حسب نسب.سلطان العاشقین سلطان محمد نجیب الرحمن
حسب اور نسب
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قبیلوں اور قوموں میں تقسیم کیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ مکرم اور عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات۔13)
اس آیتِ مبارکہ سے جہاں تما م انسانوں کا اولادِ آدم ہونے کی حیثیت سے برابر ہونا اور عزت و شرف کا معیار تقویٰ ہونا ثابت ہوتا ہے وہیں یہ حقیقت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انسانوں کا قبیلوں اور قوموں میں تقسیم ہونا عین مشیتِ الٰہی کے مطابق ہے اور یہ تقسیم بلاوجہ نہیں بلکہ اس میں بھی اللہ کی بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ قبیلہ اور قوم کے ذریعے فرد کی پہچان ہو۔ فرد کی پہچان سے صرف یہ مراد نہیں کہ اس کا اور اس کے باپ دادا کا نام معلوم ہوجائے بلکہ’ پہچان‘ میں بہت سے عوامل شامل ہیں مثلاً یہ کہ جس قوم سے اس فرد کا تعلق ہے وہ اخلاقی طور پر کن خصوصیات کی حامل ہے، اس کے اسلاف کن روایات کے امین ہیں اور ان سے کون کون سے کارنامے منسوب ہیں، انہوں نے کن کن شعبہ ہائے زندگی میں اعلیٰ کارکردگیوں کا مظاہرہ کیا یا وہ کن شعبوں میںکامیابیاں حاصل کرتے رہے وغیرہ۔ آباؤ اجداد کی یہ خصوصیات اور کامیابیاں نہ صرف اس قوم کی نئی نسل کی پہچان بنتے ہیں بلکہ اس کے اسلاف کی اعلیٰ روایات نئی نسل کی انہی روایات کے مطابق تربیت اور رہنمائی کا باعث بھی بنتی ہیں۔ بزرگوں کے کارنامے نہ صرف نئی نسل میں احساسِ تفاخر پیدا کرتے ہیں بلکہ انہیں بھی ایسے ہی کارنامے سر انجام دینے کی ترغیب دیتے ہوئے ان کا خون گرماتے ہیں ۔آبائو اجداد کے اعلیٰ کارناموں سے متاثر( Inspire) ہونا قوموں کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ’’نسب دانی‘‘ مہذب اور تعلیم یافتہ معاشروں میں ایک خاص فن اور ایک بڑے تعلیمی شعبے کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔ البتہ آبادی کے بہت زیادہ وسیع پیمانے پر پھیل جانے اور ترقی کی نئی نئی صورتیں پیدا ہوجانے کے بعد ’نسب دانی‘ کی وہ اہمیت نہیں رہ گئی جو آج سے دو تین سو سال پہلے تھی۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قبیلہ قریش کی شاخ بنو ہاشم سے ہیں جو کائنات میں نسب کے لحاظ سے سب سے افضل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں کنانہ کو برگزیدہ بنایا اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو برگزیدہ بنایا۔ (مسلم شریف)
اللہ تعالیٰ نے خلقت کو پیدا کیا تو مجھ کو اُن کے سب سے اچھے گروہ میں بنایا ۔ پھر قبیلوں کو چنا تو مجھ کو سب سے اچھے قبیلے میں بنایا ۔ پھر گھروں کو چنا تو مجھے سب سے اچھے گھر میں بنایا۔ پس میں روح و ذات اور اصل کے لحاظ سے اُن سب سے اچھا ہوں۔ (ترمذی شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کوپیدا فرمایا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا سو انہوں نے لوگو کو دو اقسام میں بانٹ دیا۔ ان میں سے ایک قسم عرب اور دوسری عجم بنائی اور عرب میں اللہ تعالیٰ کے منتخب لوگ تھے۔ پھر عربوں کو دو قسموں میں بانٹا تو یمن کو ایک قسم بنایا اور مضر کو ایک قسم بنایا اور قریش کو ایک قسم بنایا اور اللہ تعالیٰ کے منتخب لوگ قریش میں تھے پھر مجھے قریش میں سے بہترین افراد میں پیدا فرمایا۔ ان میں سے (سب سے افضل ) میں ہوں۔‘‘ (طبرانی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے سنا ’’مومن کبھی بھی عربوں سے بغض نہیں رکھتا۔‘‘ (طبرانی)
نسب ا ور حسب میں فرق
نسب
نسب دراصل آدمی کی اصل اور نژاد (نسل) کو کہتے ہیں یعنی وہ کس فرد کی اولاد ہیں جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پرداد ا ہاشم سے ان کی نسل قبیلہ ’’بنو ہاشم‘‘ کے نام سے آگے بڑھی اور ہاشم کے بھائی عبد شمس سے ان کی نسل ’’بنو اُمیہ‘‘ کے نام سے آگے بڑھی۔ نسب کا آغاز عموماً ایک ہی فرد کی اولاد کے آگے بڑھنے اور پھیلنے سے ہوتا ہے یا یوں کہا جائے کہ ایک نسب رکھنے والے افراد کا تعلق بالآخر جاکر ایک ہی فرد پر جڑ جاتا ہے۔ جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نسب بالآخر جاکر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے جڑ جاتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ’’بنی اسمٰعیل‘‘ کی قوم سے کہلاتے ہیں جبکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بھائی حضرت اسحاق علیہ السلام سے ’’بنی اسرائیل ‘‘ کی قوم چلی جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر انبیا تشریف لائے۔
حسب
حسب اُس شرف و بزرگی یا فضیلت کا نام ہے جو کسی نسل کے کسی ایک خاص شخص کی دانشمندی ، تقویٰ ، علمیت ، سلطنت، دولت مندی، نبوت، فقر و درویشی یا کسی اور فضیلت کے سبب اسکے خاندان میں ہمیشہ یا چند پشت تک باقی رہے۔ ابنِ خلدون لکھتا ہے ’’حسب‘‘ عموماً چوتھی پشت میں زائل ہوجاتا ہے کیونکہ جو شخص خاندان کا بانی ہوتا ہے اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کتنی مشقتوں اور محنت کے بعد یہ مقام ، عزت اور وقار حاصل کیا ہے اس لیے وہ ان محاسن اور خوبیوں کو جن کی وجہ سے اور جن کے ذریعے سے اس کے خاندان اور اس کو یہ ’’حسب‘‘ یعنی بزرگی اور امتیاز حاصل ہوا ہے ، کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ پھر بیٹا جس نے باپ کا طریقہ دیکھا ہے، اُن محاسن اور خوبیوں کی قدرو حفاظت بھی کرتا ہے اور کافی حد تک انہیں اپنانے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن باپ اور بیٹے میں وہی فرق ہوتا ہے جو دیکھنے اور سننے (حق الیقین اور علم الیقین) والے میں ہو تا ہے۔ اب تیسری نسل آتی ہے وہ محض تقلیداً باپ دادا کی راہ اختیار کرتی ہے لیکن اب تک خاندانی عظمت کا طلسم ویسا ہی بندھا رہتا ہے۔ بظاہر دادا اور پوتے میں فرق معلوم نہیں ہوتا مگر اب ’’حسب‘‘ یعنی بزرگی و شرف صرف نام کو رہ جاتا ہے عملاً نہیں۔ چوتھی نسل میں یہ طلسم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ نسل خیال کرتی ہے کہ ہمارے خاندان کی عزت ہمارے بزرگوں کی کوششوں سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ ابتدائے آفرینش سے ہی یہ خاندان اسی طرح ممتاز چلا آرہا ہے ۔ اسی زعم میں اپنے آپ کو اپنے خاندان ، قبیلے اور قوم سے بالا تر سمجھنے لگتے ہیں اور ان خوبیوں کو فراموش کر دیتے ہیں جن کے سبب ان کے خاندان کی عزت و تکریم ہوتی تھی۔ چوتھی پشت کی پابندی باعتبار اکثریت لگائی ہے مگر بعض خاندان اس سے پہلے ہی بگڑجاتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پانچویں اور چھٹی پشت تک خاندان بنا رہے۔
نسب اور حسب پر تکبر
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے زمانے میں ہر پڑھا لکھا شخص نسب دانی کی تعلیم ضرور حاصل کرتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اس وقت عرب کے چالیس پڑھے لکھے افراد میں سے ایک تھے اور ان کا خاندان نسب دانی کے فن کے لیے جانا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ہر فرد کے شجرۂ نسب کو محفوظ رکھنا لازمی سمجھا جاتا تھا۔ آج اگرچہ شجرۂ نسب محفوظ رکھنا بہت ضروری نہیں سمجھا جاتا پھر بھی بہت سی اقوام کے لوگ اپنے دین کے بعد اپنی قوم سے نسبت کو اپنے لیے باعثِ فخر جانتے ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اپنی اکثر تصانیف میں اپنے قبیلے ’’اعوان‘‘ کا تذکرہ خصوصاً کرتے ہیں کیونکہ ان کیلئے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ اعوان حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی (غیر فاطمی) اولاد ہیں۔ چنانچہ اپنے اسلاف کی اعلیٰ روایات، خصوصیات اور کارناموں کی بنا پر اپنی قوم پر فخر کرنا بے جا یا غیر اسلامی نہیں البتہ اس میں فخر، غرور اور تکبر یا دیگر اقوام کے لیے حقارت کا عنصر شامل ہونا غلط ہے۔ تکبر کی ایک قسم اعلیٰ حسب و نسب والے کا اپنے سے کم نسب والے کو حقیر اور کم تر سمجھنا اور اس سے نفرت کرنا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے باپ دادا کے نام پر تکبر (فخر) کرنا چھوڑ دیں ورنہ اللہ ان کو نجاست کے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل کر دے گا۔‘‘ (ابو داؤد، ترمذی)
مسند احمد بن حنبلؒ میں حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’چار باتیں میری اُمت میں زمانہ جاہلیت کی ہیں: (۱) حسب و نسب میں فخر کرنا (۲) دوسروں کے نسب میں طعن کرنا (۳) بارش کو تاروں کی طرف منسوب کرنا (۴) میت پر نوحہ کرنا۔
حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ احیا العلوم (جلد سوم) میں تحریر کرتے ہیں:
ایک تکبر اعلیٰ حسب و نسب والے کا اپنے سے کم نسب والے کو حقیر اور کم تر تصور کرنا ہے خواہ وہ علم و عمل اور تقویٰ میں اس سے بڑھ کر ہی کیوں نہ ہو۔ نسب کا تکبر بعض لوگ اتنا زیادہ کرتے ہیں کہ جیسے دوسرے لوگ ان کے غلام ہیں۔ ان سے میل جول رکھنے اور ان کے پاس بیٹھنے سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ موقع بے موقع نسب کا یہ تفاخر ان کی زبان پر جاری رہتا ہے۔ دوسرے لوگوں کے بارے میں ان کا کہنا ہوتاہے کہ ان کی کیا اصل ہے؟ میں فلاں کا صاحبزادہ اور فلاں کا پوتا ہوں۔ تیرے جیسے کی کیا مجال کہ میرے سامنے بات بھی کر سکے یا میری طرف نگاہ بلند کر کے دیکھ سکے۔ نفس کے اندر نسب ایک ایسی چھپی ہوئی رگ (بیماری) ہے کہ اس سے اعلیٰ نسب والے خالی نہیں ہوتے خواہ وہ نیک بخت اور عقلمند ہی کیوں نہ ہوں۔ حالتِ اعتدال میں تو اسے ظاہر نہیں کرتے مگر غصہ اور غضب کے غلبے کے وقت ان کا نورِ عقل تاریک ہو جاتا ہے۔ ان سے بھی یہ بات ظاہر ہو جایا کرتی ہے۔ درج ذیل حدیث شریف میں بھی اس عمل کی مذمت کی گئی ہے:
ایک صحابیؓ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا بھی عصبیت میں داخل ہے۔ ‘‘حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’نہیں بلکہ عصبیت یہ ہے کہ انسان ظلم میں اپنی قوم کا مدد گار ہو ۔‘‘(ابنِ ماجہ)
حضرت ورثلہ بن اشفعؓ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عصبیت کیا ہے؟ فرمایا ’’ظلم میں اپنی قوم کا مدد گار ہونا۔‘‘
سنن ابی داؤد میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’جس نے (لوگوں کو) قوم پرستی کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
نسب و حسب کا اسلامی نظریہ
نسب کے لحاظ سے تمام بنی نوع انسان ایک باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ایک ماں حضرت حوا سلام اللہ علیہا کی اولاد ہیں۔ ایک کو دوسرے پرکسی طرح کی فوقیت اور ترجیح حاصل نہیں ۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا :
’’اے لوگو! آگاہ رہو اور غور سے سنو، تمہارا ربّ ایک ہے اور غور سے سنو تمہارا باپ ایک ہے اور کان کھول کر سن لو عربی کو عجمی پر اور گورے کو کالے پر (محض نسل، نسب، قوم، وطن، علاقہ کی وجہ سے) کوئی فضیلت نہیں ہے اگر کسی کو فضیلت حاصل ہے تو وہ صاحبِ تقویٰ (صاحب ِ فقر) کو ہے۔‘‘
باب ِ فقر امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
اَلنَّاسُ مِنْ جِھْۃِ التَّمْثَالِ اَکْفَائِ اَبُوْھُمْ آدَمُ وَالْاُمُّ حَوَّا
ترجمہ: انسان باعتبار پیکر عنصری ایک دوسرے کے ہمسر ہیں ان کے باپ آدم اور ماں حوا ہیں۔
نسب کے لحاظ سے تمام انسان برابر ہیں کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں ۔ جو فوقیت یا بڑائی کسی کو حاصل ہے وہ حسب کے لحاظ سے ہے نسب کے لحاظ سے نہیں۔ اور اگر حقیقت سمجھنا ہو تو انسان کی قدر جوہر سے ہے نہ کہ نسب سے۔ ہاں اگر جوہر بھی ہو اور حسب بھی تو اعلیٰ نسب سونے پر سہاگہ کا کام دیتا ہے۔
ارشادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے :
مَنْ سَلَکَ عَلٰی طَرِیْقِیْ فَھُوَ اٰلِیْ
ترجمہ: جو میرے راستہ (فقر) پر چلا وہی میری آل ہے۔
راہِ فقر پر چلنے والے انہی لوگوں کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ (سورۃ بنی اسرائیل۔21)
ترجمہ: ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی۔
وَ رَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ (سورۃ الزخرف۔32)
ترجمہ: اور ہم نے بعض کو بعض پر درجہ میں بلند کیا۔
مزید تفصیل بیان کرنے سے قبل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شجرۂ نسب بیان کرنا ضروری ہے۔ بعض علمائے انساب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا شجرۂ نسب حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہٗ سے حضرت آدم علیہ السلام تک بیان فرمایا ہے اور بعض نے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہٗ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک۔لیکن محقق اور مسلم قول یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہٗ سے عدنان تک شجرۂ نسب بلاشک و شبہ درست اور صحیح ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اپنا شجرۂ نسب بیان فرماتے تو عدنان پر ختم کر دیتے اس سے آگے تجاوز نہ فرماتے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ بھی اپنا شجرۂ نسب عدنان تک بیان کرتے اور فرماتے اس سے اوپر کا ہمیں علم نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر تمام اہلِ تحقیق اور اصحابِ تاریخ متفق ہیں کہ عدنان کے جدِّ اعلیٰ سیّدنا اسماعیل علیہ السلام ہیں جو سیدّنا ابراہیم علیہ السلام کے فرزند ہیں ۔ ہم بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شجرۂ نسب عدنان سے شروع کرتے ہیں:
احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنا حسب و نسب جس میں تکبر اور فخر و غرور نہ ہو، جاننا اور اسے بہترین الفاظ میں بیان کرنا سنتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ہے اور اچھی قوم میں پید اکرنے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک ذریعہ بھی۔اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس کتاب میں مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کے حسب و نسب کی تفصیل بیان کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے تاکہ ان کے مریدین اور عقید ت مند ان کے متعلق ظاہری معلومات سے بھی آگاہ ہو سکیں۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس نسلی تفاخر کے بالکل قائل نہیں۔ آپ نے تمام زندگی اپنے نام کے ساتھ کبھی بھی اپنی قوم یا گوت کا لاحقہ نہیں لگایا ۔ آپ کا مسلک تقویٰ ہے۔ جب بھی آپ سے آپ کی قوم یا گوت کے متعلق سوال پوچھا جاتا ہے تو جواب میں بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ شعر پڑھ دیتے ہیں:
بلھے شاہؒ دی ذات نہ کائی میں شوہ عنایتؒ پایا اے
مفہوم: بلھے شاہؒ کی کوئی ذات نہیں بلکہ جو میرے مرشد عنایت شاہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں میں وہی ہوں۔ میری جو بھی عزت و مقام ہے وہ میرے مرشد سے میری نسبت کی وجہ سے ہے
آپ مد ظلہ الاقدس کا حسب ’’فقر‘‘ ہے جو آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فخر اور نایاب ورثہ ہے۔ فقر اس کائنات کی بہترین نعمت اور بزرگی ، شرافت و نجابت اور حسب کااعلیٰ ترین معیار ہے۔ آپ مد ظلہ الاقدس اپنے خاندان کے لیے’’ فقر ‘‘کا حسب اور شرف کمانے والی بزرگ ذات خود ہیں۔نسبی لحاظ سے آپ مد ظلہ الاقدس کا تعلق قوم ارائیں سے ہے۔ ولایت اور بر گزیدگی اس قوم میں پہلے بھی کئی بزرگانِ دین کو عطا ہوئی ۔ بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد شاہ عنایت حسین رحمتہ اللہ علیہ، شیر ِ ربانی حضرت میاں شیر محمد (شرقپور شریف)، سائیں کرم الٰہی المعروف کاواں والی سرکار بھی ارائیں قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ ارائیں قوم سے تعلق رکھنے والے اولیا کرام کی تعداد ان گنت ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں ’’سلیم التواریخ‘‘ اور دوسری کتب)۔ عرب سے ہندو ستان آنے کے بعد یہ قوم ملتان اور اوچ (موجودہ ضلع بہاولپور میں ہے) کے علاقہ میں مقیم ہوئی اور وہاں آج بھی ان کے اولیا کرام کی سینکڑوں قبریں اور مزارات موجود ہیں۔
اگرچہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس کے بزرگ، خصوصاً آپ مد ظلہ الاقدس کے پردادا اور والد بھی زہد و ریاضت میں یکتا روزگار اور اعلیٰ درجات کے حامل تھے لیکن موجودہ دور میں اس قوم کے کامل اکمل ولی اور باعث ِ فخرو بزرگی آپ مد ظلہ الاقدس کی ہی ذات ہے۔ آپ مد ظلہ الاقدس کو نعمت ِفقر و ولایت نسبی وراثت کے طور پر نہیں ملی بلکہ آپ نے اپنی بے مثال جدو جہد، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اپنے مرشدِ پاک سے بے پایاں خلوص اور عشق کی بدولت اس کمال کو حاصل کیا۔
حسبی لحاظ سے تو آپ مد ظلہ الاقدس کا تعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث پاک مَنْ سَلَکَ عَلٰی طَرِیْقِیْ فَھُوَ آلِیْ ترجمہ:’’جو میرے راستہ (فقر) پر چلا وہی میری آل ہے‘‘، کے مطابق کا ئنات کے اعلیٰ ترین حسب سے ہے ہی لیکن نسبی طور پر بھی آپ مد ظلہ الاقدس کی قوم ارائیں کا شمار اعلیٰ ا قوام میں ہوتا ہے۔