Taleemi-aur-amli-door-min

تعلیمی دور اور عملی زندگی

Rate this post

تعلیمی دور اور عملی زندگی

تعلیمی دور اور عملی زندگی

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تعلیم کا آغاز تو چشتیاں، لیہ اور چیچہ وطنی میں ہی ہو چکا تھا جہاںسے آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اور جماعت سوم تک دنیاوی تعلیم حاصل کی تھی لیکن باقاعدہ اور باضابطہ تعلیم کا آغاز دیپال پور سے ہوا۔ باوجود اس کے کہ آپ مدظلہ الاقدس پر اس وقت معاشی تنگی کا بہت دبائو تھا، پھر بھی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بے انتہا ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کے باعث جلد ہی ناظرہ قرآن مکمل کر لیا اور دیگر دینی علوم کی تعلیم بھی حاصل کی۔ بچپن سے ہی ذاتِ حق تعالیٰ سے قلبی وابستگی کی وجہ سے دین و قرآن کے علم میں روحانی سکون حاصل ہوتا۔ نہ صرف قرآن بلکہ اسلام اور اسلامی تاریخ سے متعلق دیگر کتب بھی متوجہ کرتیں۔ ان کے مطالعہ سے اسلام کے متعلق بہت سا علم بغیر کسی استاد کے ازخود حاصل کر لیا۔

دینی تعلیم کے علاوہ میٹرک تک تعلیم آپ نے گورنمنٹ ہائی سکول دیپال پور سے مکمل کی۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے سکول کے اس دور کے بہترین طالب ِعلم تھے اور آپ کا شمار ذہین ترین طلبا میں ہوتا تھا۔ ذہانت کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے جماعت دہم تک کلاس کے مانیٹر رہے۔

آپ مدظلہ الاقدس کی ذہانت اور قلمی صلاحیتوں کا اظہار بچپن سے ہی ہونے لگا جب آپ نے پانچویں جماعت میں ہی اخبارات میں بچوں کے صفحات میں مضمون نویسی کا آغاز کر دیا۔ روزنامہ وفاق لاہور، روزنامہ مساوات لاہور، روزنامہ مشرق لاہور اور روزنامہ امروز لاہور کے بچوں کے صفحات میں آپ مدظلہ الاقدس کے مضامین شائع ہوتے رہتے ۔ 

آپ مدظلہ الاقدس کی غیر معمولی شخصیت کے اعلیٰ اوصاف تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی نمایاں تھے۔ درحقیقت اللہ جن بندوں کو اپنے لیے چن لیتا ہے عزت و شرف اور بزرگی زندگی کے ہر لمحے اور ہر شعبے میں ان کا مقدر ہوتی ہے۔ ذاتِ حق تعالیٰ ان کی ذات میں ظاہر ہونے کے باعث انہیں ہر جگہ سب سے نمایاں اور اعلیٰ مقام حاصل ہوتا ہے۔ اس مقام کے حصول میں فضل ِخداوندی کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی محنت، خلوص، نیک نیتی اور ہمت بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ ہستیاں بحیثیت ِمجموعی اعلیٰ ترین اوصاف کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ اپنے زمانے کے لحاظ سے ہر پسندیدہ خوبی ان میں موجود ہوتی ہے جو انہیں ان کے ہم عصروں میں سب سے ممتاز بنادیتی ہے۔ چنانچہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نہ صرف تعلیمی میدان میں ہر جماعت میں صف ِاوّل کے طلبہ میں شامل تھے بلکہ تحریری و تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیتے۔ یہاں بھی کامیابیاں آپ کا مقدر ہوتیں۔ ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی حصہ لیا۔ بیڈمنٹن، کرکٹ اور ہاکی شوق سے کھیلی اور ہاکی کے بہترین کھلاڑی رہے۔

1978ء میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ملتان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اسی سال دیپال پور میں انٹرمیڈیٹ کالج کا قیام عمل میں آیا ۔ آپ مدظلہ الاقدس نے پہلے تو یہاں پری میڈیکل میں داخلہ لیا لیکن جلد ہی آپ کو احساس ہوگیا کہ گھریلو معاشی حالات میں تنگی کے باعث میڈیکل کی تعلیم ممکن نہ ہو سکے گی۔ آپ یہ بھی چاہتے تھے کہ جلد از جلد تعلیم مکمل کر کے ملازمت کی جائے تاکہ والدین کا معاشی بوجھ بانٹا جاسکے۔ چنانچہ آپ نے پری میڈیکل گروپ تبدیل کر کے آرٹس گروپ اختیار کر لیا۔ لیکن پھر معاشی حالات اتنے دِگرگوں ہوئے کہ آپ کو کالج کی تعلیم کو خیرباد کہہ کر ایک پٹرول پمپ پر نوکری کرنا پڑی۔ والدین کا بڑا فرزند ہونے اور انتہائی حساس طبیعت کا مالک ہونے کی بنا پر آپ مدظلہ الاقدس کو اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس تھا اور اسی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ہر طرح کی محنت مزدوری حتیٰ کہ کھیتوں میں کام بھی کیا۔ اسی دوران آپ مدظلہ الاقدس ایف اے کی پرائیویٹ تیاری بھی کرتے رہے اور 1980ء میں ملتان بورڈ سے ایف اے کا پرائیویٹ امتحان پاس کر لیا۔

اس دوران گھریلو معاشی حالات کافی حد تک سنبھل چکے تھے لہٰذا آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج اوکاڑہ میں داخلہ لیا اور تعلیم کا سلسلہ پھر سے شروع کیا لیکن سال چہارم کے دوران پھر سے حالات نے آپ کو اتنا مجبور کر دیا کہ آپ کو رات کو پٹرول پمپ پر اور دن میں مختلف جگہوں پر کام کرنا پڑا۔ البتہ آپ نے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور 1983ء میں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے فرسٹ ڈویژن میں بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔

1983ء میں اوکاڑہ کو ضلع کا درجہ حاصل ہو چکا تھا اور بہت سے ضلعی دفاتر کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ایک ضلعی دفتر میں 1984 ء میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔ لیکن آپ دیکھ رہے تھے کہ اس علاقے میں رہتے ہوئے زیادہ ترقی کرنا ممکن نہیں دوسرے آپ کا دل بھی اس علاقہ سے اچاٹ ہو چکا تھا اس لیے آپ اکثر مختلف عہدوں کے لیے انٹرویو اور امتحانات کے لیے لاہور تشریف لاتے رہتے تھے۔ آخرکار 28 مارچ 1985 ء کو آپ کو محکمہ لینڈ کسٹم اینڈ سنٹرل ایکسائز لاہور میں سینئر کلرک  (Upper Division Clerk) کی ملازمت مل گئی۔ 12 اپریل 1985ء کو لاہور منتقل ہوگئے اور دوست احباب کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کر لی۔ ملازمت کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھنے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے پنجاب یونیورسٹی  کے لاء کالج میں شام کی کلاسز میں داخلہ لیا لیکن سرکاری ملازمت کی مصروفیات کی بنا پر اسے بھی جاری نہ رکھ سکے۔

عملی زندگی

یوں توسلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ ہی مختلف ملازمتوں سے عملی زندگی کا آغاز اپنے لڑکپن سے ہی کر دیا تھا لیکن باقاعدہ طور پر عملی زندگی میں قدم 13 اپریل 1985ء (23 رجب 1405ھ) بروز ہفتہ لاہور میں اپر ڈویژن کلرک کی حیثیت سے رکھا۔ یہاں بھی شدید محنت، ایمانداری اور خلوصِ نیت آپ مدظلہ الاقدس کا شعار رہا جس کی وجہ سے کام میں ترقی اور برکت حاصل ہوتی رہی۔

دیپال پور میں آپ کے والدین کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے اور آپ لاہور میں کرائے کے مکان میں رہ رہے تھے۔ دونوں طرف سے اخراجات کا بوجھ تنہا آپ کے کاندھوں پر تھا جسے آپ اپنی محنت کی بدولت خوش اسلوبی سے سنبھال رہے تھے۔آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے والد محترم کو بھی کام کرنے سے منع فرما دیا تاکہ زندگی کی طویل اور صبر آزما جدوجہد سے اب انہیں بھی کچھ آرام حاصل ہو۔

1987ء میں آپ مدظلہ الاقدس کے والدین نے نہایت سادگی سے آپ مدظلہ الاقدس کا نکاح محترمہ طاہرہ پروین صاحبہ سے کروا دیا اور آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ کرائے کے مکان میں منتقل ہوگئے۔ آپ کی اہلیہ چونکہ اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہیں اس لیے ان کے والدین بھی ان کے ساتھ ہی منتقل ہوگئے۔ ان کے والد سٹیٹ لائف میں ملازم تھے اور اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے تھے۔

1989ء میں آپ کی اہلیہ کے والد محترم نے سیٹھ کالونی اوکاڑہ میں اپنا آبائی مکان فروخت کر دیا۔ اس رقم میں آپ کی اہلیہ نے مزید کچھ رقم جمع کر کے ایجوکیشن ٹائون اور مصطفی ٹائون کے درمیان ایک 8 مرلہ کا پلاٹ خریدا تاکہ اپنا گھر بنایا جاسکے اور مکان کی تعمیر شروع کروا دی۔ 1988ء میں آپ کے ہاں پہلی صاحبزادی منیزہ نجیب اور 1989ء میں دوسری صاحبزادی تابینہ نجیب کی ولادت ہوئی۔ 1989 میں آپ مدظلہ ا لاقدس ہمشیرہ کی شادی کے بعد والدین کو بھی لاہور لے آئے۔ یوں اس خاندان نے 4 جنوری 1990 (6 جمادی الثانی 1410ھ) جمعرات کے دن لاہور ہجرت کر لی۔

19 نومبر 1990ء کو آپ مدظلہ الاقدس اپنے اہل ِ خانہ کے ساتھ اپنے زیرِ تعمیر مکان میں منتقل ہوگئے حالانکہ مکان ابھی نامکمل تھا۔ اس وقت یہ علاقہ ابھی غیر آباد تھا۔ نہ پختہ سڑک تھی اور نہ ہی سوئی گیس اور پانی کی سہولت موجود تھی۔

جولائی 1991ء میں آپ مدظلہ الاقدس کے دائیں پاؤں کی ایڑھی کا میجر اپریشن ہوا اور بون گرافٹنگ (Bone Grafting) کرنا پڑی۔ ایک معمولی سے ایکسیڈنٹ کے بعد آپ کے پائوں کی ایڑھی پر چوٹ آئی تھی جو اس وقت تو محسوس نہ ہوئی لیکن درد اتنا بڑھ گیا کہ چلنا دشوار ہوگیا تھا۔ اس اپریشن کے بعد آپ مدظلہ الاقدس چھ ماہ تک صاحب ِ فراش رہے۔

10اکتوبر 1991ء (یکم ربیع الثانی 1412ھ) بروز جمعرات آپ مدظلہ الاقدس محکمانہ امتحان پاس کرنے کے بعد ترقی پاکر انسپکٹر کے عہدہ پر فائز ہوگئے۔ 

1989ء سے آپ مدظلہ الاقدس کی اس دنیاوی زندگی کے سنہری حصہ کا آغاز ہوتا ہے۔ اب تک اللہ تعالیٰ آپ کو تنگی و عسرت میں رکھ کر آپ کی تربیت اس نہج پر کر رہا تھا کہ محنت، صبر، استقامت اور ہمت آپ کی فطرت کا مکمل طور پر حصہ بن جائے۔ اب اگر ایک طرف اللہ نے آپ کو آپ کی محنت کا پھل عطا کرنا شروع کیا تو دوسری طرف آپ کی دنیاوی خواہشوں کو اس حد تک پورا کر دیا کہ آپ کے دل میں مزید کوئی خواہش باقی نہ رہے اور آپ اس دنیا سے سیر ہو کر اس کی حقیقت بھی جان لیں اور اس سے بے نیا زبھی ہوجائیں۔ 

آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں کہ اس دور میں ہم نے مٹی میں ہاتھ ڈالا تو وہ سونا بن گئی۔ دل میں جس شے کی طلب یا خواہش پیدا ہوتی وہ فوراً مل جاتی۔ ملازمت کے علاوہ لوگوں کے ساتھ مل کر شراکت میں کاروبار کیے اور ہر کام میں توقع سے بڑھ کر منافع ملا۔لیکن اس مال و دولت نے کبھی آپ مدظلہ الاقدس کے دِل میں جگہ نہ بنائی ۔ آپ مدظلہ الاقدس اس مال کو ہمیشہ کھلے دِل سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہے اور اپنے رشتہ داروں کی مشکل میں مالی امداد کرتے رہتے۔ آپ مدظلہ الاقدس ایک انتہائی خوش اخلاق طبیعت کے مالک ہیں اس لیے حلقہ ٔ احباب بھی وسیع تھا جس میں نامور صحافی بھی شامل تھے۔ البتہ آپ کا گھر اور اہل و عیال ہمیشہ آپ کی پہلی ترجیح رہے اور آپ اپنا زیادہ وقت اپنی فیملی کو دیتے ۔ گھر ہو یا آفس ، رشتہ دار ہوں یا دوست احباب آپ مدظلہ الاقدس کی پُر کشش اور پر وقار شخصیت کے باعث ہر جگہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے عزت و شان سے نوازا ، حتیٰ کہ آپ کے افسر بھی آپ کی عزت کرتے ۔ آپ مدظلہ الاقدس سب کے دکھ درد میں شریک ہوتے اور عمر بھر کبھی کسی کی دِل آزاری کا سبب نہ بنے۔

1993ء میں آپ مدظلہ الاقدس کی اہلیہ کی والدہ محترمہ کو خاندانی جائیداد سے حصہ ملا جو انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو دے دیا جس سے آپ کی اہلیہ محترمہ نے گھر کے ساتھ چھ مرلے (اس پلاٹ میں 1998 میں اصلاحی جماعت اور ماہنامہ مراۃ العارفین لاہور کا دفتر قائم ہوا۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے اپنے دستِ مبارک سے اس کا افتتاح فرمایا۔ اب اس مکان میں خانقاہ سلسلہ سروری قادری، تحریک دعوتِ فقر اور اس کے شعبہ جات کے دفاتر ہیں۔) اور گھر کے سامنے ایجوکیشن ٹاؤن میں 13 مرلے(یہ پلاٹ کچھ عرصہ بعد آپ کی اہلیہ محترمہ نے فروخت کر کے مصطفی ٹاؤن میں موجودہ گھر والا پلاٹ خرید کر مکان تعمیر کروایا۔) کا پلاٹ خریدا جو بعد میں فروخت کر کے مصطفی ٹاؤن میں موجودہ گھر بنوایا۔

1994ء میں آپ مدظلہ الاقدس کے ہا ں تیسری بیٹی مشعل نجیب کی ولادت ہوئی اور 1997 ء میں اکلوتے صاحبزادے محمد مرتضیٰ نجیب کی ولادت ہوئی۔ اسی دوران 1996ء میں آپ کی دوسری صاحبزادی تابینہ نجیب کی سات سال کی عمر میں قضائے الٰہی سے وفات ہوگئی۔

ارشادِ نبویؐ ہے ’’حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ دِنوں کو بندوں کے درمیان پھیرتا رہتا ہے اور جس انسان کو اللہ نے انسانِ کامل کے مرتبے پر فائز کرنا ہو اس کی حیات بھی ہر طرح سے کامل ہوتی ہے جس میں ہر طرح کا دور، ہر طرح کا تجربہ شامل ہوتا ہے۔ کبھی اللہ دے کر آزماتا اور تربیت فرماتا ہے کبھی لے کر۔ اگر انسان کے دل میں صرف دنیا کی خواہش موجود ہو تو اللہ جب اسے دنیا اور اس کا مال و آسائش عطا کرتا ہے تو وہ صرف دنیا کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے اور اسی کے لالچ کی دلدل میں مزید دھنستا جاتا ہے لیکن جو انسان صرف اللہ کا صحیح بندہ ہو وہ اس مقام پر کبھی سکون نہیں پاتا۔ اگرچہ اس دور میں دنیاوی و مالی لحاظ سے آپ مدظلہ الاقدس مکمل طور پر آسودہ حال تھے اور اگر ہم اس دور میں آپ مدظلہ الاقدس کی تھری پیس سوٹ اور کلین شیو میں تصاویر دیکھیں تو عجیب حیرت کا احساس ہوتا ہے لیکن آپ فرماتے ہیں کہ ان تمام دنیاوی نعمتوں اور آسودگیوں کے باوجود آپ کو قلبی سکون میسر نہ تھا۔ ہر آسائش اور خوشی پالینے کے باوجود کسی شے کی کمی کا احساس دا من گیررہتا تھا۔ روح کی بے چینی آپ مدظلہ الاقدس کو ہر لمحہ بے سکون رکھتی لیکن آپ اس بے چینی کی وجہ کو سمجھ نہ پارہے تھے۔ کبھی سکون کی تلاش میں دوستوں کے ساتھ سیر و سیاحت کے لیے ملک کے شمالی علاقوں کی طرف نکل جاتے لیکن وہاں بھی سکون نہ ملتا۔ سکون اس وقت تک مل بھی نہیں سکتا تھا جب تک مقصد ِحیات نہ پالیتے اور روحِ مقدسہ اپنی منزل تک نہ پہنچ جاتی ۔یوں بھی جس قلب میں اللہ نے سمانا تھا وہاں دنیا کیسے بس سکتی تھی۔ اِدھر روح اپنے ربّ سے ملاقات کے لیے بے چین تھی اُدھر اللہ اپنے بندے اپنے محبوب سے ملنے کے لیے بے چین و بے قرار تھا۔ دنیاوی نعمتوں اور آسودگیوں کا حصول کبھی بھی آپ مدظلہ الاقدس کی منزل نہ تھی۔ اس لیے اس مقام پر سکون کیوں کر حاصل ہو سکتا تھا۔ 

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ  نور الہدیٰ کلاں میں فرماتے ہیں ’’جب تک غنایت (استغنا، دنیاوی مال و دولت سے طبیعت کی سیری) حاصل نہ ہو فقر تک نہیں پہنچا جاسکتا۔‘‘ اس غنایت کے حصول کے لیے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ مدظلہ الاقدس پر دنیاوی آسائشوں اور نعمتوں کی انتہا کر دی لیکن دن بدن دنیاوی آسائشوں کی بے وقعتی اور بے ثباتی آپ کے دل کو ان سے اچاٹ کرتی جاتی۔ طبیعت ان سب سے بھرگئی اور پھر باطن نے اپنے اللہ کی طرف سفر شروع کیا جو تمام قلوب کا سکون اور ارواح کا چین و آرام ہے، جس منزل پر پہنچ کر کسی منزل کی طلب نہیں رہتی۔ 

یوں تو قلبی بے سکونی کے باعث آپ مدظلہ الاقدس کے دنیاوی دور کا باطنی طور پر خاتمہ نومبر 1995ء میں شروع ہوگیا تھا لیکن ظاہری طور پر اس کا خاتمہ اکتوبر1996ء میں اس وقت ہوا جب آپ کی صاحبزادی تابینہ نجیب کا وصال ہوا۔