سلطان العاشقین اوردیدارِالٰہی
لقائے الٰہی
اقبالؒ فرماتے ہیں:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپُ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
(بانگِ درا)
لقائے الٰہی (صوفیا اور فقرا کے نزدیک لقائے الٰہی کے معنی دیدارِ الٰہی ، رویت الٰہی کے ہیں۔) اس کائنات کی سب سے بڑی نعمت اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ
ترجمہ: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو تخلیق کیا۔
اللہ کی پہچان اللہ کی دیدار کے بغیر ممکن نہیں اور سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں ’’جو اللہ تعالیٰ کی پہچان کے بغیر اس کی عبادت کا دعویٰ کرتا ہے وہ ریاکار ہے۔‘‘ (سرّ الاسرار)
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے عشقِ الٰہی، باطنی مجاہدے اور مرشد کامل کی مہربانی سے لقائے الٰہی کی منزل تک پہنچنے والوں کو نوید سنائی ہے:
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہ (سورۃ البقرہ۔115)
ترجمہ: پس تم جدھر بھی دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ نظر آئے گا۔
اور اس سے محروم رہ جانے والوں کو وعید سنائی:
وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سورۃ بنی اسرائیل۔72 )
ترجمہ: جو شخص اس دنیا میں (دیدارِ و لقائے الٰہی سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔
روزِ قیامت اس سے بڑی محرومی اور کیا ہوگی کہ باطنی آنکھوں سے محروم لوگ اللہ کو سامنے ہوتے ہوئے بھی نہ دیکھ سکیں گے نہ پہچان سکیں گے۔ چونکہ یہ دنیا ہی آخرت کی کھیتی ہے اس لیے قربِ و لقائے الٰہی کی منزل تک اسی دنیا میں پہنچنا ہوگا۔ جس کی باطنی آنکھیں اس دنیا میں نہ کھلیں وہ آخرت میں بھی نہ کھلیں گی۔ اللہ کا دیدار احادیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔
احادیثِ مبارکہ
حضرت جریر بن عبد اللہؓ فر ماتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فر مایا: قریب ہے وہ وقت جب تم اپنے پر وردِگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔‘‘ (بخاری۔7435)
ایک روایت اس طرح ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چودھویں تاریخ کے چاند کو دیکھ کر فرمایا ’’جس طرح تم اس چاند کودیکھ رہے ہو اسی طرح تم اپنے پروردِگار کودیکھو گے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں تم کوئی اذیت اور تکلیف محسوس نہیں کرو گے۔‘‘ (بخاری4851)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کے چہرہ کا دیدار حاصل ہوتا ہے، اس لیے حاصل کرے کہ اس سے دنیا کا فائدہ ملے تو ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا۔‘‘ (مسند احمد ۔8438)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’تم اپنے ربّ کی زیارت ضرور کرو گے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا واقعی ہم اپنے ربّ کی زیارت کر سکیں گے؟‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم نصف النہار کے وقت سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری محسوس کرتے ہو؟ــ‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا ’’کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری محسوس کرتے ہو؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا نہیں۔ فرمایا ’’اسی طرح پروردگار کو دیکھنے میں بھی تمہیں کوئی دشواری نہ ہوگی۔‘‘ (مسند احمد۔ 11137)
ابنِ ماجہ کی روایت کے مطابق حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے پوچھا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا ہم اپنے ربّ کو دیکھیں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم ٹھیک دوپہر کے سورج کو دیکھنے میں کوئی دقت محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو؟‘‘ ہم نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کیا تم چودھویں کا چاند دیکھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس کرتے ہو جبکہ کوئی بدلی نہ ہو؟‘‘ ہم نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’سورج و چاند کو دیکھنے کی طرح تمہیں اپنے ربّ کو دیکھنے میں بھی کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔‘‘ (ابنِ ماجہ179)
حضرت عبداللہ ابن عباسؓ فرماتے ہیں ’’کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خلت (دوستی) ابراہیم ؑ کے لیے ہو، کلام موسیٰؑ کے لیے اور دیدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے۔‘‘ (المستدرک216)
لقائے الٰہی کے تین طریقے
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قرآن و حدیث کی رو سے دیدارِ الٰہی کے ان مراتب کو پانا تین طریقوں سے روا ہے۔ اوّل، خواب میں اللہ کا دیدار کرنا۔ ایسے خوابوں کو نوری خواب کہا جاتا ہے جو اللہ کے بے حجاب دیدار کے لیے خلوت خانہ کی مثل ہوتے ہیں اور ان میں طالب مشاہدۂ دیدار وحضوریٔ پروردگار میں غرق ہوتا ہے۔ دوم مراقبے میں دیدارِ الٰہی کرنا، یہ مراقبہ موت کی مثل ہوتا ہے جو حق تعالیٰ کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔ تیسرا عین خدا کو اس طرح دیکھنا کہ طالب کا جسم اس جہان میں اور جان (روح) لاھوت لامکان میں ہوتی ہے۔یہ تینوں مراتبِ عظیم مرشد کامل کے فیض و فضل سے حاصل ہوتے ہیں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
اسمِ اللہ رہبر است ہمراہ تو
جز لقا دیگر مبیں دیگر مجو
ترجمہ:اسمِ اللہ ذات تیرا رہبر ہے اور تیرے ہمراہ ہے اس لیے تو دیدارِ الٰہی کے علاوہ نہ کسی اور کی طلب کر نہ کسی جانب نگاہ کر۔ (نور الہدیٰ کلاں)
لقائے الٰہی کا منکر
لقائے الٰہی کے منکر کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہر کہ منکر از خدُا دیدارِ شدُ
اُمت نبویؐ نہ باشد خوار شدُ
ترجمہ: جو شخص دیدارِ الٰہی کا منکر ہے وہ اُمت ِ نبوی سے خارج ہے اور اس کے نصیب میں خواری ہے۔(نور الہدیٰ کلاں)
لقا کے حق میں اقوال
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
رَأَی قَلْبِیْ رَبِّیْ بِنُوْرِ رَبِّیْ
ترجمہ:میں نے اپنے قلب میں اپنے ربّ کو نورِ رِبیّ کے واسطہ سے دیکھا۔ (سرّ الاسرار)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
لَمْ اَعْبُدْ رَبًّا کمْ اَرَاہُ
ترجمہ:میں اپنے ربّ کی عبادت تب تک نہیں کرتا جب تک میں اسے دیکھ نہ لوں۔ (سرّ الاسرار)
پیر انِ پیر سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں! حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
رَاَیْتُ رَبِّیْ عَلیٰ صُوْرَۃِ شَابٍ اَمْرَدَ
ترجمہ:میں نے اپنے ربّ کو بے ریش نوجوان کی صورت میں دیکھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس طرح کی تجلی سے مراد حق تعالیٰ کا روح کے آئینہ میں اپنی صفتِ ربوبیت سے تجلی فرمانا ہے اور یہ وہی (روح) ہے جسے طفلِ معانی کا نام دیا گیا کیوں کہ یہ (روح) مربی (مرشد کامل اکمل) کے وجود کے لیے آئینہ ہے اور وہ (آئینہ) اس کے اور ربّ سبحانہٗ و تعالیٰ کے درمیان وسیلہ ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے:
لَوْلاَ تَرْبِیَۃُ رَبِّیْ لَمَا عَرَفْتُ رَبِّیْ
ترجمہ: اگر میرا ربّ میری تربیت نہ فرماتا تو میں اپنے ربّ کی معرفت حاصل نہ کر پاتا۔
اور اس باطنی مربی کو پانے کا سبب ظاہری مربی کی تربیت ہے جو کہ انبیا اور اولیا کی تلقین ہے جو وجود اور قلوب کے لیے چراغ ہے جن کی تربیت سے آخری روح (یعنی روحِ قدسی) کا دیدار ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ (سورۃ مومن۔15)
ترجمہ: وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے روح القا فرما دیتا ہے۔
مرشد کی طلب کرنا ہر شخص کے لیے لازم ہے کیونکہ یہی وہ روح (مرشد) ہے جو قلوب کو زندہ کرتی ہے اور وہ معرفتِ حق تعالیٰ کا باعث ہے۔ پس سمجھو۔ (سرالاسرار۔ فصل 22)
پیر انِ پیر غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ الر سالۃ الغوثیہ (جس میں آپؓ کی اللہ تعالیٰ سے الہامی گفتگو درج ہے) میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا:
’’اے غوث الاعظمؓ! جس نے مجھے دیکھا وہ ہر حال میں مجھ سے سوال کرنے سے بے نیاز ہو گیا اور جس نے مجھے نہ دیکھا اس کا سوال کرنا اسے کچھ نفع نہ دے گا کیونکہ وہ قیل و قال کی بنا پر محجوب ہے۔‘‘
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فر ماتے ہیں:
’’میں نے ربّ تعالیٰ کو دیکھا‘‘۔ پھر (اللہ تعالیٰ نے) مجھے فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! جو علم حاصل ہونے کے بعد میری رویت کے بارے میں سوال کرے پس وہ محجوب ہے اور جو علم کے بغیر میری رویت کے متعلق گمان کرے وہ رویتِ ربّ تعالیٰ کے بارے میں دھوکہ میں ہے۔‘‘
پھر فرمایا:
’’اے غوث الاعظمؓ! جس نے میرے لیے مجاہدہ اختیار کیا پس اس کے لیے میرا مشاہدہ ہے خواہ وہ اسے چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو۔ ‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ)
جس نے اللہ تعالیٰ کے محبوب کو دیکھ لیا پس اس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھ لیا وہ اپنے باطن سے اس کی حضوری میں داخل ہو گیا۔ ہمارا پروردگار موجود ہے اور دیکھا جا سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
سَتَّرُوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ
ترجمہ: عنقریب تم اپنے ربّ کو اس طرح دیکھو گے جیسا کہ تم سورج اور چاند کو دیکھتے ہو۔ (الفتح الربانی۔مجلس 33)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لقائے الٰہی کے متعلق فرماتے ہیں:
انسان کی پیدائش کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے۔ پہچان اور معرفت دیدار کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا دیدارِ الٰہی ہی اصل میں اللہ کی پہچان اور معرفت ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو عارفین یعنی فقرا کو عطا کی جاتی ہے۔ لذ ّتِ دیدارسے بہتر کوئی لذ ّت نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا دیدارنور ِ بصارت سے نہیں نور ِ بصیرت سے حاصل ہوتا ہے۔ (شمس الفقرا)
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
بہ ز ہر لذت بود لذتِ لقا
لذتی دنیا چہ باشد بی بقا
ترجمہ:تمام لذات سے بہتر لذتِ دیدار ہے۔ اس کے مقابلہ میں لذتِ دنیا کی کیا وقعت کہ وہ بے بقا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
ہر کہ جانِ خود را فروخت اسم ِ اللہ را خرید
ہر کہ اسمِ اللہ خرید بعین العیان دید
ترجمہ: جو شخص اپنی جان بیچ کر (یعنی اپنا سب کچھ نثار کر کے) اسمِ اللہ ذات خرید لیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کھلی آنکھوں سے کرتا ہے۔ (عین الفقر)
بجز دیدارِ حق مردار باشد
کہ عاشق طالبِ دیدار باشد
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے دیدار کے سوا ہر چیز مردہ ہے۔ عاشق صرف اور صرف دیدارِ الٰہی کی طلب کرتا ہے۔ (عین الفقر)
دراصل مراتب دوہیں ،ایک مرتبۂ انسان اور دوسرا صورتِ انسان وسیرتِ حیوان جو ہمیشہ بے جمعیت اور پریشان رہتے ہیں۔ پس حیوان انسان اور اشرف الانسان کن مراتب سے پہچانا جاتا ہے؟انسان وہ ہے جو ہمیشہ مشرف بہ دیدارِ سبحان رہتا ہے۔ دنیا مردار کی طلب انسان کے لیے خطرات کا باعث ہے۔ مشاہدئہ دیدار میں جمعیت ہے اور دنیا مردار کی طلب میں پریشانی و بے جمعیتی ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو دیدار کا انکار کرتا ہے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا امتی نہیں ہے۔ اس کے نصیب میں خواری ہے اور اس خواری سے وہ خود بے خبرہے۔ (مجتبیٰ آخرزمانی)
لقائے الٰہی صرف اللہ کے ان عاشقوں کے نصیب میں ہے جو اس کے قائل ہیں اور دن رات اس کی طلب میں رہتے ہیں۔ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
کور مادر زاد کی بیند لقا
کور را باور نباشد بر نما
ترجمہ: مادر زاد باطنی اندھے کو لقائے الٰہی کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ اور اگر اسے عطا کر بھی دیا جائے تو بھی وہ اس پر یقین نہیں کرتا۔
اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس ۔(نور الہدیٰ کلاں)
لقائے الٰہی کا یہ عظیم مرتبہ بھی صرف سروری قادری مرشد کامل اکمل کی وساطت سے حاصل ہو سکتا ہے، سروری قادری سلسلہ کے علاوہ کسی سلسلہ میں یہ فیض موجود نہیں۔ حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
منصب و مرتبۂ دیدارِ الٰہی کی توفیق و برداشت و تحقیق صرف طالب مرید سروری قادری کو حاصل ہے۔ دیگر طریقے والا اگر کوئی لقائے الٰہی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ لاف زن ہے، جھوٹا ہے اور اہلِ حجاب ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
سروری قادری مرشد کی پہچان اور کمال ہی یہ ہے کہ وہ لقائے الٰہی کے طالبوں کو اس مرتبہ تک بغیر کسی ریاضت و مجاہدہ کے صرف اپنی مہربانی اور اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور کے ذریعے پہنچا دیتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مرشد کامل طالب کو خوشخط لکھا ہوا اسمِ اللہ عطا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے طالب! اس اسم اللہ کو اپنے دل پر لکھ۔ جب اسم اللہ دل پر لکھنے سے طالب کے قلب میں قرار پکڑلیتا ہے تو مرشد کہتا ہے کہ اے طالب! دیکھ اسم اللہ ذات میں سے تجلیات آفتاب کی روشنی کی مثل طلوع ہو رہی ہیں۔ ان تجلیات میں طالب کو دل کے ارد گرد ایک لازوال مملکت اور چودہ طبق سے وسیع تر میدان دکھائی دیتا ہے جس میں دونوں جہان اسپند کے دانے کی مانند نظر آتے ہیں ۔ (نور الہدیٰ کلاں)
دیدارِ الٰہی کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کریں۔
https://www.sultan-bahoo.pk/deedar-e-elahi-sultan-bahoo-laqa-e-elahi-munkar-deedar-e-elahi
مرشدِ کامل کے بغیر اگر کوئی ساری عمر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے پھر بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ بغیر پیر و مرشد کوئی اللہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ باطن کی راہ کے تمام مقامات و منازل سے آگاہ ہوتا ہے اور ہر مشکل کا مشکل کشا ہوتا ہے۔ مرشد کامل توفیقِ الٰہی کا دوسرا نام ہے۔ توفیقِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ مرشد جہاز کے تجربہ کار اور باخبر جہازران کی مانند ہوتا ہے جسے راستے میں آنے والی تمام آفات اور مشکلات (اور ان کے حل) کا علم ہوتا ہے۔ اگربحری جہازپر تجربہ کار جہازران نہ ہو تو جہاز ڈوب کر غرق ہو جاتا ہے ۔ مرشد خو د ہی جہاز ہے اور خود ہی جہازران ہے:فَھِمَ مَن فَھِمَ(جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا)۔ (عین الفقر)
پس جو مرشد اللہ کے لقا کے سچے طالب کو لقائے الٰہی کے مرتبہ تک نہیں پہنچاتا وہ مرشدی کے لائق ہی نہیں کہ اللہ والوں کا کام ہی اللہ تک پہنچانا ہے۔
اللہ اللہ کرنے سے اللہ نہیں ملتا
یہ اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنے باطنی کمال اور ذکر و تصور اسم اللہ ذات کے ذریعے طالبانِ مولیٰ کو لقائے الٰہی کے عالیشان مرتبہ تک پہنچا رہے ہیں۔ جو نیک نیتی کے ساتھ تعصب کو دل سے نکال کر خالص طلب ِ مولیٰ دل میں لے کر آئے گا آپ مدظلہ الاقدس کی مہربانی سے اس نعمت سے ضرور فیض یاب ہوگا۔ انشاء اللہ