Talsh-e-Haq

تلاشِ حق/سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن

Click to rate this post!
[Total: 0 Average: 0]

تلاشِ حق/سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن

تلاشِ حق

نومبر 1995 ء تک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا دل دنیا سے سیر ہو چکا تھااور باطنی طور پر آپ دنیا اور معاملاتِ دنیا سے بے زار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ روح کی بے چینی اور بے سکونی نے باطن میں ہلچل مچا رکھی تھی جو اپنے محبوبِ حقیقی سے ملاقات کے لیے بے قرار تھی۔ فقر و فاقہ، تنگدستی میں بھی سکون نہ ملا، دنیا کی نعمتیں اور فراخی کا زمانہ بھی قلبی سکون کا باعث نہ بن سکا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ نومبر 1995 ء تک آپ کی ظاہری باطنی تربیت کے ابتدائی دو ادوار کی تکمیل ہو چکی تھی اور اب آپ کامل یکسوئی کے ساتھ اس ذات کی تلاش میں تھے جو قلبی سکون کا باعث ہو۔ اسی سکون کی تلاش میں آپ مدظلہ الاقدس دنیاوی معاملات اور سرگرمیوں کو انتہائی محدود کر کے زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں گزارنے لگے۔دوستوں، رشتہ داروں سے میل ملاپ میں کمی آنے لگی، ٹی وی دیکھنے یا سیرو تفریح جیسے مشاغل سے دِل اچاٹ ہو گیا۔ جس مقصد کے لیے آپ مدظلہ الاقدس اس دنیا میں تشریف لائے تھے یعنی مقامِ فنا فی اللہ بقاباللہ تک پہنچ کر طالبانِ مولیٰ کی حق تک رہنمائی کرنا، اس مقصد کے لیے آپ کی تربیت کا وقت اب آچکا تھا۔

نومبر 1995 ء کا ہی واقعہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس دفتر کی مسجد میں ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد نکلے اور دفتر کی طرف جا رہے تھے۔ راستہ میں کینٹین تھی۔ جب آپ مدظلہ الاقدس کینٹین کے پاس سے گزرے تو کینٹین سے ایک عجیب حلیے والا ادھیڑ عمر شخص اچانک آپ مدظلہ الاقدس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور آپ سے کہنے لگا:

’’تم پر اللہ کے فضل کا دور شروع ہو چکا ہے۔ اپنی حالت پر اسی طرح قائم رہنا۔‘‘

آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو اس نے جواب دیا:
’’میں وہ ہوں جو لوگوں کو راستہ دکھاتا ہے اور ان کی راہنمائی کرتا ہے۔میں تو صرف تمہیں دیکھنے آیا ہوں۔‘‘

پہلے تو آپ نے یہ سمجھا کہ آج کل کے دور میں جس طرح لوگ اسی طرح کا روپ دھار کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں یہ شخص بھی انہی میں سے ہے اسی لیے آپ نے کہا ’’ شکریہ میں آپ کی ہدایت پر عمل کروں گا‘‘ اور آگے بڑھ گئے لیکن جب آپ مدظلہ الاقدس تھوڑا سا آگے بڑھ گئے تو آپ کے دل میں خیال کوندا کہ یہ شخص میری اندرونی حالت سے کیسے واقف ہے؟ آپ یکدم واپس پلٹے اور اس شخص کی تلاش میں کینٹین پہنچے تو وہ شخص غائب ہو چکا تھا۔ کینٹین کے ملازمین سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس حلیہ کا شخص تو انہوں نے دیکھا ہی نہیں۔

14 اگست 1996ء کا دن لاہور کی تاریخ میں اس لیے اہم ہے کہ اس دن لاہور میں تاریخی طوفانی بارش ہوئی تھی جس نے آدھے لاہور کو ڈبو دیا تھا۔ لیکن اسی دن آپ مدظلہ الاقدس کی لاڈلی اور پیاری بیٹی تابینہ کے سر میں درد شروع ہوا جس کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 26 ستمبر 1996 کو گلبرگ ہسپتال گلبرگ لاہور میں مشہور نیوروسرجن محمد افتخار راجہ مرحوم (صاحبزادی تابینہ نجیب کو برین ٹیومر( Brain Tumour in Thalmic region )تھا۔ ڈاکٹر محمد افتخار راجہ پاکستان کے مشہور و معروف نیورو سرجن تھے اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے خصوصی معالج تھے۔ خود بھی آپ ؒ کے مختلف امراض کا علاج کرتے اور ضرورت پڑنے پر دوسرے معالج   specialist کے پاس بھیج دیتے۔ 10 جولائی 2006 (14 جمادی الثانی 1427ھ) بروز سوموار ملتان میں فوکر طیارہ کے حادثہ میں جاںبحق ہوئے۔) نے اپریشن کیا لیکن وہ کومہ میں چلی گئی۔ فوراً جنرل ہسپتال لاہور کے ICU وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں 2 اکتوبر1996 ء (18 جمادی الاول 1417ھ) بروز بدھ ان کا انتقال ہوگیا۔

زندگی کے اتنے بڑے صدمے سے گزرنے کے بعد جو تبدیلیاں آپ مدظلہ الاقدس کے باطن میں کامل ہو چکی تھیں، ظاہر ہونے لگیں۔ مال و دولت ِ دنیا بالکل بے وقعت ہو گیا ، دِل میں اس خیال نے گھر کر لیا کہ کیا فائدہ ایسے مال کا جس کی کثرت بھی پیاری صاحبزادی کو نہ بچا سکی۔ اس حقیقی دولت یعنی قربِ خدا وندی کی طلب بڑھ گئی جو دائمی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا زیادہ تر وقت عبادات و ریاضت میں گزرنے لگا۔ ان عبادات سے غرض اور طلب صرف قرب و معرفت ِحق تعالیٰ تھی۔ عبادات و ریاضت میں اتنا مجاہدہ کیا کہ ایک وقت یہ بھی آپہنچا کہ چوبیس گھنٹوں میں صرف چھ گھنٹے آرام فرماتے اوراوقاتِ ملازمت کے سوا مسلسل مصروفِ عبادت رہتے۔ زہد و ریاضت کا یہ عالم تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں درود شریف اور کلمہ شریف کا ورد فرماتے۔ اس مقصد کے لیے پانچ سو دانوں والی خصوصی تسبیح بنوائی ہوئی تھی۔ زہد و ریاضت کی کثرت سے آپ مدظلہ الاقدس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اور انگشت ِ شہادت پر تسبیح کی وجہ سے گٹھا پڑ گیا۔ کبھی کبھی گھٹن انتہا کو پہنچتی تو بے اختیار گھنٹوں روتے رہتے۔ اہلیہ محترمہ خیال کرتیں کہ شاید بیٹی کی یاد میں رو رہے ہیں۔ 

اتنی زیادہ کثرت سے زہد و ریاضت کے باوجود منزلِ مراد نظر نہ آرہی تھی۔ مارچ 1997 کا واقعہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس ایک کتاب کا مطالعہ فرما رہے تھے، اس کتاب میں آپ نے یہ عبارت پڑھی ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتونِ جنت حضرت سیّدۃ النسا رضی اللہ عنہا کو کبھی انکار نہیں فرماتے تھے۔ حتیٰ کہ جب امہات المومنینؓ میں سے کسی کو یہ خدشہ ہوتا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُن کی کسی بات کو منظور نہ فرمائیں گے تو سیدّہ کائناتؓ کے وسیلہ سے وہ معاملہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش فرماتیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُسے منظور فرما لیتے۔‘‘ اس عبارت کو پڑھنے کے بعد آپ مدظلہ الاقدس روزانہ جتنی عبادت فرماتے اس کا ثواب سیدّہ کائنات سیدّہ فاطمۃ الزہراؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حسنین کریمینؓ  کی بارگاہ میں ہدیہ فرما دیتے اور یہ دعا فرماتے:

’’یا سیدّہ کائناتؓ آپ کا یہ گنہگار غلام آپؓ کی بارگاہ میں اپنی معمولی سی عبادت کا نذرانہ پیش کر رہا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ آپؓ کو ہماری عبادت کے ثواب کی حاجت نہیں ہے۔ ہم تو خود آپؓ کے گھرانہ کی شفاعت اور کرم کے محتاج ہیں۔ یہ ثواب تو صرف ایک گدا کی آپؓ کے در پر صدا ہے۔ جس طرح ظاہری حیات میں کوئی سوالی آپ رضی اللہ عنہا کے در پر حاضر ہو کر صدا دیتا اور خالی ہاتھ نہ جاتا تھا، اسی طرح باطنی حیات میں بھی یہ گدا آپرضی اللہ عنہا کے در سے خالی نہ جائے گا۔ آپ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں میری سفارش فرمائیں کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اس غلام کو وہ راہ عطا فرمائیں جس راہ پر چلنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا اور مجھے یقینِ کامل ہے کہ یہ گدا آپ رضی اللہ عنہا کے در سے خالی واپس نہیں جائے گا کیونکہ گدا کو خالی ہاتھ واپس جانے دینا آپ رضی اللہ عنہا کے گھرانے کی رِیت ہی نہیں ہے۔‘‘

چند الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ یہی دعا آپ مد ظلہ الاقدس کی زندگی کا حصہ بن گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت نہ تو آپ کو فقر کے بارے میں کچھ معلوم تھا اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ فقر خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کے وسیلہ سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ ’جامع الاسرار‘ میں فرماتے ہیں ’’حضرت فاطمتہ الزہرارضی اللہ عنہا  فقر کی پَلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا۔ جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔‘‘ یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل اور توفیق تھی جس نے آپ کے لبوں اور قلب پر یہ دعا اور طریقہ جاری کر دیا۔اور یوں آپ بغیر کسی علم کے ان کے در تک پہنچ گئے جن کے وسیلہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فقر عطا فرماتے ہیں۔