ع عِلموں باجھ فقر کماوے، کافر مرے دیوانہ ھُو

Rate this post

 ع   عِلموں باجھ فقر کماوے، کافر مرے دیوانہ ھُو

Ain     Ilmon baajh Faqr kamaave, kafir mare deewaanaa Hoo

ع    عِلموں باجھ فقر کماوے، کافر مرے دیوانہ ھُو
سَے وَرہیاں دِی کرے عبادت، رہے اﷲ کنوں بیگانہ ھُو
غفلت کنوں نہ کھُلیُس پردے، دِل جاہل بت خانہ ھُو
میں قربان تنہاں توں باھوؒ، جنہاں ملیا یار یگانہ ھُو

مفہوم:

حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے اس بیت میں تلقین و ارشاد کی مسند کے تقاضوں کو بیان کیا ہے۔ آجکل یہ رواج اور دستور بن گیا ہے کہ ہر کوئی تلقین و ارشاد کی مسند پر بیٹھ کر ذکر اور تصور اسم ِاللہ ذات عطاکرنا شروع کر دیتا ہے یا پیر بن کر لوگوں کی روحانی تربیت کا کام شروع کر دیتا ہے۔ راہ ِ فقر میں یہ دستو ر ہے کہ جب مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ کا اس عالم ِ ناسوت سے رخصت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ اپنے تمام طالبانِ مولیٰ میں سب سے سچے اور اعلیٰ طالب کو باطن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چونکہ خزانہ فقر کے مختارِ کُل ہیں آپؐ طالب (دِل کا محرم) کو علم ِ لدنیّ عطا فرماتے ہیں اور مرشد ِ کامل اکمل نورالہدیٰ کو اجازت عطا فرماتے ہیںکہ اب وہ طالب کی تربیت تلقین و ارشاد کی مسند پر بیٹھنے کے لیے کرے۔ مرشد باطن میں اس طالب کی تربیت کا آغاز کرتا ہے، جب طالب کی تربیت مکمل ہو جاتی ہے تو مرشد اس عالم ِناسوت سے چلا جاتاہے اور اپنی مسند ِتلقین و ارشاد طالب کے حوالے کر دیتا ہے تب لوگو ں کو تعلیم و تلقین کرنا اور ذکر و تصور اسم ِاللہ ذات عطا کرنا اس طالب پر فرض ہو جاتا ہے۔ جو اس طریقہ کار کے علاوہ خودبخود یہ کام شروع کردیتا ہے وہ آخر کار دیوانہ، مرتد اور کافر ہو کر مرتا ہے اور اس کا انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسی بہت سی مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص خواہ سینکڑوں سال عبادت کرتا رہے لیکن یہ عبادت و ریاضت اس کے دِ ل کے حجابات دور نہیں کر سکتی کیونکہ اس نے اپنی خواہشات کو اپنا الٰہ بنا رکھا ہے اور اس نے تو لوگوں سے مال و دولت اکٹھا کرنے کے لیے راہِ فقراختیار کی ہے اور مسند ِتلقین و ارشاد سجا رکھی ہے۔
دوسری شرح اس بیت کی یہ ہے کہ جو شخص علم کے بغیر راہِ فقر پر سفر کرتا ہے وہ کافر اور دیوانہ ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی مرشد کامل کے بغیر سو سال تک بھی عبادت کرتا رہے تو اُسے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہوگی، تمام عبادات کے باوجود اس کے دِل سے حجابات دور نہیں ہوں گے اور وہ جاہل کا جاہل ہی رہے گا۔ آخری مصرعہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایسے طالبانِ مولیٰ کے قربان جائوں جن کو وصالِ الٰہی نصیب ہو گیا ہے اور وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔

 

لغت:

الفاظ مفہوم
عِلموں علم
باجھ بغیر
سَے سینکڑوں
وَرہیاں سال ہا سال
دِی کی
اللہ کنوں اللہ تعالیٰ سے
کھُلیُس کھلیں گے
یار یگانہ بے مثل، بے مثال دوست۔ محبوبِ حقیقی
Spread the love