنے کی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے باطنی طور پر اجازت ہو۔ یہ بات طالب کو اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمد کے تصور کے پہلے دن ہی معلوم ہو جاتی ہے کہ اس نے جہاں سے اسمِ اللہ ذات یا اسمِ محمد   حاصل کیا ہے وہ مرشد ِ کامل ہی کی بارگاہ ہے۔(شمس الفقرا)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے متعلق فرماتے ہیں:
راہِ حق میں یہ ایک ایسا مقام ہے جس میں طالبِ مولیٰ باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضور ی سے مشرف ہو جاتا ہے اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کی تربیت فرماتے ہیں اور باطن میں اسے معرفتِ الٰہیہ کے مراتب طے کراتے ہیں۔  (شمس الفقرا)

مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری باطن کا اہم مقام ہے جس کو مکمل طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو حق الیقین کی منزل ہے اور اس کی حقیقت سے وہی واقف ہوتا ہے جو اسے پا لیتا ہے۔  (شمس الفقرا)

حضرت سخی سلطان باھوؒ حضوریٔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جان لو کہ امت پیروی کرنے والوں کو کہتے ہیں اور پیروی یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچایا جائے۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو راہِ حضوری کے متعلق نہیں جانتے اور بے حیائی، تکبر، خواہشاتِ نفس، خود پرستی اور نفس پرستی کے باعث عارفانِ باللہ سے طلب بھی نہیں کرتے اور جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ جاتے ہیں ان کو یہ حاسدین اپنے حسد کے باعث دیکھ نہیں سکتے۔ یہ لوگ سراسر احمق اور حیوان ہیں۔ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر اور حضوری میں منظور نہیں وہ امت کے مومن و مسلمان، فقیر و درویش اور علما و فقہا کیسے ہو سکتے ہیں اور امت ان کی پیروی کیسے کر سکتی ہے۔ جان لو کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سر ّ ہدایت ہے اور یہ ہدایت ابتدا (کی طرف لوٹنے) میں ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلنِّھَایَۃُ ھُوَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ 
ترجمہ: ابتدا کی طرف لوٹنا ہی انتہا ہے۔(کلید التوحید کلاں)

ظہورِحق کی ابتدا چونکہ نورِ محمدی کے ظہور سے ہوئی اور تمام مخلوق نو رِ محمدی سے تخلیق ہوئی اس لئے ’ابتدا‘ نورِ محمدی ہی ہے لہٰذا باطن میں اپنی ابتدا یعنی نورِ محمدی تک واپس پہنچنا ہی انتہا ہے۔یہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری ہے اور یہی سِرِّ ہدایت ہے۔جو شخص اس کا قائل اور طالب نہیں وہ گویا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُمتی اور پیروکار ہی نہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار سے مشرف ہونے والا اور آپؐ کی زیارت کرنے والا ایک ہی لمحہ میں ولی اللہ کے مراتب پر پہنچ کر محبوب اور صاحبِ عیاں عارف ہو جاتا ہے یا یکبارگی مراتبِ مجذوب پر پہنچ جاتا ہے یا یکبارگی مراتبِ محبوب پر پہنچ جاتا ہے یا یکبارگی مراتبِ محجوب اور مردود پر پہنچ جاتا ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھنے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہشت کی مثل ہے جہاں ذکرِ الٰہی کے ساتھ آیاتِ قرآن اور حدیث کا بیان ہوتا ہے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں طالب کو دو مراتب حاصل ہو سکتے ہیں، یا مرتبہ محبوب یا مرتبہ مردود کیونکہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک کسوٹی ہے جہاں پہنچ کر ناقص طالب کے وجود کے اندر پوشیدہ کذب اور صادق طالب کے وجود کے اندر پوشیدہ صدق ظاہر ہو جاتا ہے۔ طالبِ صادق کا وجود نور ہو جاتا ہے اور اسے مجلسِ محمدی کی لازوال دائمی حضوری نصیب ہو جاتی ہے۔ (امیر الکونین)

اگر کوئی حاسد،منافق، مردہ دل کاذب جو شیطان کے فرزندوں اور خناس کے وسوسہ کی طرح ہے اور جو پیر مرشد کا منکر، بے پیر بے مرشد اور بے معرفت ہے، یہ کہے کہ اس زمانہ میں کوئی پیر یا مرشد لائقِ ارشاد نہیں، اس کی بجائے صرف مطالعہ کتب کافی ہے تو وہ اس حیلۂ شیطانی اور مکر و فریبِ نفسانی کے سبب رہزن ہے جو معرفت و ہدایتِ خدا سے باز رکھتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے روکتا ہے۔ ایسے شخص کی بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا شخص مرُدہ دل ہے اور کتیّ کی طرح مرُدار کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے۔ (عقلِ بیدار)

روز و شب در طلبِ نبویؐ با حضور
مرد مرشد میرساند خاص نور
ہر کہ منکر میشود زیں خاص راہ
عاقبت کافر شود با روسیاہ

ترجمہ: دِن رات مجلسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی حضوری طلب کر لیکن یاد رکھ اس خاص نور تک مرد مرشد ہی پہنچا سکتا ہے۔ جو کوئی اس خاص راہ کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہو کر روسیاہ ہوجاتا ہے۔ (مجالستہ النبیؐ خورد)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس مبارک میں نفسِ امارہ اور شیطان لعین داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ اسمِ اللہ ذات اور اسم محمد کے حاضرات کی راہ ہے۔ اس سے ازل، ابد، دنیا، حشر، قیامت گاہ، حضوری، قربِ الٰہی، دوزخ، بہشت اور حوروقصور کا تماشا دکھائی دیتا ہے۔ (عقلِ بیدار)

جان لے کہ خاص مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دیگر نو(9) مقامات پر قائم ہوتی ہے جو مراتب بمراتب اور مقام بمقام (بڑھتے ہوئے) کامل و مکمل ہو جاتی ہے۔ اوّل مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ ازل میں ہے، دوم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ ابد میں ہے، سوم حرمِ مدینہ میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں، چہارم خانہ کعبہ کے داخلی مقام پر یا حرمِ خانہ کعبہ میں یا جبلِ عرفات پر جہاں لبیک کی دعائے حج قبول ہوتی ہے، پنجم عرش سے اوپر، ششم قابَ قوسین کے مقام پر، ہفتم بہشت میں کہ جہاں سے اگر کچھ کھا پی لیا جائے توتمام عمر بھوک اور پیاس نہیں لگتی اورنہ ہی نیند آتی ہے، ہشتم حوضِ کوثر کے مقام پرجہاں حضرت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ اقدس سے شراباً طہوراً پی لی جائے تو وجود پاک ہوکر مقامِ ترک و توکل (تر ک سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے، سہارے اور موجود سے چھٹکارا، خلاصی اور نجات ہے اور توکل اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کا نام ہے۔ جب تک طالب ’ترک‘ کی منزل سے نہیں گزرتا کامل توکل حاصل نہیں ہوتا۔) اور مقامِ تجرید و تفرید سے گزر کر توحید تک پہنچ جاتا ہے اور توفیقِ الٰہی سے رفاقتِ حق حاصل ہو جاتی ہے۔ نہم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  ربوبیت کے انوار میں غرق ہو کر دیدار سے مشرف ہونے کے مرتبہ پر ہوتی ہے۔ جو خود کو فنا کر لے وہ معرفتِ فقر کی انتہا یعنی بقا تک پہنچ جاتا ہے۔ (شمس العارفین)

مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کا روحانی کمال اور مرتبہ بھی صرف اور صرف سلسلہ سروری قادری کے مرشد کامل اکمل کے وسیلے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
سروری قادری کامل کی ابتدا کیا ہے؟ کامل قادری (سروری قادری مرشد) اپنی نظر یا تصورِ اسم اللہ ذات یا کلمہ طیب کی ضرب یا باطنی توجہ سے طالبِ مولیٰ کو معرفتِ  الٰہی کے نور میں غرق کر دیتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔ یہ کامل قادری کا روزِ اوّل کا سبق ہے۔ جو یہ سبق نہیں پڑھاتا اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک نہیں پہنچاتا وہ کامل قادری نہیں۔ اُس کی مستیٔ حال محض خام خیالی ہے کیونکہ قادری ہمیشہ نور، معرفتِ الٰہی اور وصال میں غرق ہوتا ہے۔ (کلید التوحیدکلاں)

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:

بمصطفیؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی، تمام بولہبی است

(ارمغانِ حجاز)

ترجمہ: تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تک خود کو پہنچا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مکمل دین ہیں۔ اگر تو اُن (مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تک نہیں پہنچتا تو تیرا سارا دین ابو لہب کا دین ہے۔
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  باطن اور راہِ فقر میں اہم ترین مقام ہے اور اس مقام تک سروری قادری مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہی پہنچا سکتا ہے۔

 

مجلس محمدی کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کریں۔
https://www.sultan-bahoo.pk/majlis-e-mohammadi-sultan-bahoo-majlis-e-mohammadi