Khlafat-aur-amanat-Sultan-ul-Ashiqeen

خلافت اور امانت

1/5 - (1 vote)

خلافت اور امانت

خلافت اور امانت

تلاش محرم راز اور وارثِ امانت اور منتقلی امانتِ الٰہیہ کو بیان کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ’امانت‘ اور ’خلافت‘ کے فرق کو واضح کر دیا جائے۔

                 خلافت

مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ اپنے بہت سے مریدین کو خلافت عطا کرتا ہے جن میں سے کچھ خلافت ظاہری اور کچھ باطنی ہوتی ہیں۔ خلافتِ ظاہری سے عام طور پر مرشد کے وصال کے بعد اس کے دربار اور خانقاہ کا نظم و نسق چلانا مقصود ہوتا ہے۔ عموماً اکثر سجادہ نشین حضرات خلافتِ ظاہرہ کے حامل ہوتے ہیں۔ جن مریدین کو خلافتِ باطنی عطا کی جاتی ہے وہ مرشد کی کسی نہ کسی صفت سے متصف ہوتے ہیں۔ مرشد چونکہ کلُ ہوتا ہے، وہ کسی مرید سے راضی ہو کر اس کو اپنی خاص صفت سے متصف فرما کر خلافت عطا کر دیتا ہے اور یہ خلیفہ اپنے مریدین کی اسی صفت کے تحت باطنی تربیت کرتا ہے۔ اسی صفت کے طالب اس طرح کے مرشد یا خلیفہ کے پاس آتے ہیں۔ تصوف کی عام فہم زبان میں ان خلفا کو ’خلفا اصغر‘ کہا جاتا ہے۔ سروری قادری سلسلہ میں یہ ’صاحب ِ اسم مرشد‘ ہوتے ہیں۔  

            امانت

امانت سے مراد امانتِ الٰہیہ، خلافتِ الٰہیہ، نیابتِ الٰہیہ یا امانتِ فقر ہے۔ منتقلی امانتِ الٰہیہ یا منتقلی امانتِ فقر اور محرم راز یا دل کا محرم سے مراد وہ طالب یا مرید ہوتا ہے جس کو مرشد اپنا روحانی ورثہ منتقل کرتا ہے اور اپنے بعد سلسلہ کا سربراہ یا امام منتخب کرتا ہے۔ اس کو تصوف کی اصطلاح میں خلیفہ اکبر کہتے ہیں۔یہ خلفا اصغر میں سے بھی کوئی ہو سکتا ہے جو تمام آزمائشوں اور امتحانوں میں کامیاب ہو چکا ہو یا کوئی اور طالبِ صادق بھی۔

شاہ محمد ذوقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف سرِّ دلبراں میں فرماتے ہیں:
وہ بارِ امانت جس کے متحمل ہونے کی صلاحیت آسمان و زمین نے اپنے آپ میں نہ پائی اور جس کی تاب پہاڑ نہ لاسکے اور جو بوجھ نہ صرف آسمان بلکہ آسمان والوں سے بھی نہ اُٹھ سکا اور حضرتِ انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا وہ ظہورِ وجودیعنی ’’ظہورِ ذات مع الاسما و صفات‘‘ ہے۔ اس کو اسمِ اللہ  ذات بھی کہا گیا ہے کیونکہ اسمِ اللہ ذات عین ذات ہے اور بصورتِ بشریت وہ انسانِ کامل ہے۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا    (سورۃ الاحزاب۔ 72)
ترجمہ: ہم نے بارِ امانت (امانتِ الٰہیہ) کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا سب نے اس کے اٹھانے سے عاجزی ظاہر کی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ (اپنے نفس کے لیے)ظالم اور (اپنی قدروشان سے) نادان ہے۔ 

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ کا فرمان ہے کہ امانت سے مراد ’اسم اللہ ذات‘ ہے اور اسم اللہ ذات کیا ہے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اسمِ اللہ بس گرانست بس عظیم
ایں حقیقت یافتہ نبی کریم ؐ

ترجمہ:اسم اللہ بہت ہی بھاری اور عظیم امانت ہے۔ اس کی حقیقت کو صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی جانتے ہیں۔

 سلسلہ سروری قادری کے فقرا کاملین کے نزدیک امانت سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ’ورثہ فقر‘ ہے، جو اس ’ورثہ فقر‘ کا وارث ہوتا ہے وہی حامل ِامانتِ الٰہیہ ہوتا ہے، وہی روحانی سلسلہ کا سربراہ اور امام ہوتا ہے اور وہی اپنے زمانہ کا سلطان ہوتا ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  خزانہ فقر کے مختارِ کل ہیں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم   کی وراثت ہے اور وارث ہی وراثت تقسیم فرماتا ہے۔ جب طالب فنا فی اللہ بقا باللہ، یا فنا فی ھُو یعنی وحدت کی منزل تک پہنچ جاتا ہے اور توحید میں فنا ہو کر ’سراپا توحید‘ ہو جاتا ہے تو انسانِ کامل، فقیرِکامل کے مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے، وہی امامِ مبین اور وہی مرشد کامل اکمل ہوتا ہے۔ حدیثِ نبوی ہے:
اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ 
ترجمہ:جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہی اللہ ہے۔ 
حاملِ امانتِ الٰہیہ وہ ہوتا ہے جو فنا فی فقر، فنا فی الرسول اور فنا فی ھوُ ہوتا ہے۔ 
حضرت موید الدین جندی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر روح البیان جلد اوّل، سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں اسمِ اعظم کے بارے میں فرماتے ہیں:
اس کے معنی وہ انسانِ کامل ہے جو ہر زمانہ میں ہوتا ہے یعنی وہ قطب الاقطاب اور امانتِ الٰہیہ کا حامل اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے اور’اسمِ اعظم‘کی صورت اس ولی کامل کی ظاہری صورت کا نام ہے۔  (تفسیر روح البیان، جلد اوّل، صفحہ 41 ،ترجمہ: مولانا محمد فیض اویسی، مکتبہ اویسیہ رضویہ بہاولپور)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ امانتِ الٰہیہ کے حامل کو ’صاحبِ مسمّٰی‘ فرماتے ہیں۔ صاحبِ مسمیّٰ سے مراد فنا فی اللہ بقا باللہ فقیر (انسانِ کامل) ہے جو مسندِتلقین و ارشاد پر فائز ہوتا ہے۔ یہی وہ ذات ہے جو مرشد کامل اکمل ہے اور اسمِ اللہ ذات عطا کرنے پر من جانب اللہ مامور ہے۔ جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اسم اور مسمّٰی میں کیا فرق ہے؟ صاحبِ اسم (محض) ذکر کرنے والا ہوتا ہے اور صاحبِ مسمیّٰ اللہ تعالیٰ کی ذات میں غرق ہوتا ہے۔ صاحبِ اسم مقامِ مخلوق پر ہوتا ہے اور صاحبِ مسمیّٰ مقامِ غیر مخلوق پر ہوتا ہے۔ صاحبِ مسمیّٰ پر ذکر حرام ہے کیونکہ صاحبِ مسمیّٰ ظاہر اور باطن میں ہر وقت حضوریٔ فنا فی اللہ میں مکمل طور پر غرق ہوتا ہے۔ (عین الفقر)

مسمّٰی آں کہ باشد لازوالی
نہ آں جا ذکر و فکر نہ وصالی
بود غرقش بہ وحدت عین دانی
فنا فی ،اللہ شود سِرِّ نہانی

ترجمہ: مقامِ مسمّٰی لازوال مقام ہے جہاں پر ذکر، فکر اور وصال کی گنجائش نہیں۔ اس مقام پر پہنچ کر طالبِ اللہ فنا فی اللہ فقیر ہوجاتا ہے اور اُس پر رازِ پنہاں ظاہر ہو جاتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمدنجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عارف اسے کہتے ہیں جو اسم سے مسمّٰی کو پاتا ہے۔(فقرِ اقبالؒ)

اسمِ اعظم اُسے نصیب ہوتا ہے جو صاحبِ مسمّٰی ہو۔جو صاحبِ مسمّٰی ہو جاتا ہے وہی صاحبِ اسمِ اعظم ہوتا ہے۔(حقیقت اسمِ اللہ ذات) 

یعنی وہ مظہرِالٰہی جس میں ظہورِ ذات مع الاسما و صفات ہوتا ہے یا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ طالب یا مرید جو مرشد کی ذات و تمام صفات کا مظہر ہوتا ہے اور اس کے لباس میں حقیقتاً مرشد ہی ملتبس ہوتا ہے کیونکہ وہ مرشد کی ذات میں مکمل فنا ہو چکا ہوتاہے ۔ یہ واحد ہوتا ہے اور ہر زمانہ کی شان کے مطابق عام طور پر نئی جگہ پر ظاہر ہوتا ہے۔ اصطلاحِ تصوف اور عام فہم زبان میں اسے ’’خلیفۂ اکبر‘‘ کے نام نامی اور اسمِ گرامی سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔  

امانت جس طالب کے سپرد کی جاتی ہے وہ ازل سے منتخب شدہ ہوتا ہے۔ اس کا باطن آئینہ کی طرح پاکیزہ اور صاف ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اُسے باطن میں بیعت فرما کر سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے سپرد فرماتے ہیں جو اس کی باطنی تربیت کے بعد مرشد کے سپرد فرماتے ہیں۔ مرشد اُسے مختلف ظاہری و باطنی آزمائشوں اور امتحانات میں سے گزارتا ہے۔ جس طرح سونا بھٹی میں تپ کر کندن بن جاتا ہے اسی طرح یہ طالبِ مولیٰ اپنے بے مثل صدق، اخلاصِ نیت، شدتِ عشق، وفا وقربانی اور فضلِ الٰہی کی بدولت آزمائشوں اور امتحانات سے گزرنے کے بعد اس لائق ہوجاتا ہے کہ امانت اس کے سپرد کی جا سکے۔ وہ مرشد سے بے انتہا عشق اور مرشد کی بے لوث خدمت کی وجہ سے مرشد کی نظر میں عاشق سے معشوق، محب سے محبوب بن جاتا ہے۔ وہی مرشد کے دِل کا محرم ، راز دار اور رازِ پنہاں سے باخبر ہوتا ہے۔ ’’امانت‘‘ کی منتقلی بھی اِن عاشق اور معشوق ، محرم اور محرمِ راز کے درمیان ایک راز ہوتی ہے جو خاموشی اور رازداری سے عمل میں آتی ہے۔ مثال کے طور پر سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز  رحمتہ اللہ علیہ  نے خلافت عطا کرتے وقت ظاہری طور پر سب کے سامنے اپنی دستار مبارک سر سے اتار کر اپنے بڑے صاحبزادے سلطان صفدر علی رحمتہ اللہ علیہ کے سر مبارک پر رکھی لیکن’’امانت‘‘ بڑی راز داری سے سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل فرمادیفَھِمَ مَنْ فَھِمَ (جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا) ۔

علامہ اقبالؒ اس کو یوں بیان فرماتے ہیں:

پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں
ہے مگر اس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق
اس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہیںپیرانِ طریق

(ضربِ کلیم)

جس طرح ہر طالب کو مرشدِ کامل اکمل کی تلاش ہوتی ہے تاکہ معرفتِ الٰہی تک رسائی حاصل کرسکے اسی طرح ہر مرشد کامل اکمل ’محرم راز‘ کی تلاش میں ہوتا ہے تاکہ اُسے ’امانتِ فقر‘ منتقل کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ بھی تمام عمر ایسے محرم راز طالب کی تلاش میں رہے۔ نور الہدیٰ کلاں میں آپؒ فرماتے ہیں:
میں سالہا سال سے طالبانِ مولیٰ کا متلاشی ہوں لیکن مجھے ایسا وسیع حوصلے والا لائقِ تلقین اور صاحبِ یقین طالبِ صادق نہیں ملا جسے معرفت و توحیدِ الٰہی کے ظاہری و باطنی خزانوں کی نعمت و دولت کا نصابِ بے حساب عطا کر کے تبرکاتِ الٰہی کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤں اور اللہ تعالیٰ کے حق سے اپنی گردن چھڑا لوں۔ 

اسی کتاب میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

در طلب طالب بطلبم سالہا
کس نیابم طالبی لائق لقا

ترجمہ:میں سالہا سال سے ایسے طالب کی تلاش میں ہوں جو لقائے الٰہی کے لائق ہو مگر افسوس مجھے ایسا طالب نہ مل سکا۔ 

عین الفقر میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہ فقیر باھوُ کہتا ہے کہ میں تیس سال مرشد کی تلاش میں رہا اور اب سالہاسال سے طالبِ مولیٰ کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے کوئی طالبِ مولیٰ نہیں ملا۔

کس نہ پرسد ز من خدا پرسی
تا رسانم بعرش و با کرسی
ہیچ پردہ نماند راہِ خدا
گشتہ یکتا شوی ز غیر خدا

ترجمہ: کسی نے مجھ سے قربِ خدا کی طلب نہیں کی ور نہ میں اسے عرش اور کرسی تک پہنچا دیتا۔ پھر اس کے اور اللہ کی راہ کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا اور وہ غیر اللہ سے جدا ہوکر اللہ کے ساتھ یکتا ہوجاتا ہے۔

امیر الکونین میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

کس نیابم طالبے حق حق طلب
میرسانم باحضوری راز ربّ

ترجمہ: میں کوئی بھی طالبِ حق نہیں پاسکا جو (مجھ سے) حق طلب کرے اور میں اسے رازِ ربّ عطا کرتے ہوئے حضورِ حق میں پہنچا دوں۔

باھوؒ کس نیامد طالبے لائق طلب
حاضر کنم با مصطفیؐ توحید ِ ربّ

ترجمہ: اے باھوؒ! میرے پاس کوئی بھی اللہ کی طلب لے کر نہیں آتا جسے میں مجلسِ محمدیؐ کی حضوری عطا کرکے وحدتِ حق تک لے جاؤں۔

پنجابی بیت کے ایک مصرعہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

دل دا محرم کوئی نہ ملیا، جو ملیا سو غرضی ھوُ 

مفہوم :مجھے کوئی ایسا طالب نہیں ملا جو میرے پاس صرف طلبِ مولیٰ کے لیے آیا ہو جس کو میں امانت منتقل کر سکتا۔ میرے پاس تو جو بھی آیا وہ کسی نہ کسی دنیاوی، نفسانی یا ذاتی خواہش کی تکمیل کی غرض سے آیا۔

امانت کی منتقلی کا ایک طے شدہ اصول ہے جس کو مولانا روم  رحمتہ اللہ علیہ نے مثنوی کے دفتر سوم میں یوں بیان فرمایا ہے:
اللہ تعالیٰ اپنی امانت ایسے شخص کے دِل میں ودیعت کرتا ہے جس کی زیادہ شہرت نہ ہو۔

سلسلہ سروری قادری کے مشائخ بھی ہمیشہ شہرت سے دور رہتے ہیں ۔ طالبانِ مولیٰ کے علاوہ نہ اُن کو کوئی جانتا ہے اور نہ ہی اُن کے مزارات کی شہرت دوسرے سلاسل کے مشائخ کی طرح ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس حدیثِ قدسی کے مصداق ہوتے ہیں :
اِنَّ اَوْلِیَآئِیْ تَحْتَ قَبَائِیْ لَا یَعْرِفُھُمْ غَیْرِیْ 
ترجمہ: میرے وہ اولیا بھی ہیں جو میری قبا کے نیچے چھپے رہتے ہیں، انہیں میرے سوا کوئی نہیں جانتا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فرمایا ’’ تمام بندوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہیں جو اہلِ تقویٰ ہیں اور پوشیدہ ہیں۔ اگر وہ غائب ہوں تو انہیں کوئی تلاش نہ کرے ، گواہی دیں تو پہچانے نہ جائیں۔ یہی لوگ ہدایت کے امام اور علم کے چراغ ہیں۔‘‘(طبرانی، حاکم)

اور فقر یہی ہے:

 ’’ہوویں سونا سداویں سکہ ھوُ ‘‘

(یعنی خالص سونا ہوتے ہوئے بھی لوگوں سے اپنی چمک چھپا کر رکھنا اور بظاہر لوہے کے سکے کی مانند نظر آنا)

اسی قسم کے طالبِ مولیٰ کو امانت منتقل ہوتی ہے جس کی شہرت نہ ہو اور گمنامی و خمول میں زندگی بسر کرتا ہو کیونکہ طلبِ شہرت و عزو جاہ تو راہِ فقر کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

انسانِ کامل کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کے لیے وزٹ کریں۔
http://urdu.sultan-bahoo.com/insan-e-kamil-faqeer-e-kamil-sultan-bahoo-ka-dushman-insan-e-kamil/

Spread the love