ارائیں…Arain

Rate this post

ارائیں…Arain

ارائیں قوم کا تاریخی پس منظر

عوام الناس میں ارائیں قوم کے پس ِ منظر کے متعلق مختلف نظریات رائج ہیں لیکن ایک بات جو متفق علیہ اور بعد از تحقیق ثابت ہے وہ یہ ہے کہ یہ قوم عربی النسل ہے اور 92ھ (712) میں محمد بن قاسم کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئی۔

 نظریہ الرعی

 محمد بن قاسم بنو اُمیہ کے زمانے میں حجاج بن یوسف کے حکم سے ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ اس زمانے میں اسلامی ریاست روز بروز پھیل رہی تھی اور مسلمان جہاں جاتے اسلامی تعلیمات کو پھیلاتے اور اپنے حسن ِ اخلاق و تبلیغ ِ دین سے لاکھوں لوگوں کو مسلمان کرتے۔اس دور میں اسلامی لشکر جس علاقے کو بھی فتح کرتا وہاں اپنی آبادیاں بھی قائم کرتا۔ اسلامی لشکر میں نہ صرف فوج بلکہ تقریباً تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شامل ہوتے کیونکہ فوج کو اس علاقے میں چند دن نہیں بلکہ مہینوں یا سالوں قیام کرنا پڑتا تھا۔ ایک آبادی کے قیام کے لیے جن جن پیشہ ور ماہرین اور کارکنان کی ضرورت ہوتی وہ سب اس لشکر میں ساتھ ہوتے اور خصوصاً ہر لشکر میں تبلیغِ دین کے لیے علمائے دین بھی موجود ہوتے کیونکہ فوج کا کام تو صرف علاقہ فتح کرنا ہوتا تھا۔ دین کی تبلیغ کرنا فوج کا نہیں بلکہ علما و صوفیا کاکام تھا۔ قومِ ارائیاں کے بزرگ محقق صوفی محمد اکبر علی جالندھری جنہوں نے اس قوم کے پسِ منظر پر پہلی بار تحقیق کو کتابی صورت میں’سلیم التواریخ ‘کے نام سے 1919ء میں شائع کیا، تحقیقاً یہ بات رقم کرتے ہیں ’’ارائیوں کا تعلق ان عربوں کی نسل سے ہے جنہوں نے محمد بن قاسم کی ہمراہی میں سندھ فتح کیا۔ قوم اراعین کے بزرگ شیخ سلیم الراعی مثل دیگر عربوں کے یزیدی مظالم سے تنگ آکر مدینہ سے ہجرت کرکے شام کی طرف (موجودہ عراق) چلے آئے تھے اور دریائے فرات کے کنارے قیام کرکے عربوں کا آبائی پیشہ گلہ بانی شروع کر دیا۔اسی گلہ بانی کے سبب شیخ سلیم ’الراعی‘ مشہور ہوئے۔‘‘

’’راعی‘‘ سے مراد نگہبان ہے جیسا کہ حدیثِ پاک ہے کہ اَلاَ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ    ترجمہ:’’ خبردار رہو تم سب راعی (نگہبان) ہو اور تم سب سے اپنی اپنی رعیت کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘ گلہ بانی بیشتر انبیا اور اولیا کا پیشہ رہا ہے اور ہمارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رہائش کے دوران گلہ بانی کی۔ گلہ بان چونکہ اپنے گلے کا نگہبان ہوتا ہے اس لیے عربی میں ’’راعی‘‘ کہلاتا ہے۔

صوفی اکبر علی کی تحقیق کے مطابق ارائیں حضرت سلیم الراعی رحمتہ اللہ علیہ کے بیٹے حضرت حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد ہیں اور انہی کا نام ’’الراعی‘‘ ان کی اولاد اور قبیلے کی پہچان بنا جو زمانے کے ساتھ تبدیل ہوتے ہوتے راعین ، اراعین اور پھر ارائیں بن گیا ۔ شیخ حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند شیخ حلیم الراعی محمد بن قاسم کے ساتھ تبلیغِ دین کے مقصد سے ہندوستان تشریف لائے۔

حضرت حبیب الراعی  رحمتہ اللہ علیہ اعلیٰ درجات کے حامل تابعی بزرگ ولی ہیں جنہوں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ سے فیض حاصل کیا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ اصحابِ صفہ میں سے ہیں اور ’’صفہّ‘‘ ہی تصوف اور فقر کی بنیاد ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے باطنی علوم کے حامل اور سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے بعد شیخ اور ان کے روحانی وارث ہیں۔ ’سلیم التواریخ‘ کے مصنف نے حضرت شیخ حبیب الراعی  رحمتہ اللہ علیہ کے والد شیخ سلیم الراعی  رحمتہ اللہ علیہ کا شجرۂ نسب مولانا محمد خان قندھاری کی کتاب ’تذکرۃ الاخوان فی ذکر عمدۃ البیان‘ سے نقل کیا ہے اور اس شجرۂ نسب کے مطابق قوم ارائیاں کے بزرگ حضرت سلیم الراعیؒ کا شجرہ چھٹی پشت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا ملتا ہے۔

شیخ حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ

قومِ ارائیاں کے جدَ شیخ حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ ایک باکمال بزرگ تھے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کشف المحجوب میں ان کے متعلق بیان کرتے ہیں:
ان اولیا اللہ میں ایک بلند مرتبہ کے فقیر اور تمام اولیا کے امیر ابو حلیم حبیب بن سلیم الراعی رحمتہ اللہ علیہ  مشائخ کرام کے درمیان بہت بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے بزرگ ہونے کی علامات اور دلائل ہر حال کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہٗ کے ساتھیوں میں سے ہیں ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت فرماتے ہیں کہ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ (ترجمہ: مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے)۔ حضرت حبیب بن سلیم الراعی رحمتہ اللہ علیہ بھیڑ بکریوں کے مالک تھے اور دریائے فرات کے کنارے پر آباد تھے۔ ان کا طریقہ گوشہ نشینی کا تھا۔ ایک بہت بڑے پارسا روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ان کے پاس گیا تو حبیب بن سلیم رحمتہ اللہ علیہ نماز پڑھ رہے تھے اور ایک بھیڑیا آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بکریوں کی حفاظت کر رہا تھا۔ میں نے اپنے دِل میں کہا کہ اِس بزرگ کی زیارت کرنی چاہیے کیونکہ میں ان کے اندر کامل ہونے کی نشانی دیکھ رہا ہوں۔ کچھ وقت میں وہاں ٹھہرا یہاں تک کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نماز سے فارغ ہوئے میں نے ان کوسلام کیا۔ انہوں نے کہا’’لڑکے تو کس کام کے لیے آیا ہے۔‘‘میں نے کہا آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے آیا ہوں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’اللہ تمہیں خیر و برکت عطا فرمائے ۔ ‘‘میں نے کہا ’’اے شیخ! اس بھیڑیے اور بھیڑوں میں موافقت دیکھتا ہوں۔‘‘ آپ نے جواب دیا ’’اس لیے کہ بھیڑوں کو چروانے والے کی اللہ کے ساتھ موافقت ہے۔‘‘ یہ بات کہی اور ایک لکڑی کا پیالہ پتھر کے نیچے رکھا۔ اس پتھر سے دو چشمے نکلے۔ ایک دودھ کا ایک شہد کا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پیالہ بھرا اور مجھے کہا کہ نوش کرو۔ میں نے عرض کیا’’ اے شیخ! یہ مرتبہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کس طرح حاصل کیا۔‘‘ حضرت حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا’’اے لڑکے! موسیٰ علیہ السلام کی قوم جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف تھی، اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برکت کے ساتھ پتھر سے پانی دیا جبکہ میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مطابقت اور موافقت کرلی ہے تو کیا مجھے پتھر سے دودھ اور شہد نہیں دے سکے گا، اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اعلیٰ و ارفع ہیں۔‘‘ میں نے شیخ حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کہالَا تَجْعَلْ قَلْبُکَ صَنْدُوْقِ الْحِرْصِ وَبَطْنُکَ وِعَائِ الْحَرَامْ (تو دِل کو حرص کا صندوق نہ بنا اور اپنے پیٹ کو حرام کی جگہ نہ بنا)۔ (حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ) مخلوق کی ہلاکت انہی دو چیزوں میں ہے اور مخلوق کی نجات انہی دو چیزوں سے ہے۔ میرے شیخِ کامل حضرت حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ کی بہت سی روایات بیان کرتے تھے لیکن میرے پاس وقت میں تنگی ہے کہ میں اس سے زیادہ کچھ بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میری کتابیں غزنی میں رہ گئی ہیں۔ اللہ ان کو محفوظ و مامون رکھے۔‘‘( کشف المحجوب ۔ صفحہ 161-162 ترجمہ: مولانا میاں رمضان علی، دسمبر2007۔ علم و عرفان پبلیشرز لاہور)

انہی کامل ولی حضرت حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند شیخ حلیم الراعیؒ کو محمد بن قاسم اپنے لشکر میں مع ان کی اولاد اور قرابتی رشتہ داروں کے، تبلیغ ِ دین کے مقصد کی تکمیل کے لیے ساتھ لے کر سندھ کے راستے ہندوستان میں داخل ہوا۔ چار سال محمد بن قاسم ہندوستان میں فتوحات حاصل کرتا رہا اور عرب بھی اس کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ جب عرب یہاں آباد ہونے لگے اور حالات بھی آباد کاری کے لیے کافی ساز گار معلوم ہوئے تو ان کے اہلِ خانہ بھی یہیں آگئے۔

بنو اُمیہ کے حاکم ولید بن عبد المالک اور حجاج بن یوسف کی وفات کے بعد سلیمان بن عبد المالک نے حکومت سنبھالی۔ وہ حجاج بن یوسف اور اس کے جر نیلوں کا سخت مخالف تھا اور اس کے ساتھی جرنیلوں کو سخت سے سخت سزائیں دے رہا تھا۔ اس نے محمد بن قاسم کو ہندوستان سے واپس بلوالیا اور سخت اذیتیں دے کر مروا دیا اور اس کے ساتھ ہندوستان جانے والے عربوں کو حکم دیا کہ واپس ہر گز نہ آئیں۔ اس طرح ایک طرف تو ہندوستان میں فتوحات کا سلسلہ رک گیا دوسری طرف سندھ میں آباد عربوں کو سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ تاریخ ذکائی میں درج ہے ’’جو عرب یہاں آئے ان کو جیسا آگے بڑھنا مشکل تھا ویسا ہی وطن میں پیچھے جانا دشوار تھا۔‘‘ تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ خلیفہ سلیمان بن عبدالمالک نے ان لوگوں کی نسبت یہ حکم دیا ’’جہاں چاہو محنت مزدوری کرو اور زمین بوؤ، جوتو۔ ملک عرب (عراق) میں تمہارے واسطے جگہ نہیں۔‘‘ یوں شیخ حلیم الراعی رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے فرزندوں نے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ روزی کے حصول کے لیے اس زمانہ کا اعلیٰ ترین پیشہ کاشت کاری اختیار کر لیا۔ یہ قدیم کہاوت اس کی نشاندہی کرتی ہے: 

اُتمّ کھیتی، مدھم بیوپار، نکھد چاکری بھیک دوار

یعنی سب سے اعلیٰ پیشہ کاشت کاری ہے اس سے کمتر کاروبار ہے اور سب سے کمتر نوکری ہے جو بھیک مانگنے کے مترادف ہے۔

                 نظریہ الراعی پر اعتراضات

’سلیم التواریخ‘ میں پیش کئے گئے صوفی اکبر علی کے قوم ارائیں کے جد ِ اعلیٰ حلیم الراعیؒ کے ہندوستان آنے کے متعلق مندرجہ بالا نظریے پر دیگر محققین کے کئے گئے اعتراضات اور ان کے نظریات کا جائزہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
قوم ارائیں کی تاریخ پر دوسری تحقیق علی اصغر چوہدری صاحب نے ’’تاریخ ارائیاں‘‘ کے نام سے 1963میں شائع کی جس میں انہوں نے صوفی اکبر علی کے نظریہ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تو لوئی کی نویں پشت ہیں اور شیخ سلیم الراعی رحمتہ اللہ علیہ چھٹی پشت جبکہ شیخ سلیم الراعی رحمتہ اللہ علیہ کا زمانہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے بعد کا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ نویں پشت پہلے پیدا ہو جائے اور چھٹی پشت بعد میں ۔ تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بات یوں ممکن ہے کہ جس پشت میں اولادیں جلدی پیدا ہوں اور پھر ان کی شادیاں بھی کم عمرمیں ہوں اور پھر ان کی اولادیں جلدی پیدا ہوں اور پھر ان کی شادیاں بھی جلدی ہوں اور یوں ہی چلتا رہے تو یہ نسل تیزی سے آگے بڑھے گی اور اس کی پشتیں کم وقت میں زیادہ تبدیل ہوں گی۔ اس کے برعکس جس پشت میں دیر سے شادیاں ہوں اور دیر سے اولادیں ہوں وہ سست روی سے آگے بڑھے گی۔ اسی طرح ایک ہی باپ کے سب سے بڑے بیٹے کی اولاد میں پشتیں اسی باپ کے سب سے چھوٹے بیٹے کی اولاد کی پشتوں سے زیادہ جلد تبدیل ہوں گی اور زیادہ تیزی سے بڑھیں گی۔ آج بھی ہمارے ارد گرد ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ اس لیے یہ اعتراض موزوں نہیں ۔ کیونکہ اگر ہم قبیلہ قریش سے ہی اس کی مثال لیں تو حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہٗ بن حارث بن مطلب اور اُن کے بھائی حضرت طفیل اور حضرت حصین رضی اللہ عنہم جو اولین و سابقین میں سے ہیں ساتویں پشت سے ہیں اور حضرت عبد المطلب کے بڑے فرزند حضرت حارث بن عبد المطلب کے فرزند نوفل بن حارث بن عبد المطلب جو نویں پشت سے ہیں اپنے چچاؤں حضرت عباس رضی اللہ عنہٗ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہٗ سے عمر میں دوسال بڑے ہیں یعنی نویں پشت آٹھویں پشت سے عمر میں دوسال بڑی ہے۔ خود سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کے والد عبد الحمید  رحمتہ اللہ علیہ اپنے بہن بھائیوں میں سے بڑے تھے لیکن اُن کی اولاد عمر میں سب کی اولاد سے چھوٹی ہے۔   

دوسرا اعتراض انہوں نے یہ کیا کہ انہوں نے کافی تحقیق کی لیکن انہیں محمد بن قاسم کی فوج میں حلیم الراعی نام کے کسی سردار کا ذکر نہیں ملتا ۔ اس سلسلے میں وہ سندھ کی تاریخ ’چچ نامہ‘ اور ایک دوسری کتاب ’آئینہ حقیقت نما‘ کا حوالہ بھی پیش کرتے ہیں۔

اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ’چچ نامہ‘ کوئی مکمل تاریخ نہیں ۔جو کچھ حقائق مصنف کو دستیاب ہوئے وہ لکھ دئیے اور جو موجود ہونے کے باوجود اس وقت مل نہ سکے انہیں اپنی کتاب میں نہ لکھا ۔ ایک شخص کی تحریر کردہ تاریخ مکمل نہیں ہوتی ۔ دوسری کتاب ’آئینہ حقیقت نما‘ کی مثال بھی ایسی ہے۔ دوسرا یہ کہ محمد بن قاسم کے لشکر میں کم از کم بارہ ہزار افراد شامل تھے۔ ان سب افراد کے نام تو کسی تاریخ کی کتاب میں نہیں لکھے ہوں گے۔ البتہ فوج کے بڑے بڑے کمانڈروں اور جر نیلوں کا تذکرہ ضرور مل جائے گا۔ جبکہ حلیم الراعی محمد بن قاسم کے ساتھ کمانڈر یا جرنیل کی حیثیت سے نہیں بلکہ مبلغِ دین کی حیثیت سے ہندوستان آئے۔ مسلمان بادشاہوں اور جنگوں کے بارے میں لکھی ہوئی تواریخ صرف ان بادشاہوں اور جنگی کمانڈروں کے گرد ہی گھومتی ہیں۔ اس میں کسی ولی اللہ ، صاحب ِ شریعت عالم کا نام تک نظر نہیں آتا۔ برصغیر اولیا کرام کے مزارات سے بھرا پڑا ہے لیکن بر صغیر کی تاریخ کی کوئی بھی مستند کتاب اٹھا کر دیکھ لیں چند اولیا کرام کے سوا کسی کا ذکر نہیں ملے گا۔ اولیا کرام اور علمائے حق کے بارے میں مطالعہ کے لیے ان پر خصوصاً تحریرکی گئی دوسری کتب کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ شیخ حلیم الراعی رحمتہ اللہ علیہ ایک مستند اور کامل اکمل ولی اللہ شیخ حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند تھے اور ولی کامل بھی ایسے جن کا تذکرہ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں۔ جس طرح آج بھی فوج میں مذہبی فرائض کی ادائیگی اور تربیت کے لیے علما تعینات کیے جاتے ہیں اُس زمانہ میں بھی اولیا اور علما فوج میں شامل ہوتے تھے۔ اولیا کرام افواج کی باطنی تربیت ، باطنی امداد اور نئے مفتوحہ علاقہ میں دعوت و تبلیغ کے فرائض سر انجام دیتے تھے۔ شیخ حبیب الراعی رحمتہ اللہ علیہ کامل ولی تھے ان کے فرزند بھی علمِ باطن کے عالم ہوں گے اور انہیں فوج میں دعوت و تبلیغ ، باطنی امداد اور افواج کی مذہبی تربیت کے لیے رکھا گیا ہو گا اور یہ کام انہوں نے خمول و گمنامی میں رہ کر کیا ہوگا۔ اولیا کرام یوں بھی شہرت کے خواہاں نہیں ہوتے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا تذکرہ تاریخ کی کتب میں نہیں ملتا ۔ لیکن محمد بن قاسم کے ساتھ بہت سے اولیاکرام سندھ تشریف لائے اس کا ثبوت یہ حقیقت ہے کہ سندھ کے مختلف شہروں میں شہیدوں اور اولیا اللہ کی ایک لاکھ قبریں ہیں۔ (بحوالہ قاری سیدّ میراں شاہ)

نظریہ اریحائی

شیخ حلیم الراعی رحمتہ اللہ علیہ کا نام محمد بن قاسم کی فوج میں نہ ملنے کی بنا پر ’’تاریخ ارائیاں ‘‘ کے مصنف علی اصغر چوہدری ارائیں قوم کے متعلق اپنی تحقیق کے مطابق یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ارائیں شام کے علاقے ’’اریحا‘‘ سے محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے عرب جنگجو ہیں۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے دور میں شام کے گورنر تھے تو انہوں نے دمشق کے قریب ’’اریحا‘‘ نامی ایک قدیم شہر میں فوجی چھاؤنی کی بنیاد رکھی اور دمشق کے اس طرف کھلنے والے دروازے کو بابِ اریحا کانام دیا جو آج بھی اسی نام سے منسوب ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہٗ نے اس چھاؤنی میں عرب کے جنگجو، جن کا تعلق قریش اور عرب  کے مختلف قبیلوں سے تھا، لا کر آباد کیے اور یہی جنگجو عرب محمد بن قاسم کے ساتھ ہندوستان میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے اور اریحائی کہلائے جو بعد میں اراعین اور پھر بگڑ کر ارائیں بن گیا۔ ’جنت السندھ ‘ میں ہے:

’’سندھ پر جس عربی لشکر (یعنی محمد بن قاسم) نے حملہ کیا اس میں عراقی ،شامی، یمنی اور حجازی افسر تھے۔ ان میں کئی ایسے بزرگ تھے جنہوں نے صحابہ کرام ؓ کی مبارک صحبتوں سے فیض حاصل کیا تھا۔ اس لیے ان میں ایمانی روح تھی۔ اس لشکر میں قریش سے بنوامیہ، بنو کلب، بنو قیس، بنو اسد، بنوتیم، بنو سلیم، ربیع ، شیبانی، عمانی، ازدی، یمن اور حجاز کے شریف لوگ شامل تھے جنہوں نے یرموک اور مدائن جیسے خونریز معرکوں میں قیصر و کسریٰ کی عظمت کو خاک میں ملادیا تھا۔‘‘ (تاریخ ارائیاں، طبع1977، صفحہ69)

’آئینہ حقیقت نما‘ کے مصنف اکبر شاہ نجیب آبادی بھی ارائیوں کو اریحا کے سرداروں کی نسلیں قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
اوپر کئی جگہ محمد بن قاسم کے ہمراہیوں کا ذکر آچکا ہے کہ وہ شامی اور عراقی گروہوں پر مشتمل تھے، شامی لوگ سب سے زیادہ با اعتماد اور خلافتِ بنو امیہ کے حامی اور ہمدرد تھے۔ یہ عموماً بنی امیہ اور حجازی (قریش) تھے۔ ان لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ملک شام کے شہر اریحا میں آباد تھی اور حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کے سا تھ جو فوج بھیجی اس میں ایک معقول تعداد اریحا کے باشندوں کی تھی۔

             نظریہ اریحائی پر اعتراضات

پشت در پشت ارائیں بزرگوں کے ذریعے منتقل ہونے والے علم کے مطابق ارائیں قوم ’’الراعی‘‘ نظریہ کی حامی ہے۔ جتنے بھی ارائیں قوم کے اخبارات و رسائل شائع ہوتے رہے ہیں مثلاً  ہفت روزہ الراعی ، راعی گزٹ، اخبار الراعی، ماہنامہ الراعی لاہور، ماہنامہ الراعی انٹرنیشنل لندن اور مصنف کاروانِ ارائیاں کے مطابق انجمن ارائیاں پاکستان (رجسٹرڈ) بھی راعی کے نظریہ کوہی درست تسلیم کرتی ہے۔

اریحائی نظریہ کو قبول کرنے میں یہ دقت پیش آتی ہے کہ اریحا ایک فوجی چھاؤنی کا نام ہے جس میں تمام عرب قبائل کے جنگجو ملازمت اختیار کیئے ہوئے تھے۔ عربوں کی ایک خصوصیت ہے کہ وہ اپنا قبیلہ اور قبیلے سے تعلق کو کبھی نہیں بدلتے اور قریش تو ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مختلف قبائل کے عربوں پر مشتمل ایک فوج نے ایک چھاؤنی میں رہائش کی وجہ سے اپنا تعلق اپنے قبیلے سے توڑ کر خود کو اریحائی کہلانا شروع کر دیا ہو۔ قریش کا کوئی فرد نہ خود ایسا کرے گا نہ ہی اپنی اولاد کو ایسا کرنے کی تلقین کرے گا۔ یوں بھی مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہجوم سے قوم نہیں بنتی بلکہ قوم کا تعلق تو صرف ایک قبیلہ اور ایک بزرگ کی اولاد اور اس سے چلنے والی نسل سے ہوتا ہے۔ ارائیں قوم نے توہمیشہ اپنی انفرادیت قائم رکھی ہے۔ہندوستان آمد کے بعد بھی وہ کسی دوسری قوم کو نہ اپنے اندر ضم کر سکی نہ خود کسی دوسری قوم میں ضم ہوئی اور نہ اب تک کسی دوسری قوم کو اپنے میں جذب کرتی ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ تیرہ سو سال پہلے یہ مختلف قوموں کے امتزاج سے بنی ہوگی جو صرف ایک مقام اریحا پر اکٹھے ہوگئے تھے۔

پھر دیگر عربی اقوام جو سندھ میں آباد ہیں اور محمد بن قاسم کے لشکر میں شامل تھے وہ کیوں ارائیں نہ کہلوائے اور انہوں نے اپنی علیحدہ شناخت کیوں برقرار رکھی مثلاً تمیمی (یمنی) ، ثقفی بنی مغیرہ، یتوار ، طائی، حارث سعدیہ، اطلیہ، انصاری، صدیقی، فاروقی، عباسی، قریشی، سکھر کے قاضی، شیخ، مخدوم، پیر سید، اخوند، علوی وغیرہ ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اریحائی نظریہ حقیقت کے بر عکس ہے۔

 

نظریہ’’آلِ ذورعین‘‘

جناب منشی ابراہیم صاحب محشرانبالوی اپنی کتاب ’آلِ ذورعین‘ مطبوعہ1922ء میں ارائیوں کے متعلق یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ ارائیں دراصل قحطانی عرب ہیں اور ’’پریم ذورعین‘‘ کی  اولاد ہیں جو1352قبل مسیح پیدا ہوا۔ اس کے چچا کی اولاد میں حارث نامی ایک شخص کے زمانہ سے قوم راعین ہندوستان پر حملہ آور ہوتی رہی یعنی اسلام سے تقریباً 2000سال پہلے سے ہندوستان آنا شروع ہوئی اور پھر زمانہ اسلام میں بھی اسلامی لشکر کے ساتھ آتی رہی۔ یہی لوگ رعین سے راعین اور پھر ارائیں کہلائے۔ اس قوم میں سے نعمان ذورعین 633ء میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نامہ مبارک پڑھ کر مسلمان ہوا۔ وہ اس وقت یمن کے ایک حصہ کا فرمانروا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے بھائی نعیم بن عبد کلال ذورعین اور حرث بن عبد کلال بھی اسلام لائے۔ نعمان ذورعین کا نامہ ،جو اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھا جس میں اسلام قبول کرنے کا اقرار تھا اور اس خط کا جواب جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نعمان کو لکھا، تاریخ میں محفوظ ہے ۔آلِ ذورعین کا شجرۂ نسب اس طرح سے ہے:

اس تحقیق کو قبولیت حاصل نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو ظہورِ اسلام سے قبل عربوں کا ہندوستان پر حملہ آور ہونا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی محمد بن قاسم کے لشکر میں آلِ ذورعین کا شامل ہونا۔ لیکن اگر اس تحقیق کو درست مان بھی لیا جائے تو بھی ارائیں عربی النسل ثابت ہوتے ہیں۔

ارائیں قوم کے بارے میں چند اور نظریات

کچھ لوگوں نے محض اپنے تصورات کی وجہ سے خیالی نظریات پیش کیے جو قبولیت کا درجہ حاصل نہ کر سکے کیونکہ ان کی بنیاد ٹھوس حقائق ، شواہد اور تحقیق پر مبنی نہ تھی۔ 

(۱) ’ارائیں آریا نسل سے ہیں‘ کا نظریہ محض دونوں لفظوں میں صوتی مماثلت کی وجہ سے پیش کیا گیا یا پھر جرمنی میں پاسپورٹ کے خانہ میں ARAINلکھا ہوتا ہے جس کی وجہ سے جرمنی میں ارائیوں کی آریا سمجھ کر بڑی پذیرائی ہوتی تھی۔ لیکن تاریخ اس نظریے کے حق میں کوئی بھی شہادت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آریا جرمن علاقہ رائن سے آئے تھے، تمام تاریخ دان اس سے متفق ہیں لیکن کسی بھی مستند تاریخ دان نے ارائیں کو آریا سے منسلک نہیں کیا۔

(۲) ’ارائیں ایرانی ہیں‘ کا نظریہ بھی محض صوتی مماثلت کی وجہ سے پیش کیا گیا۔ ایران سے جو اقوام ہجرت کرکے ہندوستان آئی ہیں ان کا رہن سہن ارائیں قوم سے بالکل مختلف ہے اور تاریخی لحاظ سے بھی یہ ایک بودا نظریہ ہے۔

(۳)  اپریل1962ء میں سندھ کے محمد حنیف مہرکا چیلوی نے رسالہ ’’خادمِ وطن ‘‘ میں نظریہ پیش کیا کہ ارائیں سبزیاں اگاتے ہیں اور یہودیوں نے بھی من و سلویٰ چھوڑ کر سبزیوں کی خواہش کی تھی اس لیے ارائیں یہودی نسل ہیں۔ اس نظریہ کے ردّ میں یہ کہنا کافی ہے کہ کیا بر صغیر اور پوری دنیا میں صرف ارائیں اور یہودی ہی سبزیاں اگاتے ہیں؟ فرض کریں کچھ دیر کے لیے اس کو درست مان بھی لیا جائے تو یہودیت نسلی مذہب ہے اور یہودی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد ہیں اور انبیا سابقہ کا خون ہیں۔ اگریہ حقیقت ہوتی کہ ارائیں بنی اسحاق یا بنی اسرائیل سے ہیں تویہ ارائیں قوم کی عظمت ہوتی کہ وہ نہ صرف انبیا سابقہ کی اولاد ہیں بلکہ یہ یہود میں سے وہ حق پرست گروہ ہے جو امام الانبیا ، خاتم النبیین ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لایا۔ بہت سے جید صحابہ کرام اور اُم المومنین حضرت صفیہ بنت ِحئی بن اخطب رضی اللہ عنہا بھی تو قوم یہود سے مسلمان ہوئے تھے۔ اگر یہ نظریہ درست ہوتا تو یہ نظریہ تو ارائیوں کے لیے فخر کا موجب ہوتا نہ کہ ندامت کا۔ 

(۴) ارائیوں کے متعلق یہ نظریہ بھی غلط ہے کہ ارائیں راجپوت ہیں، اگر ایسا ہوتا تو کوئی ارائیں تو راجپوت کہلاتا ۔ نہ اس بات کے لیے تاریخی حوالہ موجود ہے اور نہ ہی کسی ارائیں نے کبھی خود کو راجپوت کہلایا ۔

(۵) ’ارائیں ہندی قوم ہیں‘ کا نظریہ بھی بالکل ناقابل ِ قبول ہے کہ آج تک کسی غیر مسلم ہندوستانی نے اپنے آپ کو ارائیں کلیم نہیں کیا۔ 1881ء کی مردم شماری (جس کی تحریری رپورٹ محفوظ ہے) میں تمام ارائیں مسلمان ہیں۔ 

(۶) لندن سے صوبیدار میجر (ر) محمد شریف نے ایک الگ اور انوکھا نظریہ تخلیق کیا۔ انہوں نے بنو سامہ قبیلہ کی تین شاخوں کا ذکر کیا     (1) ابراہہ سامہ(2) شیخ سامہ(3) اراعین سامہ۔ انہوں نے ارائیوں کو اراعین سامہ کی اولاد قرار دیا۔ لیکن اس کے لیے نہ کوئی تاریخی ثبوت موجود ہے نہ کوئی قابل ِ قبول جواز ۔اس لیے یہ نظریہ بھی مؤرخین نے ردّ کر دیا۔

ارائیں قوم کے متعلق تمام معروف اور غیر معروف نظریات کو تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین اس قوم کے تاریخی پسِ منظر سے اچھی طرح آگاہ ہوجائیں۔ تمام بحث اس بات پر منتج ہوتی ہے کہ اس بات سے اگرچہ انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ارائیں قوم کے نسب نامہ کے بارے میں کچھ اختلاف موجود ہے لیکن جو حقائق مصدقہ اور مسلمّہ ہیں وہ یہ ہیں کہ ارائیں عربی النسل ہیں اور محمد بن قاسم کے ساتھ ہندوستان آئے اور یہیں آباد ہوگئے۔ اگر نظریہ الراعی کو درست تسلیم کر لیا جائے تو ارائیں قریش سے ہیں۔ 

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس نسلی تفاخر کے بالکل قائل نہیں۔ آپ نے تمام زندگی اپنے نام کے ساتھ کبھی بھی اپنی قوم یا گوت کا لاحقہ نہیں لگایا ۔ آپ کا مسلک تقویٰ ہے۔ جب بھی آپ سے آپ کی قوم یا گوت کے متعلق سوال پوچھا جاتا ہے تو جواب میں بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ شعر پڑھ دیتے ہیں: 

بلھے شاہؒ دی ذات نہ کائی میں شوہ عنایتؒ پایا اے

(بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی کوئی ذات نہیں بلکہ جو میرے مرشد عنایت شاہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں میں وہی ہوں۔ میری جو بھی عزت و مقام ہے وہ میرے مرشد سے میری نسبت کی وجہ سے ہے)

تقسیمِ ہند

قیامِ پاکستان کی تحریک میں ارائیں قوم نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس لیے ان کے ساتھ دیہاتوں میں آباد ہندو اور سکھ ان کے دشمن بن گئے چنانچہ 1947ء میں قیامِ پاکستان پر سب سے زیادہ نقصان اسی قوم کو اٹھانا پڑا۔ اس قوم کی اکثریت پنجاب کے ان علاقوں میں آباد تھی جو ہندوستان کے حصہ میں آیا۔ ان علاقوں میں یہ لوگ خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے لیکن تقسیم پر اپنا گھر جائیداد چھوڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں پاکستان پہنچے صرف اس لیے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور ’المنصورہ‘ کی اسلامی ریاست کا تصور ان کے ذہن میں تھا۔ آگ اور خون کا یہ دریا پار کرکے پاکستان پہنچنے والوں میں ایک خاندان سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا بھی تھا۔

خاندانی روایات کے مطابق یہ خاندان ہجرت سے قبل کئی صدیوں سے ہندوستان میں مقیم تھا۔ دیگر ارائیوں کی طرح آپ مد ظلہ الاقدس کے آبائو اجداد بھی سندھ سے اوچ آباد ہوئے اور عرصہ دراز تک یہاں مقیم رہے پھر فتنہ و فساد کے دور میں ہجرت کرکے وادی ٔ سرسہ میں آباد ہوئے۔ جب وادیٔ سرسہ کا علاقہ خشک سالی کا شکار ہوا اور ویران ہونے لگا تو تقریباً 1795ء میں وادیٔ سرسہ سے ہجرت کرکے ضلع جالندھر تحصیل نکودر کے گاؤں مدھاں (یامدح) میں آباد ہوئے اور قیامِ پاکستان تک یہیں آباد رہے ۔آپ مد ظلہ الاقدس کے آباؤ اجداد کی محفوظ تاریخ کا آغاز آپ کے پردادا حاکم علی سے ہوتا ہے جو1887ء تا1934ء تک حیات رہے۔علاقے کے معززین میں شمار ہوتے تھے اورحاکو کے لقب سے ملقب ہوئے۔ زہدو ریاضت نیکی و نجابت اور اعلیٰ اخلاقی قدروں میں نہ صرف خود بلند درجات کے حامل تھے بلکہ تمام اولاد بھی نمایاں تھی، خصوصاً سب سے بڑے فرزند عبدالکریم رحمتہ اللہ علیہ جو سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کے دادا ہیں۔ عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ 1903ء میں پید اہوئے، زہدو ریاضت میں یکتا اور قائم اللیل تھے،خاندانی وقار اور اعلیٰ مذہبی و اخلاقی اقدار کے سرپرست و محافظ تھے۔ عبد الکریمؒ  کے علاوہ حاکم علی کے دو فرزند اور ایک دختر بھی تھیں۔

قیامِ پاکستان کے وقت آپ مد ظلہ الاقدس کے دادا عبد الکریم  رحمتہ اللہ علیہ اپنے دو بیٹوں عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہ (آپ مد ظلہ الاقدس کے والد محترم) اور محمد شریف (چچا) اور تین بیٹیوں کے ساتھ جالندھر میں مدھاں (یامدح پور) میں مقیم تھے اور خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ دونوں بیٹے شادی شدہ تھے۔ آپ مد ظلہ الاقدس کے والد محترم کی تقسیم ہند سے صرف چار ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔ قیامِ پاکستان کا اعلان ہوتے ہی 13اگست 1947ء کی شام کو ان کے گھروں اور کھیتوں کو آگ لگا دی گئی۔ بڑی مشکل سے یہ خاندان جان بچا کر بے سرو سامانی کے عالم میں24اگست 1947ء کو والٹن لاہور کے مہاجر کیمپ پہنچا۔ راستہ میں کئی مصائب و صدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کے والد عبد الحمید ولد عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ کی بیوی راستے میں ہیضہ سے انتقال کر گئیں۔ پاکستان پہنچ کر بھی اس خاندان کے مصائب کا خاتمہ نہ ہوا۔ خاندان کے سب سے بڑے بزرگ آپ مد ظلہ الاقدس کے دادا عبد الکریم رحمتہ اللہ علیہ، جن کی حکمت و انصاف کی وجہ سے تما م خاندان ان کا احترام کرتا اور ان کے ہر حکم پر سر جھکا دیتا تھا،  والٹن کیمپ سے لاپتہ ہوگئے اور تلاش اور شدید کوشش کے باوجود نہ مل سکے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے والدعبد الحمید رحمتہ اللہ علیہ اس صورتحال پر شدید کرب سے دو چار ہوئے ۔آپ مدظلہ الاقدس سے اپنے ان حالات کاتذکرہ کرتے ہوئے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ والد صاحب کے پرُشفقت سایے سے محروم ہونے کے بعد میں اسی دِن سمجھ گیا تھا کہ اب مصیبتوں اور پریشانیوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔

بعدازاں یہ پریشان حال قافلہ مہاجر کیمپ والٹن سے لائل پور (اب فیصل آباد) کے گائوں 92/RB (جمشید پرانا) پہنچا اور وہیں آباد ہوا۔ ہندوستان میں کئی ایکڑوں کے مالک اس خاندان کو پاکستان میں زرعی اراضی کلیم پر ایک سال بعد مختلف افراد کو3حویلیاں اور16 ، 18 ، 20مرلوں پر مشتمل مکانات اور چار ایکڑ زرعی اراضی الاٹ ہوئی۔ اسی اراضی پر گزر بسر ہونے لگی۔ آپ مد ظلہ الاقدس کے والد عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہ اور چچا محمد شریف نے انتہائی محنت و مشقت سے خاندان کے معاشی حالات کو سنبھالا اور تینوں بہنوں کی شادیاں کیں۔ محمد شریف نے عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہ کی دوسری شادی کروا دی۔ آپ کی دوسری بیوی مطلقہ تھیں جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور یہی پہلے شوہر سے طلاق کی وجہ تھی۔

اس خاندان کے حالات کچھ حد تک سنبھلے ہی تھے کہ انہیں ایک اور صدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ مدظلہ الاقدس کے چچا محمد شریف 1956ء میں ٹی بی کے مرض سے وفات پاگئے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے والد عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہ  بھائی کی وفات کے بعد نہ صرف خاندان کے اکیلے سرپرست رہ گئے بلکہ بھائی کی اولاد کی ذمہ داری بھی ان کے کاندھوں پر آگئی۔

آپ مدظلہ الاقدس کے والد عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہکی دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہ ہوئی تو ان کے ہی اصرار پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے 13مارچ 1958ء (20شعبان 1377ھ) بروز جمعرات کنیز فاطمہ بنتِ چوہدری شریف دین سے شادی کی۔

چار ایکڑ اراضی پر اب اس خاندان کی گزر اوقات مشکل ہوگئی تو عبد الحمید رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی والدہ سے مشورہ کے بعد یہ اراضی اپنی بہن کے شوہر، جو گائوں کا نمبردار تھا، کو ٹھیکہ پر دے دی۔ اپنا مکان بھی بھائی محمد شریف کی بیوہ اور بچوں کے حوالے کیا اور خود دونوں بیویوں کے ساتھ بخشن خان تحصیل چشتیاں ضلع بہاولنگر منتقل ہوگئے اور کریانہ کی دکان کا آغاز کیا ۔ یہیں قیام کے دوران 19اگست 1959ء صبح چار بج کر تیس منٹ پر آپ کے ہاںسلطان محمدنجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کی ولادت ہوئی۔ سلطان محمدنجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی پیدائش کے دوماہ بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دوسری زوجہ نے اپنی مرضی سے آپ رحمتہ اللہ علیہسے طلاق لے لی اور دوسال بعد فوت ہو گئیں۔ عبدالحمید رحمتہ اللہ علیہ مہینہ میں ایک دوبار گائوں جاتے اور والدہ اور بیوہ بھابھی کو حیثیت کے مطابق خرچ دے آتے۔ کئی سال آپ  رحمتہ اللہ علیہ اکیلے تمام خاندان کی کفالت کرتے رہے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ کی غیر موجودگی کا آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بہن کے شوہر جو گائوں کا نمبردار تھا، نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس خاندان کی تمام جائیداد، حویلیوں اور مکانات پر قبضہ کر لیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ کو ورغلا کر چار ایکڑ اراضی اور والدہ کی حویلی بھی اپنی بیوی کے نام ہبہ کروالی۔ عبدالحمید رحمتہ اللہ علیہ کو الاٹ شدہ 18مرلے کے مکان پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بیوہ بھابھی اپنے رشتہ داروں کی مدد سے قابض ہوگئی۔ یہ واقعہ 1964ء میں پیش آیا جب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کی عمر صرف 5سال تھی۔ یہ قبضہ آج بھی قائم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے والدین قابض تھے اور اب اولاد ہے۔ اس واقعہ نے آپ مد ظلہ الاقدس کے والد عبدالحمید  رحمتہ اللہ علیہ کے دِل کو کرچی کرچی کر دیا۔1964ء سے 2004ء اپنی وفات کے وقت تک آپ رحمتہ اللہ علیہ اس گائوں میں دوبارہ کبھی نہ گئے اور اولاد کو بھی منع کر دیا ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جہاں محبت نہ ہو، پیسہ ہی سب کچھ ہو وہاں جانے کا کیا فائدہ؟

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ والد محترم کا دِل تمام رشتوں سے ٹوٹ گیا تھا ۔ زندگی کی ہر راہ میں انہیں دکھ اور دھوکہ ملا۔ مصائب اور بے وفائیوں نے زندگی کی کشش کم کردی اور انہوں نے مکمل طور پر اللہ سے لو لگا لی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس جیسے برگزیدہ اور اعلیٰ درجات کے حامل فرزند کے علاوہ ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے بھی نوازا۔