195-ہ
ہِک جاگن ہِک جاگ نہ جانن، ہک جاگدیاں ہی سُتے ھوُ
Hik jaagan hik jaag na jaanan, hik jaagdiaan hee sutte Hoo
ہِک جاگن ہِک جاگ نہ جانن، ہک جاگدیاں ہی سُتے ھوُ
ہِک ستیاں جا واصل ہوئے، ہِک جاگدیاں ہی مُٹھے ھوُ
کی ہویا جے گھگو جاگے، جیہڑا لیندا ساہ اَپُٹھے ھوُ
میں قربان تنہاں توں باھوؒ، جنہاں کھوہ پریم دے جُتے ھوُ
مفہوم:
ایک طرف تو وہ طالبانِ مولیٰ ہیں جن کے دِل اسمِ اللہ ذات سے بیدار اور زندہ ہیں، انہوں نے نہ صرف دِل کو اسمِ اللہ ذات کے نور سے منورکر رکھا ہے بلکہ دل کی زمین کو مرشد کی محبت، عشق اور دیدار سے بھی آباد کر رکھا ہے۔ یہ عارف اگر ظاہر میں سوئے ہوئے بھی ہوں مگر باطن میں بیدار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طالبانِ خام ہیں جو حقیقتِ اسمِ اللہ ذات سے بے خبر ہیں اور ظاہری اشغال کے ذریعے معرفت ِ الٰہی کے لیے سرگردان ہیں۔ ظاہر میں یہ بیدار بھی ہوں تو ان کی روحیں سوئی ہوتی ہیں۔ یہ ایسے بدنصیب ہیں جو حقیقت سے بے بہرہ ہیں۔ کہیں سے پڑھ کر یا سنُ کر پاس انفاس یا حبسِ دم کی الٹی سانسوں کے ذریعے ذکر کی مشقیں شروع کر دیتے ہیں اور ناکام رہتے ہیں۔ ان کی مثال اُلو کی طرح ہے جو خواہ ساری عمر الٹا لٹکا رہے مگر رہتا اُلو ہی ہے یعنی ان کی شدید زہد و ریاضت بھی انہیں خالص نہیں بنا سکتی۔ آخری مصرعہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اشارہ مرشد کامل اکمل کی طرف ہے کہ جس طرح کنواں کھیتوں کو سیراب کرتا ہے اسی طرح ہر کوئی اُن سے رُشدو ہدایت حاصل کر سکتا ہے اور عشق و معرفتِ الٰہی سے اپنی طلب اور استعداد کے مطابق سیراب ہو سکتا ہے۔
لغت:
الفاظ | مفہوم |
---|---|
ہِک | ایک |
جاگن | جاگتے ہیں۔ بیدار رہتے ہیں |
جاگ نہ جانن | جاگنا جانتے ہی نہیں |
جاگدیاں ہی | جاگتے ہوئے |
سُتے | سوئے ہوئے |
مُٹھے | محروم رہ گئے |
کی ہویا | کیا ہوا |
گھگو | اُلّو |
جیہڑا | جو |
ساہ | سانس |
لیندا | لیتا ہے |
اَپُٹھے | اُلٹے |
تنہاں توں | اُن کے |
جنہاں | جنہوں نے |
کھوہ پریم دے | محبت کے کنویں |
جُتے | جَوتے۔ چلائے |